ہندوستان کی جانب سے پاکستان کو "پسندیدہ ملک" کا درجہ 16 سال پہلے ہی دیا جا چکا تھا۔ لیکن ۔۔۔ 1998ء میں دونوں جانب نیوکلیر ہتھیاروں کی نمائش ، کارگل جنگ ، پھر دہشت گردانہ حملے ۔۔ اس سلسلے کو سیدھی راہ پر آگے نہ لے جا سکے۔
گذشتہ ماہ پاکستانی دورے پر آئے صنعتی اور تجارتی ہندوستانی نمائیندوں کو حکومت پاکستان نے یقین دلایا تھا کہ اس سال کے اواخر تک پاکستان ، ہندوستان کو "ایم ایف این" کا درجہ دے گا مگر پھر کئی مسائل میں گھری پاکستان حکومت کیلئے یہ وعدہ مشکل ثابت ہوا۔
پاکستان کے کچھ صنعتی شعبوں میں ، مثلاً وہاں کی کپڑا صنعت کو یہ فکر ہے کہ ہندوستان کے لئے پاکستان کے بازار کھلنے کے بعد ان کے لئے خود کو بچانا مشکل ہو جائے گا۔ ان کی اس فکر کے زیر اثر پاکستانی حکومت نے "منفی فہرست" کا سائز دگنا کر دیا ہے لیکن اس فہرست کو صفر پر لانے کے مسئلے کو جوں کا توں برقرار رکھا ہے۔
یہاں کچھ باتیں ہندوستان کی جانب سے بھی صاف ہونی چاہئے۔
کہنے کو تو ہم نے گذشتہ 16 سال سے پاکستان کو "ایم ایف این" کا درجہ دے رکھا ہے لیکن ۔۔۔ گذشتہ سال پاکستان کو ہم نے 2 ارب 33 کروڑ روپے کا سامان بیچا مگر پاکستان سے صرف 33 کروڑ روپے کا ہی مال خریدا ہے!
یکسانیت میں اس طرح کی کمی کی وجہ یہ نہیں ہے کہ پاکستان کے پاس ہمیں فروخت کرنے لائق اشیاء کی کمی ہے بلکہ چند وجوہات یہ ہیں کہ :
- ہم پاکستان کو ان اشیاء کے لئے اشتہار بازی کی اجازت نہیں دیتے
- پاکستانی صنعت کار / تاجر کو کریڈٹ کی سہولت نہیں دی جاتی
- دونوں ممالک کے بنکوں کے درمیان لین دین کی اجازت نہیں دیتے
امید ہے کہ آئیندہ 10 مہینوں میں ان سبھی محاذوں پر لگی بندشیں ہٹا کر ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کو بہتر مقام تک پہنچایا جا سکے گا۔
بشکریہ :
गहरे रिश्तों की ओर (گہرے رشتوں کی جانب)
اداریہ : نوبھارت ٹائمز (ہندی)۔ ٹائمز آف انڈیا پبلی کیشنز ، دہلی۔ 2/مارچ/2012
गहरे रिश्तों की ओर (گہرے رشتوں کی جانب)
اداریہ : نوبھارت ٹائمز (ہندی)۔ ٹائمز آف انڈیا پبلی کیشنز ، دہلی۔ 2/مارچ/2012
اللہ ہم سب پاکستانیوں کو اس قسم کے گہرے رشتوں سے محفوظ رکھے۔
جواب دیںحذف کریںاللہ تعالیٰ اس منحوس چپل چور صدر کو موت عطا فرمائے جو رہے سہے پاکستان کا بیڑا غرق کرنے میں کسی بھی قسم کی کسر نہیں چھوڑ رہا۔