سوال:
کیا ہر سال حج کی خواہش رکھنے والوں کے لئے حج کرنا مستحسن ہے یا 3 برس میں ایک مرتبہ یا 2 سال میں ایک مرتبہ حج کرنا افضل ہے؟
جواب: (فتویٰ سعودی دارالافتاء)۔
اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب استطاعت مسلم مرد و خاتون پر زندگی میں ایک مرتبہ حج فرض کیا ہے۔ ایک سے زیادہ مرتبہ حج نفلی ہوگا اور اللہ تعالیٰ سے تقرب کا ذریعہ ہوگا۔ نفلی حج کتنی مرتبہ کیا جائے اور کتنی مرتبہ نہ کیا جائے اس بارے میں کوئی صریح ہدایت نہیں۔ ایک سے زیادہ مرتبہ حج کا تعلق ہر شخص کی مالی حیثیت اور جسمانی صحت سے ہے۔ علاوہ ازیں رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حالات پر بھی اس کا انحصار ہے۔ نیز امت مسلمہ کے مفادات عامہ کا بھی اس پر اثر پڑتا ہے۔ مفادات بدلتے رہتے ہیں۔ امت کے مفادات بدلتے رہتے ہیں۔ امت کے مفادات میں جانی اور مالی حصہ داری سے بھی اس کا تعلق ہے۔ ہر شخص کو اپنے حالات دیکھ کر از خود فیصلہ کرنا ہے کہ اسے انتہائی منافع بخش امر کو کم منافع بخش امر کے مقابلے میں ترجیح دینا ہے۔
(فتویٰ سعودی دارالافتاء۔ دستخط: شیخ عبدالعزیز بن باز، شیخ عبدالرزاق عفیفی، شیخ عبداللہ بن غدیان، شیخ عبداللہ بن قعود)۔
ممتاز عالم دین اور سابق مفتی اعلیٰ سعودی عرب علامہ عبدالعزیز بن باز کہتے ہیں ۔۔۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بار بار حج کا بڑا ثواب ہے تاہم حالیہ برسوں کے دوران ٹرانسپورٹ سہولت کی وجہ سے حج مقامات پر رش بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ دنیا بھر سے افراد بڑی تعداد میں حج کے لئے پہنچ رہے ہیں۔ امن و امان کا ماحول بھی حج پر آمادہ کر رہا ہے۔ یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ طواف اور عبادات کے مقامات پر مرد و زن کا اختلاط بھی بڑھ رہا ہے۔ بہت ساری خواتین آزمائش میں ڈالنے والے اسباب سے پرہیز نہیں کر رہیں۔ ہماری رائے یہ ہے کہ خواتین بار بار حج سے اجتناب کریں۔ یہی ان کے لئے زیادہ بہتر ہے۔ یہی ان کے دین کے لئے زیادہ تحفظ کا باعث ہے۔ یہی رائے مردوں کے لئے بھی ہے۔ اگر وہ دوسرے حاجیوں کو حج کا موقع مہیا کرنے اور اژدحام کرنے کی نیت سے ایک سے زیادہ بار حج نہ کریں تو بہتر ہوگا۔
ہمیں امید ہے کہ اگر نیک نیتی سے بار بار حج سے باز رہا جائے تو نیک نیتی کا اجر ضرور ملے گا۔ خاص طور پر ایسے افراد جن کے ساتھ ان کے ماتحت بھی حج پر جاتے ہوں اور ان کی وجہ سے طواف ، سعی اور رمی وغیرہ میں دیگر حجاج کو پریشانی لاحق ہوتی ہو ، بار بار حج سے اجتناب کریں۔
یاد رکھیں کہ اسلامی شریعت کے دو بنیادی اصول ہیں:
ایک تو اسلامی مفادات کا حصول ، اس کی تکمیل اور حتی الامکان اس کی نگہداشت میں مضمر ہے
جبکہ دوسرا اصول ہر طرح کے نقصانات اور برائیوں کے ازالے یا کمی کی کوشش میں مضمر ہے۔
امت مسلمہ کے علماء ، صلحا خصوصاً پیغمبروں کی تعلیمات کا دائرہ انہی دو اصولوں کے ارد گرد گھوم رہا ہے۔
ایک اور ممتاز سعودی عالم دین سلمان بن فہد العودۃ کہتے ہیں ۔۔۔
بہت سارے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ میرے تنہا حج پر جانے سے کسی کا کیا نقصان ہو جائے گا؟ ایک فرد کے اضافے سے آخر کون سی قیامت آ جائے گی؟ میں اگر نہیں گیا تو میرے نہ جانے سے اس کا کیا فائدہ ہو جائے گا؟
یہ عجیب و غریب قسم کی منطق ہے۔ یہ خودپرست ذہنیت کا پتا دیتی ہے۔ یہ احساس ذمہ داری کے فقدان کی نشاندہی کرتی ہے ۔۔۔ اگر ہر کوئی یہ عہد کر لے کہ وہ اپنے نفلی حج کا خرچ اپنے مسلم بھائیوں پر کر دے گا اور اس جگہ سے بھی دستبردار ہو جائے گا جو حج پر جانے کی صورت میں وہ منیٰ ، عرفات ، مزدلفہ ، خانہ کعبہ ، جمرات ، راستوں سواریوں میں حاصل کرتا ہے تو ہم حج میں دیکھا جانے والا رش کم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ، حج کو آسان بنانے میں معاون بنیں گے۔
