از طرف :
رشید انصاری (رابطہ ای-میل)
6 / دسمبر ہر سال آتا ہے اور ہمیں بابری مسجد کی شہادت کے المناک واقعہ کے ساتھ ہندوستان میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی اور فاشزم اور حکومت کی مشنری میں محدود پیمانے پر سہی لیکن ہر سطح (وزراء سے لے کر ایک پولیس کانسٹبل تک) پر پائے جانے والے تعصب اور مسلم دشمنی سے صرف مسلمانوںکو ہی نہیں بلکہ پوری قوم اور ملک کو لاحق خطرات سے آگاہ کرتا ہے گو کہ بابری مسجد کی شہادت کے کلیدی مجرم نرسمہا راؤ جیسا فرقہ پرست ، مسلم دشمن اور نااہل شخص نہ وزیراعظم بنا ہے اورنہ ہی بن سکے گا۔ سیکولرازم کا دم بھرنے والی تمام جماعتوں کانگریس اور سنگھ پریوار دونوں ہی بابری مسجد کی شہادت کے جرم میں برابر کی شریک ہیں۔
یہ گڑے مردے اکھاڑنا، یا زخموں کو ہرا کرنا نہیں ہے بلکہ ماضی سے سبق لینے کیلئے بابری مسجد کے ماضی کا ذکر انگریزوں، کانگریس اور سنگھ پریوار کے حوالے سے اختصار کے ساتھ پیش ہے۔
شہنشاہ بابر کے ایک سپہ سالار میر باقی نے 1528ء میں ایودھیا (ضلع فیض آباد) میں بابری مسجد تعمیر کروائی تھی۔ 1528ء سے لے کر 1850ء کے بعد تک بھی یہ بات کسی نے نہیں کہی تھی کہ بابری مسجد کسی مندر (خاص طور پر رام چندر جی کے مقام پیدائش ) رام جنم بھومی کی جگہ بنے مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی ویسے رام چندر جی کا مقام پیدائش ایودھیا ہونا نیز رام چندر جی کی حقیقی تاریخی حیثیت ہی مشتبہ باتیں ہیں حد تو یہ کہ بابری مسجد کی جگہ پر رام چندر جی کے مقام پیدائش کا ہونا گذشتہ سال الٰہ آباد ہائی کورٹ نے دلیل و ثبوت کی بنیاد پر نہیں بلکہ "عقیدے " کی بنیاد پرتسلیم کرکے نہ صرف خود کو مذاق کا موضوع بنالیا بلکہ ملک کی عدالت عظمیٰ نے بھی عدالت عالیہ الٰہ آباد کے اس فیصلے کو " عجیب و غریب" قرار دے کر عدالتی فیصلہ پر اعتراض کرنے کا جواز پیدا کردیا ہے ۔
بابری مسجد رام جنم بھومی مسئلہ انگریزوں نے ہی پیدا کیا تھا۔ اس کے ساتھ ان ہی بیکر صاحب نے کئی ایسے فتنہ انگیز نکات پیش کئے جنہوں نے ایک غیر متنازع بات کو متنازع بنانے میں اہم حصہ لیا ہے ۔ ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے ہنس بیکر نے ہی 1008ء میں " جنم بھومی مندر" کی تعمیر کی بات لکھی تھی۔ انگریزوں کی ریشہ دوانیوں میں یہ امر بھی شامل ہے کہ 1855ء کی پہلی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد ایودھیا میں انگریزوں کی افواج اور انگریزوں کے نمک خوار ہندو زمینداروں اور تعلقہ داروں نے مل کر ہنومان گڑھی کی مسجد شہید کی اور مسجدیں بھی توڑیں جب مولوی امیر علی امیٹھوی نے مساجد کو واگذار کرنے کیلئے کاکارروائی کی تو تاریخ حدیقہ شہدا اور قیصر التواریخ کے مورخین کا خیال ہے کہ انگریزوں کے توپ خانے کی زد میں آکر مجاہدین شہید ہوئے اور بعد ازیں انگریزوں نے مولوی امیر علی کو سزائے موت دے کر شہید کردیا۔ اس کے بعد مقدمہ بازی تو ہوتی رہی لیکن کوئی خاص مسئلہ پیدا نہ ہوسکا (افکار ملی ماہنامہ ۔ بابری مسجد نمبر2003) اس کے بعد انگریزوں نے اپنی سروے رپورٹس ، انتظامیہ کے شائع کردہ گزیٹرس وغیرہ میں بابری مسجد کے بارے میں لکھنا شروع کیا کہ یہاں پہلے مندر تھا چنانچہ اس سلسلے میں " مانگمری مارٹن اور پی کارینگی کی رپورٹس نے قیاسات کی بنیاد پر مندرکی جگہ مسجد کے مفروضے پیش کئے ۔
1870ء میں فیض آباد تحصیل کا بندوبست ہونے لگا تو قائم مقام ڈپٹی کمشنر پی کارینگی P.CARENGY نے تین مندروں (بشمول رام جنم بھومی استھان) کی جگہ مسجدوں کی تعمیر کا فتنہ چھیڑا تھا وہ بھی " مقامی طور پر سے یقین کئے جانے کی بنیاد پر" (نہ کہ کسی تاریخی شواہد یا ثبوت) کارینگی کی رپورٹ وہ پہلی رپورٹ جس میں مسجد مندر مسئلہ کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس کے بعد برطانوی حکومت کے دور میں جن جن دستاویزات میں اسی رپورٹ کو بنیاد بناکر اور نمک مرچ لگاکر پیش کیا گیا ۔
1871ء میں ملک میں آثار قدیمہ کا محکمہ قائم کیا گیا ۔ آثار قدیمہ کے تعلق سے اہم کام الیگزینڈر کننگھم نے انجام دیا ۔ اس نے بھی مسلمانوں پر مندر مسمار کرنے کی باتیں لکھیں ۔ انگریزوں کی کوشش یہی تھی کہ ایک بڑی قضیہ کھڑا کردیا جائے وہ اس میں کامیاب رہے (بابری مسجد ۔ سید صباح الدین) ۔ انگریزوں نے اس قضیہ کو بڑھانے کی تدابیر کیں اور یہ تاثر قائم کیا کہ مندرکو مسمار کرکے بابری مسجد بنائی گئی تھی۔ بابری مسجد کے مقابل ایک خالی جگہ جو " جنم استھان" کہلاتا تھا صدہا برس سے خالی پڑا تھا تاہم ہندو وہاں پوجا ضرور کرتے تھے۔ 1963ء میں تھانیدار کی اعانت سے راتوں رات ایک چبوترہ بنالیا اور اس کو بڑا کرنے کی کوشش بھی کرتے رہے چنانچہ بابری مسجد کے متولی ، خطیب اور موذن محمد اصغر نے اس سلسلے میں1983ء اور 1984میں دو درخواستیں دی تھیں جس کا ذکر سید صباح الدین نے " بابری مسجد" نامی کتاب میں درج کیا ہے۔ دوسری جانب1985ء میں مہنت رگھو ویر داس اور دوسرے مہنتوں نے چبوترہ پر مندر تعمیر کرنے کی اجازت کیلئے عدالت میں درخواست دی تھی ۔ واضح ہو کہ یہ چبوترہ مسجد سے باہر تھا اور اس عرضی میں یہ دعویٰ نہیں کیا گیا تھا کہ بابری مسجد مندر توڑ کر بنائی گئی ہے ۔ نہ ہی بابری مسجد کو حاصل کرنے کی درخواست کی گئی تھی ۔ فیض آباد کے سبجج پنڈت ہری کشن نے یہ درخواست خارج کردی تھی ۔ اس فیصلے کے خلاف مہنتوں نے جواپیل کی تھی وہ بھی ڈسٹرکٹ جج نے خارج کردی لیکن انگریز جج (ایف ۔ اے چیمپئر) نے اپنے فیصلے میں بغیر کسی دلیل کے انگریز مؤرخوں کی پیروی میں لکھا کہ " یہ بات افسوسناک ہے کہ ایک مسجد ایسی زمین پر بنائی گئی جو ہندوؤں کے نزدیک خاص تقدس رکھتی ہے لیکن کیوں کہ واقعہ 356 سال قبل پیش آیا تھا لہٰذا اب اس کا تدارک ممکن نہیں ہے ۔ جملہ فریقین موجودہ حالت کو برقرار رکھیں"
