ہماری قوم اردو بولنے کے نہیں، بھولنے کے عمل سے گزر رہی ہے، ہمیں اپنے مستقبل کو حال سے بچانا ہوگا
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ زبان، دون نسلوں کے درمیان سب سے مضبوط رشتہ اور سب سے بڑا سرمایہ ہے۔
زبان نطق و بیان ہے، ایمان و ایقان ہے، قواعد کی ابجد اور تمام علوم کی ماں ہے۔
زبانوں کا عروج و زوال قوموں کا عروج و زوال ہے۔
زبان کسی قوم کی سب سے بڑی پہچان ہے۔
جب ہم اردو زبان کی بات کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ نصف صدی قبل تک زبان اپنی ذات میں اخلاقیات کی درس گاہ کا درجہ رکھتی تھی، اس کے دائرۂ اظہار میں آنے والی ہر قدر اور ہر جہت اپنی مبادیات کا اظہار بڑی وضع داری سے کیا کرتی تھی۔ زبان زد ہو جانے پر رویے تک اپنی شناخت بدل لیا کرتے تھے۔ اس صورتِ حال کو سماج کی علمی اور ادبی حیثیت نے بھی کافی سہارا دے رکھا تھا۔ معاشرے میں ادب سے دلچسپی اور اس کے زیر اثر بولی جانے والی زبان کا اہتمام و انصرام ذہنی طور پر ایک اجتماعی شعوری حیثیت رکھتا تھا۔ لیکن گزشتہ چند دہائیوں سے لے کر آج تک اردو زبان کے روز مرہ استعمال اور محاورے میں تیزی سے تبدیلی ہوتی نظر آتی ہے۔
بیسویں صدی کی ساتویں دہائی (1970ء) کے اواخر میں بول چال میں پھڈا، ٹھکیا اور پنگا جیسے الفاظ کثرت سے سنائی دینے لگے، نیز خواتین کی آپس میں گفتگو میں تخاطب کے لیے "یار" کا لفظ عام ہوا۔
اس کے علاوہ برا ماننا کے بجائے برا منانا اور "میرا نہیں خیال" جیسے اظہار سامنے آئے۔ یہ تبدیلی مثبت کم اور منفی زیادہ ہے۔ لیکن اب دانستہ طور پر اردو زبان کی بساط ہی لپیٹ دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
زبانوں میں ترک و اختیار کا عمل ہمیشہ جاری ہے۔ اسی طرح زبانیں پھلتی پھولتی اور فروغ پاتی ہیں لیکن اردو وہ مظلوم زبان ہے کہ جس کا جب، جہاں اور جیسے جی چاہا، اسے بدترین طور پر استعمال کر سکتا ہے۔ زبانوں میں الفاظ کی قدرتی آمد و رفت کے ساتھ کسی زبان کا محاورہ اور روز مرہ بول چال بدلنے لگے تو پھر "خبر لیجیے دہن بگڑا" کے زمرے میں آجاتا ہے۔ یہ تبدیلی کسی زبان کے خاتمے تبدیلی ہے، جس کی اصلاح ہر ذی شعور معاشرے کی ذمہ داری ہے۔
فی زمانہ ہمارا مزاج جس ابتری اور ابتدال کا شکار ہے اس کے نتیجے میں عام آدمی علمی اور ادبی کتابوں سے اس حد تک کنارہ کش ہو چکا ہے کہ گھروں میں ان کا وجود تک برداشت نہیں کیا جاتا، لہٰذا ان کتابوں کے ذریعے انتظام و التزام سے لکھی ہوئی زبان نے بھی اس سے منہ موڑ لیا ہے اور شائستگی و شیرینی اس سے غائب ہو تی جا رہی ہے۔
زبان کے سلسلے میں برتی جانے والی شعوری اور غیر شعوری آسانیوں کی وجہ سے ایک ایسی لسانی فضا تیار ہو چکی ہے جس کے منفی اثرات دور رس خرابیوں کی شکل میں ظاہر ہونے لگے ہیں۔
ابن انشاء نے جوش ملیح آبادی کے لیے کہا تھا کہ :
"اردو زبان جوش صاحب کے گھر کی لونڈی ہے وہ اس کے ساتھ سلوک بھی ویسا ہی کرتے ہیں"۔
اب صورتِ حال یہ ہے کہ اردو زبان صرف جوش صاحب جیسی جیّد ادبی شخصیت کی نہیں بلکہ ہماشما کی لونڈی بنی ہوئی ہے اور وہ اس کے ساتھ سلوک بھی ویسا ہی کر رہے ہیں۔ اس عمل کا سہرا ذرائع ابلاغ کے سر بندھتا ہے کیونکہ زبان کی ترویج و اشاعت کی جتنی ذمہ داری ذرائع ابلاغ پر عائد ہوتی ہے شاید ہی کسی اور شعبے پر ہوتی ہو۔ خاص طور پر برقی ذرائع ابلاغ اس کے زیادہ ذمہ دار ہیں۔