مسلمانوں کو اذیت ناک انجام سے بچانے اور مشاعر مقدسہ میں جان گنوانے سے بچانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ حج پیکج کا صدقہ حج ایام میں بڑے اجر و ثواب کا کام ہوگا۔ علاوہ ازیں مسلم ممالک میں آنے والے زلزلوں ، قحط سالیوں اور دسیوں برس سے نہ ختم ہونے والی جنگوں نیز قدرتی آفات سے متاثرین کی مدد کا ثواب غیر معمولی ہوگا۔
اگر کچھ لوگ اس رقم (نفل حج) کے محتاج ہوں تو انہیں رقم دے دینا زیادہ افضل ہے۔ ابومسکین کا کہنا ہے کہ سلف الصالحین کی رائے تھی کہ بار بار حج سے صدقہ افضل ہے۔ یہی امام النخعی کا قول بھی ہے۔
حالیہ دنوں میں جبکہ حجاج کرام فرائض حج کی ادائیگی کے سلسلے میں ناواقفیت ، اژدحام اور بدنظمی وغیرہ کی وجہ سے مختلف مسائل سے دو چار ہیں ۔۔ ایسے حالات میں بار بار حج پر پابندی لازماً ہونی چاہئے۔
بشکریہ : اردو نیوز ، روشنی سپلیمنٹ ، 12/اکتوبر/2012ء
***
میرے عزیزو !
آؤ حج بیت اللہ ، عمرے اور مدینے کی زیارتوں کیلئے ۔ بار بار آؤ۔
لیکن اپنے شوقِ عبادت کو پورا کرنے کیلئے نہیں بلکہ اُس عظیم مقصد کو اپنی زندگی کا مقصد بنانے کے عزم کے ساتھ آؤ جس کی خاطر اللہ تعالیٰ نے اِن عبادتوں کا حکم دیا ہے۔
مدینے والے (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اپنی جان و مال لٹا دینے کے دعوے کرنے والو آؤ اور مدینے والے (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ایک ایک فرمان کو پورا کرنے کیلئے اپنی جان لٹادینے کی قسم کھانے کو آؤ۔
اُن کا فرمان ہے کہ مسلمان سب کچھ ہو سکتا ہے جھوٹا نہیں ہو سکتا۔
اُن کا فرمان ہے کہ دوسرے کیلئے وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو۔
ان کا فرمان ہے کہ سچا تاجر قیامت کے روز انبیاء کے ساتھ اُٹھایا جائے گا۔
ان کا فرمان ہے کہ جس شخص کی کمائی میں ناجائز آمدنی کا ایک لقمہ بھی شامل ہو اُس کی دعائیں زمین سے ایک ہاتھ بھی اوپر نہیں اُٹھائی جائیں گی۔
اُن کا فرمان ہے کہ جو بندہ اوروں کی خدمت میں لگ جاتا ہے فرشتے اُس کے کاموں میں لگ جاتے ہیں۔
اگر مدینے والے صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ ہے تو اُن کے اِن فرامین کو اپنی زندگی کا مقصد بنانے کی قسم کھانے ایک بار آجاؤ اور پھر دیکھو کہ کیسے زمانے بھر میں انقلاب آتا ہے۔
ان شاء اللہ ! وہ انقلاب آئے گا کہ جب آپ اِس عمرے یا حج سے لوٹ کر جائیں گے تو آپ کا وجود ایک مکمل دعوت بن جائے گا جس کے نتیجے میں کروڑوں ہندو ، عیسائی اور دوسرے تمام باطل مذاہب کے ماننے والے عمرہ یا حج کرنے کی تمنّا کریں گے ان شاء اللہ۔
اور اگر اِس مقصد کے بغیر آنا چاہتے ہو تو یاد رکھو یہ فقط ایک مذہبی پکنک کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
اِس سے کہیں بہتر ہے کہ معاشرے کی فلاح کے کسی کام میں یہ پیسہ لگا دو تاکہ دوسرے انسانوں کی زندگی کو فائدہ پہنچے اور ان کی دعائیں آپ کی آخرت کا سامان بن جائیں۔
اللہ تعالٰی ہم تمام کو یہ نکات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے !!
کُند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغِ بے نیام
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
بشکریہ :
خدارا ! حج اور عُمرہ کو ایک مذہبی پکنک نہ بنائیے
نفل عمرے اور حج ادا کرنے والوں کے نام ایک کھلا خط
For Allah’s sake, Don’t make Haj and Umrah -A Holy Picnic
مصنف : علیم خان فلکی
مکمل مضمون پڑھئے : یہاں
بہت شکریہ جناب
جواب دیںحذف کریںاللہ ہمیں بھی حج کی سعادت نصیب فرمائے
آمین
بہت بہتر لکھا ہے ۔شکریہ
جواب دیںحذف کریںبہت زبردست اور سوچنے و عمل کرنے لائق تحریر ہے ۔ ۔ ۔
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ حیدرآبادی صاحب ۔ ۔ ۔