(بابری مسجد اے ٹیل ان ٹولڈ A tale untold صفحہ 50 / محمد جمیل اختر)
1885ء کے بعد فریقین نے خاموشی اختیار کرلی تھی ہندوؤں نے بابری مسجد پر کوئی دعویٰ نہیں کیا وہ مسجد سے باہر واقع چبوترے پر پوجا کرتے رہے لیکن یہ خاموشی اور قضیہ کا آگے نہ بڑھنا انگریزوں کو پسند نہ تھا چنانچہ1905ء میں ایچ آر نیویل نے فیض آباد گزیٹر مرتب کیا اور صفحہ : 153 پر لکھا ۔۔
" 1528ء میں بابر نے اس روایتی جگہ پر اجودھیا میں مسجد بنائی جہاں رام پیدا ہوئے تھے" ۔ اس نے یہ بھی لکھا تھا " یہاں مسلمان حاکم کی موجودگی اور اس کے دربار کی وجہ سے ہندوؤں کی مقدس جگہیں پس پشت پڑگئیں" نیویل نے وہی جھوٹ باتیں دہرادی ہیں جو ماضی میں انگریز کہتے رہے تھے لیکن اس نے ہر بات یوں وثوق سے لکھی جیسے کہ ثابت شدہ تاریخی حقائق لکھ رہا ہے جبکہ اس کے پیشرو " قیاس ۔ مانا جاتا ہے" وغیرہ کے سہارے جھوٹ لکھا کرتے تھے۔ مسز اے ایس بیورج نے 1922ء میں تزک بابری کا انگریزی میں ترجمہ کیا اس کی بددیانتی کا حال یہ ہے کہ جب اس کو بابرنامہ مغلوں کے عہد کی کسی تاریخ سے یہ پتہ نہ چل سکا کہ بابرنے رام جنم استھان کو مسمار کرکے وہاں ایک مسجد بنائی تو اس نے بابرنامہ کے صفحہ656 پر 1905ء کے گزیٹر ایچ آر نیویل کا ہی بیان نقل کردیا بیورج نے بھی محقق کی جگہ قیاسات پر مبنی خیالات کا اظہار کیا ۔ اس نے بابرکی ایودھیا آمدکا ذکرکیا لیکن اس نے یہ بات قیاساً(Presumable) سے شروع کی ہے اوریہ بھی حیرت انگیز انکشاف کردیا کہ " تزک بابری" میں 935ھ (م 1528ء) کے چند جزوی واقعات تحریر نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے اودھ کے متعلق معلومات حاصل نہیں کئے جاسکے۔
یہ تو تھیں انگریزوں کی ریشہ دوانیاں اور جوبات قضیہ نہ تھی اسے قضیہ بنانے کی کوشش کے احوال ۔
عام طور پر مانا جاتا ہے کہ آزادی کے بعد 22 اور 23 دسمبر کی درمیانی شب کو اچانک شر پسندوں نے بابری مسجد کا تالا توڑ کر مسجد میں گھس کر منبر کے پاس مورتیاں رکھ دیں لیکن ساری بات یوں نہیں ہے اس سلسلے میں کانگریس کا رول شروع سے آحر تک قابل مذمت رہا واضح ہو کہ بابری مسجد میں مورتیاں جب رکھی گئیں تب سے 1986ء میں بابری مسجد میں پوجا کی اجازت دیئے جانے اور 1992ء میں مرکز میں کانگریس کا راج تھا بلکہ اتر پردیش میں بھی زیادہ تر کانگریس کا راج رہا۔ سنگھ پریوار تو 1984ء میں مندر مسجد معاملے میں سامنے آئی تھی۔ ملک جب آزاد ہوا، گاندھی جی کے قتل سے پہلے اور بعد ایودھیا اور فیض آباد وغیرہ میں کیاحالات تھے اس کا اندازہ گاندھی جی کے چیلے اوررکن پردیش کانگریس کمیٹی اور سکریٹری کانگریس کمیٹی فیض آباد کے ان خطوط سے ہوتا ہے جو کہ انہوں نے اس وقت کے یو پی کے وزیر داخلہ لال بہادر شاستری (آنجہانی وزیراعظم ہند) کو لکھے تھے۔ 13/نومبر1949ء کو چبوترہ وسیع کرنے کیلئے بابری مسجد کے آس پاس جو قبریں تھیں ان کو کھود ڈالا گیا تھا گویا بابری مسجد میں بتوں کی تنصیب سے پہلے ہی اجودھیا میں کشیدگی تھی ۔ مزید تفصیلات اکشے کمار برہمچاری کے خطوط میں پڑھے جاسکتے ہیں
(افکار ملی ، ماہنامہ دہلی) کا بابری مسجد نمبر2003 صفحہ157 اور 'بابری مسجد' مرتبہ محمد عارف اقبال (حصہ دوم صفحہ449) ۔
شری اکشے برہمچاری نے لکھا تھا : میں تقریباً بارہ بجے کے ہمراہ بابری مسجد گیا (23دسمبر1949 ) جہاں مورتی رکھی ہوئی تھی تھوڑے سے آدمی مسجد کے پاس جمع تھے اس وقت آسانی سے مسجد کی حفاظت ہوسکتی تھی اور مورتی کو ہٹایا جاسکتا تھا۔ ضلع مجسٹریٹ نے اس کو مناسب نہیں سمجھا۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ بتادیا جائے کہ دسمبر1949ء میں پنڈت گووند ولبھ پنت یو پی کے وزیر اعلیٰ تھے لال بہادری شاستری وزیر داخلہ تھے ۔ مسلمان قائدین میں مولانا آزاد ، سیف الدین کچلو، آصف علی، رفیع احمد قدوائی، ڈاکٹر سید محمود اور شیخ عبداللہ تھے لیکن اس سلسلے میں کسی کا کچھ کرنا و کہنا تو دورکی بات ہے کسی نے ایودھیا کا دورہ نہیں کیا ۔ دسمبر1949ء اور اس کے بعد فیض آباد کے ڈپٹی کمشنر کے کے نیر چاہتے تو 23دسمبر یا اس کے بعد مورتیاں مسجد سے ہٹائی جاسکتی تھیں۔ حد تویہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر فیض آباد نے اس وقت کے چیف سکریٹری اتر پردیش بھگوان سہائے کو جواب دیا کہ "مسجد سے مورتیاں ہٹانے کو ایک خطرناک قدم قراردیا اور ایسا کرنے سے اپنی معذوری ظاہر کی"
('بابری مسجد' حصہ اول صفحہ327)
ممتاز قانون داں اور مصنف اے جی نورانی نے 1949-50ء کے مرکزی وزیر داخلہ سردار پٹیل اور وزیر اعلیٰ یو پی پنڈت گووند ولبھ پنت کی خط و کتابت انگریزی ماہنامہ " مین اسٹریم" میں شائع کی تھی جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دونوں رہنماؤں کو علم تھا کہ ایک مسجد کو مندر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ دونوں قائدین نے سچائی کو تسلیم کرنے کے باوجود اس کو طاقت کے ذریعہ بحال کرنے کی جگہ تصفیہ ، افہام و تفہیم پر زور دیا اور "یکطرفہ کارروائی" سے احتراز کئے جانے اور جارحانہ اور دباؤ والے طریقوں کو اختیار کرنے کا مشورہ نہیں دیا۔ مسجد پر غاصبانہ قبضہ کو سردار اور پنت نے سچائی تسلیم کرنے کے باوجود " تصفیہ" کی ضرورت کیوں نہیں محسوس کی تھی۔ کیوں اس کا جواب کون دے
