ہندوستان میں پہلی مرتبہ ریاست آندھرا پردیش کے وقف بورڈ (آندھرا پردیش اسٹیٹ مسلم وقف بورڈ) نے 18/فبروری/2012ء کو متفقہ طور پر ایک اہم قرار دار منظور کی ہے اور وقف بورڈ کے زیرانتظام قادیانی طبقہ کی جائیدادوں کو اپنی فہرست سے حذف کرتے ہوئے انہیں محکمہ انڈومنٹ [AP Endowments Department] کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس اہم ترین فیصلہ سے قبل وقف بورڈ کے چیرمین مولانا سید شاہ غلام افضل خسرو بیابانی کو فون پر سنگین نتائج و عواقف کی دھمکیاں وصول ہوئیں جس پر انہوں نے پولیس میں شکایت بھی درج کروا دی۔ اس واقعہ کا علم ہوتے ہی بیشمار علماء کرام اور مسلم تنظیمیں وقف بورڈ پر جمع ہو گئیں۔
وقف بورڈ کے اس فیصلے کی تائید میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے نمائیندگان مولانا عبدالمغنی مظہری اور محمد ارشد علی قاسمی نے وقف بورڈ کے اعلیٰ عہدیداروں پر واضح کیا کہ : یہ مسلمانوں کے متفقہ عقیدے کا معاملہ ہے اور اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا !
اسلامک اکیڈمی برائے تقابل مذاہب کے صدر آصف الدین محمد نے بیان کیا کہ :
قادیانیت ایک بالکل علیحدہ مذہب ہے اور اس کا مسلمانوں اور اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ وقف بورڈ کا یہ فیصلہ ، گو کہ تاخیر سے سہی ، مگر قابل تحسین ہے۔
ریاستی مسلم وقف بورڈ نے آندھرا پردیش حکومت سے درخواست کی ہے کہ :
مسلم اوقاف میں قادیانی طبقے کی جو جائیدادیں درج تھیں ، اب انہیں اوقاف سے خارج کر دیا گیا ہے کیونکہ عالم اسلام کے تمام مسالک اور مکاتب فکر کے متفقہ فیصلہ کے مطابق قادیانی طبقہ "خارج از اسلام" ہے ، لہذا اب ان جائیدادوں کو محکمہ انڈومنٹ کے حوالے کر دیا جائے۔
واضح رہے کہ عرصہ دراز قبل ریاستی مسلم وقف بورڈ میں "فرقہ احمدیہ" کے عنوان سے ان کے طبقہ کی فلاح کے منشا کے تحت جائیدادیں درج اوقاف کی گئی تھیں ، ان میں حیدرآباد میں 3 ، محبوب نگر میں 3 اور کھمم میں 2 جائیدادیں شامل ہیں۔
آندھرا پردیش مسلم وقف بورڈ نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ مسلمانوں کی جو مساجد اور ادارے قادیانیوں کے قبضہ اور تصرف میں ہیں ، انہیں واپس حاصل کیا جائے گا۔ اور ایسی مساجد اور مذہبی ادارے جن کا علم وقف بورڈ کو نہیں ہے ، اگر بعد میں اطلاع ملے تو بورڈ ان کی بھی بازیابی کرے گا۔
ریاستی وقف بورڈ کے دفتر "حج ہاؤس" نامپلی پر سینکڑوں مسلم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد نے وقف بورڈ کے اس فیصلے کی تائید کی اور قادیانیوں کی مخالفت میں مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے خلاف نعرے بھی لگائے۔
قادیانی طبقہ کا کوئی نمائیندہ وقف بورڈ کے اس اہم ترین فیصلہ پر اپنا ردّعمل ظاہر کرنے کے لئے دستیاب نہ ہو سکا۔
Author Details
Hyderabadi
ہمارے ہاں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اس فیصلہ کو تنگ نظری اور شدت پسندی قرار دیں گے
جواب دیںحذف کریںاصل حقيقت يہ ہے؛
جواب دیںحذف کریںIndia: Ahmadiyya mosques threatened in Hyderabad by Wakf Board chairman
http://ahmadiyyatimes.blogspot.com/2012/02/india-ahmadiyya-mosques-threatened-in.html
ملا ہميشہ کی طرح فتنہ پے آمادہ ہے-
اجنبی صاحب ۔۔۔ فتنہ پرور کون ہے ، ہم خوب جانتے ہیں الحمدللہ۔
جواب دیںحذف کریںآپ قادیانی طبقہ کی نمائیندگی والی رپورٹ کا لنک لے آئے ہیں جو جھوٹی ، بےبنیاد اور شرانگیز ہے۔ اگر اس خبر میں ذرہ برابر بھی صداقت ہے تو ذرا کسی انگریزی یا ہندی اخبار کی ایسی ہی خبر کا لنک دیجیے جو قادیانی طبقے کی طرف سے نہ ہو بلکہ غیرمسلم اخبار کی اپنی رپورٹنگ پر مبنی ہو۔
ویسے اس مضحکہ خیز رپورٹ کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ ۔۔۔۔ اگر ہمارے مسلم وقف بورڈ کا ارادہ "غیر مسلم قادیانی عبادت گاہوں" پر قبضے کا ہوتا تو وہ آندھرا پردیش حکومت سے یہ درخواست ہرگز بھی نہ کرتی کہ قادیانی جائیدادوں کو ہندو اوقاف کے تحت کر دیا جائے بلکہ حکومت کو بتائے بغیر بالا ہی بالا ان پر قبضہ کر لیا جاتا۔
کہئے کیا خیال ہے؟ اس کو کہتے ہیں : جھوٹے کا منہ کالا سچے کا بول بالا !!