سوال یہ ہے کہ تبدیل کیے جانے والے الفاظ کو آسان اور مشکل سمجھنے کا پیمانہ کیا ہے؟ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کھلونوں سے کھیلتے ہوئے کسی بچے کو اس کے خوبصورت کھلونے چھین کر بد صورت اور تکلیف دہ کھلونے یہ کہہ کر پکڑا دیئے جائیں کہ یہ زیادہ اچھے ہیں۔ عوام کا ذہن ذرائع ابلاغ کے آگے بالکل بچوں کے ذہن کی طرح ہوتا ہے۔ جس لفظ کی ٹی وی اور اخبار بار بار تکرار کرتے ہیں وہی ان کی زبانوں پر چڑھ جاتا ہے۔ یہی انہیں پسند بھی آنے لگتا ہے۔ زبان کے محاورے اور روز مرہ کے بگاڑ کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
واقفیت یا معلومات کی جگہ جانکاری،
کسی معاملے کی وجہ سے پریشانی کے بجائے کسی بات کو لے کر پریشان ہونا،
منسلک جیسے خوبصورت لفظ کی جگہ جڑا ہوا یا جڑی ہوئی،
آپس کے تعلقات کی جگہ آپسی تعلقات ،
تبدیلی کی جگہ بدلاؤ،
اچھی طرح کی جگہ اچھے سے،
قدم اٹھایا جاتا ہے اور اقدام کیا جاتا ہے ، لیکن ہمارے یہاں سب ہی اقدام اٹھا رہے ہیں۔
لفظ عوام اور لالچ جو اب تک صیغۂ مذکر میں تھے، اپنی جنس تبدیل کر چکے ہیں،
کیا چل رہا ہے یا معلوم چلا، یا فلاں کے دماغ میں کیا چل رہا ہے ۔۔۔ سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بولنے والوں کا دماغ چل گیا ہے ۔
زبانیں ، بولی سے زبان بننے کی طرف سفر کرتی ہیں لیکن یوں لگتا ہے کہ اردو اپنے سفر میں جس فصاحت و بلاغت سے سرفراز ہوئی تھی ، اس کے بولنے والے خود اس مقام سے محروم کر کے اسے محض ایک عامیانہ بولی کا درجہ دینے میں خوش ہیں۔
تلفظ بگڑ رہا ہے، الفاظ و محاورات اپنی معنویت کھو رہے ہیں ، ان کی لغوی، ادبی اور صوتی جہتیں تپلٹ ہو کر رہ گئی ہیں۔
لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ اگر بے لگام معاشرے کی ترجیحات ابتذال، گراوٹ اور لایعنیت ہو جائیں تو کیا ذرائع ابلاغ بھی شعوری اور لاشعوری طور پر ان منفی رجحانات کی ترویج و اشاعت کا کام زبان کے بگاڑ کی صورت میں انجام دیں گے؟
اب جب کہ ہماری قوم اردو بولنے کے نہیں، بھولنے کے عمل سے گزر رہی ہے ہمیں اپنے مستقبل کو حال سے بچانا ہوگا، ورنہ ہم صرف ماضی ہی میں سانس لے سکیں گے۔
شاید ہم یہ حقیقت بھول چکے ہیں کہ جس قوم کی زبان نہیں رہتی وہ قوم بھی نہیں رہتی۔
***
مضمون نگار : شاہدہ تبسم (بشکریہ روزنامہ "انقلاب" ممبئی)
حال میں قوم بھی زندہ ہے اور زبان بھی
جواب دیںحذف کریںمستقبل کے واسطے انٹرنیٹ ہے نا
کہیں ایسا نہ ہو کہ
مستقبل میں نیٹ پر اُردو تلاش کرے تو
پتہ چلے کہ ایک زمانہ یہ قوم بھی تھی !
اب اُردو خریدنے کے لائق ہے نہ بیچنے کے
مگر یہ ایک اچھی بات ہے کہ آج بھی
انٹرنیٹ پر اُردو کے واسطے مفت خدمات جاری ہیں ـ
باہر سے پوچھنے والے پوچھتے ہیں کہ ہندوستان میں اُردو کے ساتھ سوتیلا پن کیوں ہے؟ تو میرے خیال سے جواب یہ ہونا چاہئے کہ "سیاست" اور "اعتماد" والوں کے تعلقات ٹھیک نہیں ـ ـ ارے میں تو بہت دور چلا گیا، یہیں کا بتادوں "سالار" اور "راشٹریہ سہارا" کے تعلقات بھی ویسے ہی بالکل جیسے "کنڑ" اور "ٹمل" حالانکہ یہ دو الگ زبانیں ہیں اور وہ دو الگـ٢مقامی اُردو اخبارات ـ یہ انکی کاروباری، ذاتی یا اور کوئی بھی جنگ ہو ـ سچ تو یہ ہے کہ خود اُردو والے "اُردو" کو مر وا رہے ہیں ـ یہی لوگ ساتھ میں روتے بھی ہیں کہ ہماری زبان کے ساتھ سرکار کا سلوک ٹھیک نہیں ہے ـ
مبارک ہو سید، ایسے ہی روتے رہنا اُردو کیلئے
کوئی ایک تو بندہ ہو اس پر آنسو بہانے کے واسطے
بہت خوب تحریر ہے
جواب دیںحذف کریںbahot KHoob fikr hai.
جواب دیںحذف کریںaor haaN, aap dilbardashtah na hoN, marne waale ki aeb joo'ee karna 'modern moslems' ka 'progressive' hona hai. marne waala chaahe Saddaam ho, Amreeka ka mujrim Usaama ho ya Urdu zubaan.
"مرنے والے کی عیب جوئی" ؟؟
جواب دیںحذف کریںہاہاہا۔ اب تو آپ ایسا کہہ کر مزید دلبرداشتہ کر رہے ہیں۔ لولز