(بابری مسجد حصہ دوم ، محمد عارف اقبال صفحہ 455 تا 458)
مسجد پر ناجائز قبضہ برخواست کرنے کی جگہ ڈپٹی کمشنر کرشن کمار نائر نے مسجد اور متصل قبرستان کو قرق کرلیا اور مسجد میں تالا ڈال دیا گیا۔
مسلمانوں نے مقدمہ دائر کرنے کی مدت کے آخری دنوں میں 1961 ء میں یو پی سنی وقف بورڈ نے مذکورہ اراضی پر حق ملکیت کا دعویٰ کرتے ہوئے مسجد سے مورتی ہٹوانے کیلئے عدالت میں اپیل دائر کی ۔ اتنے اہم معاملے میں اس قدر تاخیر ناقابل فہم ہے۔
مندرجہ بالا واقعات سے بڑے بڑے کانگریسی قائدین اور اس دور کے مسلمان قائدین کی روش کا پتہ چلتا ہے ۔
1984ء دہلی میں ہندوؤں (وشواہندو پریشد) نے مسجد کا تالا کھلوانے کا مطالبہ کیا اس طرح سنگھ پریوار " مندر وہیں(جہاں بابری مسجد تھی) بنے گا" کے نعرے کے ساتھ میدان میں آگئی اس کا بی جے پی کو فوری فائدہ یہ ہوا کہ جہاں 1984ء کے انتخابات میں اسے صرف دو نشستیں پارلیمان میں حاصل ہوئی تھیں لیکن اگلے انتخابات میں یہ تعداد 90 سے زائد ہوگئی تھی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کانگریس کے بے حد اہم اور سینئر قائد پنڈت نہرو کے ساتھی اور پنڈت نہرو اور لال بہادری شاستری کی موت کے بعد نگران وزیراعظم بننے والے شری گلزاری لال نندہ 1982ء میں وشواہندو پریشد میں شامل ہوگئے تھے اور 1983ء میں " شری رام جنم اتسو سمیتی " بنائی تھی۔
کانگریسی حکومتوں نے بابری مسجد کی ملکیت کے مقدمہ یا 1992ء میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد شہادت کے مجرموں کے خلاف مقدمہ کی عاجلانہ یکسوئی کیلئے کچھ نہیں کیا لگتا یہی ہے کہ حکومتوں کی پالیسی کی بنیاد ٹال مٹول پر رہی حد تویہ ہے کہ لبراہن کمیشن کو بھی دل کھول کر مہلت دی گئی غرض کہ قانونی لحاظ سے معاملہ کی یکسوئی کی سنجیدہ کوشش کا ہمیشہ فقدان رہا۔
یکم فروری 1986ء ڈسٹرکٹ جج فیض آباد نے بابری مسجد کا تالا کھول کر ہندوؤں کو عام پوجا پاٹ کی اجازت دی عدالت نے یہ فیصلہ دیتے وقت قواعد و ضوابط کو اس حد تک بالائے طاق رکھا کہ فریق مخالف مسلمانوں کو اپنی رائے تک دینے کا موقع نہیں دیا گیاکمال تو یہ ہے کہ یہ حکم ایک ایسے فرد کی درخواست پر دیا گیا تھا جس کا کسی مقدمہ سے کوئی تعلق نہ تھا جبکہ ملکیت کے مقدمہ کے ایک اہم فریق محمد ہاشم کے عذر و دلائل کو ڈسٹرکٹ جج کے ایم پانڈے نے نہ صرف ایک دن قبل یو ایس پانڈے کی درخواست کا فیصلہ کرتے ہوئے اصل مقدمہ 1950ء کے اس عدالتی حکم جس کے تحت بابری مسجد کو مقفل کردیا گیا تھا نظر انداز کرکے بابری مسجدکو عملاً مندر میں تبدیل کردیا اور متنازع فیہ عمارت (جس کی ملکیت کا مقدمہ زیر سماعت تھا) کا مکمل اختیار فریق مخالف یعنی ہندوؤں کو دے دیا۔ اس درخواست کو منصف مجسٹریٹ نے مسترد کردیا تھا لیکن راجیو گاندھی جو اس وقت وزیراعظم تھے " ہندو ووٹ" کومضبوط کرنے کیلئے اپنے چچا ، مشیر اور مرکزی وزیر ارون نہرو کے مشورے پر بابری مسجد کا تالا کھلوایا تھا اسی واسطے اس فیصلے کی اور تالا کھولے جانے کی زبردست تشہیر ہوئی آل انڈیا ریڈیو اور دور درشن سے اس کی زبردست تشہیر کی گئی ۔