اور ہاں اجنبی صاحب ۔۔۔۔ آپ کی نیوز ویب سائیٹ کے اس لطیفے کو پڑھ کر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوتا رہا۔ بھیا ، یہ جو آپ کے نمائیندے نے لکھا ہے :
جواب دیںحذف کریںa newspaper, The Siasat Daily, caries anti-Ahmadiyya articles
The Siasat Daily, allegedly the anti-Ahmadiyya news website
ذرا اپنے اس نمائیندے سے کہنا کہ "سیاست" کے ساتھ گذشتہ چند سال قبل کے اپنے "قریبی تعلقات" کی کھوج کرید بھی کر لے۔ ذرا گوگل سرچ کر لیں تو پتا لگ جائے کہ قادیانیوں نے کس طرح "سیاست" کو "ٹشو پیپر" کی طرح استعمال کیا تھا اور کس طرح "سیاست" کے صفحہ اول پر اپنی عبادت گاہوں کے اشتہارات لگائے تھے؟
اب کیا ہوا پاشا؟ "سیاست" کے ساتھ دشمنی ہو گئی ہے کیا آپ لوگوں کی؟
اللہ تعالیٰ ہمارے لیے آسانیاں پیدا فرمائے۔
جواب دیںحذف کریںcolourislam.blogspot.com
یہ تبصرہ بلاگ کے ایک منتظم کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںاجنبی صاحب
جواب دیںحذف کریںمیرے بلاگ پر اسپیم فلٹر ہے۔ آپ ایک سائیٹ کا لنک ایک بار دے سکتے ہیں ، دوسری بار دینے جائیں تو آپ کا تبصرہ اسپیم میں چلا جائے گا۔ میں نے آپ کا پچھلا والا تبصرہ اسپیم سے نکالا تو ہے مگر حذف بھی کر دیا ہے۔
حذف کرنے کی وجہ میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ اگر اتنا ہی دم ہے اپنی بات میں تو ثبوت اپنے گھر سے مت دیجیے بلکہ غیرجانبدار میڈیا سے لائیے۔
ویسے حیدرآباد اور اہل حیدرآباد نے گذشتہ چند عرصے میں اس فتنہ کے خلاف جو سخت قدم اٹھائے ہیں ۔۔۔ اس پر آپ لوگوں کی بوکھلاہٹوں کو دیکھ کر مزید تصدیق ہو رہی ہے کہ اس فتنہ کو کچلنا ہمارے لیے کتنا ناگزیر امر بن چکا تھا۔
اللہ امت مسلمہ کو ارتداد کے اس فتنہ سے بچائے رکھے ، آمین۔
کس کو بیوقوف بنانے چلے آپ؟ آپ کا گوگل بلاگر آسمان سے اترا ہے کہ آپ ہمیں سپیم فلٹر کی جھوٹی اسطلاحیں سنانے چلے۔ہم بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ سپیم فلٹر کیسے کام کرتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںسیدھی بات تو یہ ہے کہ سچ کاآپ سے اور نہ اپکے کرتوں دھرتوں سے کبھی گذارا ہوا ہے۔
جس طرح آپ نے سپیم فلٹر حھوٹ اتنی آسانی سے لکھ دیا، اسی اسانی سے آپنے اپنی رپورٹ بھی لکھی تھی اور سچ رپورٹ آپ کی برداشت سے باہر تھی۔
آللہ آپکے جھوٹ کو آپ سے منہا کر کے پاقی آپکا سب کچھ سلامت رکھے۔ آمین
اجنبی بھائی جان ، جھوٹ بول کر مجھے آپ سے یا پڑھنے والوں سے کیا لینا دینا ہے بھلا؟
جواب دیںحذف کریںاگر میری کوئی ذاتی دشمنی آپ سے یا آپ کے نمائیندگان سے ہوتی تو وہ پہلا تبصرہ بھی "اسپیم" کے بہانے کی نذر ہو جاتا جس میں آپ کی مخصوص سائیٹ کی خبر کا لنک ہے۔
اور حضور ۔۔۔ رپورٹ آسانی سے نہیں بلکہ باقاعدہ تحقیق کے بعد لکھی گئی ہے۔ ابھی آپ کو علم ہی کیا ہے کہ غریب خاکسار کے صحافتی تعلقات کیسے ہیں اور آندھرا پردیش مسلم وقف بورڈ سے میرے مراسم کی نوعیت کتنی پرانی ہے؟
ختم نبوت کے دہشتگرد پاکستان ميں تو دہشتگردی کرتے ہيں، بھارت ميں بھی پيچھے نہيں-
جواب دیںحذف کریں