طرفہ ستم یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ جج کے فیصلے کے خلاف محمد ہاشم کی اپیل کو الہ آباد کی عدالت العالیہ (ہائی کورٹ) نے مسترد کرتے ہوئے "جوں کی توں حالت" یعنی مسجد میں پوجا کی اجازت برقرار رکھی
(صفحہ73 پروفیسر ایس اے ایچ حقانی ، Secularism Under Siege)
سچ تو یہ ہے کہ اسی واقعہ کے بعد ملک بھر کے مسلمانوں کو بابری مسجد پر 1949ء سے کیا گذرتی رہی ہے بلکہ بابری مسجد کے وجود کا پتہ چلا ویسے 1984ء سے ہی ملک بھر میں بابری مسجد کا چرچا ہونے لگا تھا لیکن عام نہ تھا۔
راجیو گاندھی کے دور میں 9/نومبر1989ء کو "شیلا نیاس" کیا گیا تو کہ یہ عدالت کے حکم کے برخلاف امتناع فیہ علاقہ میں کیا گیا لیکن اس دور کے وزیر داخلہ بوٹا نسگھ نے یہ کہہ کر دھوکہ دیا کہ یہ ممنوعہ علاقہ سے باہر ہوا ہے ۔
30/اکتوبر1990ء کو یو پی میں ملائم سنگھ وزیر اعلیٰ تھے ہزاروں کارسیوکوں نے بابری مسجدکو منہدم کرنے کی کوشش کی ملائم سنگھ کے حکم پر ان کو روکنے کیلئے گولی چلائی گئی ۔ مسجد کو بچالیا گیا چند کارسیوک مارے گئے لیکن مسجد کو بچا لیا گیا ۔
نرسمہا راؤ کی بدنیتی کا حال ملاحظہ ہو وہ وزیراظم بنے تو ستمبر1991ء میں ایک بل پیش کیا گیا جس کے تحت مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی اور 15اگست1947ء کو ان کی جو حیثیت تھی وہ برقرار رہے گی تاہم بابری مسجد کو نرسمہاراؤ نے اس بل کی شرائط سے مستثنیٰ رکھا(کیوں؟ نرسمہا راؤ کو بابری مسجد کی برقراری منظور نہ تھی)۔
بالآخر6-دسمبر کو بابری مسجد کو شہید کردیا گیا !!
مسجد کی شہادت سے قبل نرسمہا راؤ سارے ملک کو یہ کہہ کر دھوکہ دیتے رہے کہ مسئلہ حل کرلیا جائے گا سپریم کورٹ میں بھی مسجد کی برقراری اور نقصان نہ پہنچانے کا حلف نامہ نرسمہا راؤ نے اپنے دوست کلیان سنگھ سے داخل کروایا اور جس وقت مسجد شہید کی جارہی تھی نرسمہا راؤ سوتے رہے کارسیوکوں کو من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ حاصل تھی پولیس اورنیم فوجی دستوں کو مداخلت سے روک دیا گیا اور نہ صرف مسجد شہید کردی گئی بلکہ اس کی جگہ عارضی مندر کی تعمیر تک نرسمہا راؤ کی مجرمانہ بے علی برقرار رہی ہے اس لئے بابری مسجد کی شہادت کا کلیدی مجرم نرسمہا راؤ کو کہا جاتا ہے۔
2011/12/06
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
Author Details
Hyderabadi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں