بابری مسجد : مقدمہ کا فیصلہ -- ردّعمل - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2010/10/01

بابری مسجد : مقدمہ کا فیصلہ -- ردّعمل

مسلم پرسنل لا بورڈ کا بیان :
عدالت نے تاریخ اور حقائق کو نظرانداز کر دیا : رام کی پیدائش کی جگہ کا تصور ، فیصلہ کی بنیاد بنا

الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کے فیصلہ میں تاریخ اور حقائق کو یکسر نظرانداز کیا گیا ہے۔
فیصلہ میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ جس مقام پر رام کی مورتی رکھی ہوئی ہے ، وہ مقام شری رام چندر جی کی جائے پیدائش ہے جو کسی دستاویزی یا دیگر ثبوت کی بنیاد پر نہیں بلکہ محض ایک تصور ہے۔

بابری مسجد 1528ء میں کھلی اراضی پر تعمیر کی گئی تھی ، وہاں رام کا کوئی مندر نہیں تھا۔ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی جانب سے کھدوائی میں ایسے کسی مندر کی موجودگی ثابت نہیں ہوئی ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اس فیصلہ سے متفق نہیں ہے اور مقدمہ کے مسلم فریقین فیصلہ کے خلاف جلد ہی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔ دستاویزی اور دیگر شواہد کی بنیاد پر بابری مسجد مقدمہ کو برحق ثابت کرنے کی انتھک کوشش کی جائے گی۔

صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کا بیان :
الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ سے مسلمان مایوس : ایک تہائی زمین ناقابل قبول : سپریم کورٹ سے رجوع ہوا جائے گا : مسلمانوں سے صبر و تحمل کی اپیل

الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ سے مسلمانوں کو بہت زیادہ مایوسی تو ضرور ہوئی ہے لیکن مسلمان صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں گے۔
معزز ججس کی جانب سے ایک تہائی زمین حوالہ کرنے کا جو فیصلہ سنایا گیا ہے وہ مسلمانوں کو قابل قبول نہیں ہے۔ مسلم فریق کی جانب سے جو ثبوت پیش کئے گئے تھے ، درحقیقت ہائی کورٹ کی بنچ نے اسے ملاحظہ نہیں کیا ہے۔ ہائی کورٹ کی جانب سے جن امور اور ثبوتوں کو نظرانداز کیا گیا ہے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی جائے گی۔

دو ججس جسٹس اگروال اور جسٹس صبغۃ اللہ خان نے تسلیم کیا ہے کہ وہاں مسجد تھی ، اور انہوں نے یہ بھی مانا کہ اس مقام پر مندر کو توڑ کر مسجد بنائی نہیں گئی تھی۔ بلکہ جسٹس خان نے تو یہ بھی کہا کہ : کوئی مندر گرایا نہیں گیا ، وہاں مسجد موجود تھی۔
6-ڈسمبر-1992ء کو ملک کی تاریخ میں بربریت کا جو واقعہ پیش آیا اور بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا ، یہ ایک المناک واقعہ تھا۔ ان تمام ثبوتوں کو سپریم کورٹ میں پیش کیا جائے گا۔

وزیر اعظم من موہن سنگھ کا بیان :
سپریم کورٹ میں چارہ جوئی تک ایودھیا کا موقف جوں کا توں رہے گا

رام جنم بھومی - بابری مسجد ملکیت کیس پر الہ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیصلہ سامنے آ چکا ہے۔ یہ طویل عدالتی جدوجہد کا منطقی نتیجہ ہے۔ یہ مسئلہ انتہائی حساس نوعیت کا ہے جس پر مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے عوام مختلف نظریات رکھتے ہیں۔
ہائی کورٹ نے فریقین کو سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کیلئے تین ماہ کی مہلت دی ہے۔ فیصلہ کا مختصر خلاصہ فی الحال یہی ہے کہ ایودھیا اراضی کا جوں کا توں موقف برقرار رکھا جائے تاوقتیکہ مقدمہ سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کیا جاتا۔

میں ہندوستانی عوام پر مکمل یقین رکھتا ہوں۔ اس عظیم الشان ملک کی سیکولر روایات ، بھائی چارہ اور رواداری پر بھی مجھے مکمل اعتماد ہے۔
میں عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ تمام مذاہب اور مذہبی عقائد کا ہندوستانی تہذیب و روایات کی روشنی میں احترام کریں۔ حکومت کی جانب سے میں تیقن دیتا ہوں کہ حکومت ، قانون کی حکمرانی کی برقراری ، امن و امان کی بحالی ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور سماجی نظام کو قائم رکھنے کے عہد کی پابند ہے۔
امید ہے کہ ایودھیا تنازعہ پر عدالتی فیصلہ کے بعد عوام کا ردعمل بالکل مثبت اور باوقار ہوگا۔ فیصلہ کا احترام کرتے ہوئے عوام ملک کو مقامِ افتخار پر پہنچانے میں تعاون کریں گے۔

9 تبصرے:

  1. ہم کو اُن سے وفا کی ہے اُمید
    جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. فیصلہ یکطرفہ ہے اور اس کے خلاف مسلمانوں کو مزید کوشش کرنی ہوگی۔ رہی بات بھارت کے سیکولر امیج ک تو وہ ہاتھی کے دانت ہیں کھانے کے اور دکھانے کے اور!

    ۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. تمہارا شہر تمہی مدعی تمہی منصف
    مجهے یقین تھا میرا قصور نکلے گا

    جواب دیںحذف کریں
  4. السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    بھائی، بات یہ ہےکہ بھارت دراصل یہ واویلہ توآئےدن کرتاہےکہ وہ سیکولرہےلیکن اصل میں ایسی بات ہےنہیں کیونکہ یہ ہندوستان ہندوکاملک ہےاوربس۔یہاں دوسری تمام مذہبوں کودوسرےدرجےکاشہری کہاجاتاہے۔توان سےانصاف کی کیاامیدرکھنی ہے۔یہ مسئلہ 1992میں ہوااورفیصلہ اب ہواکیونکہ اس کوطویل دیناانکی منشاء کےمطابق ہےوہاں پرمورتیاں پڑی ہوئیں ہیں وہاں پرظاہرسی بات ہےکہ ہندوؤں کاقبضہ توہوگیاناں۔ باقی حیدرآبادمیں جوہندومسلم فسادات ہوئےتھےان کےمجرموں کوکتنی سزاملی؟
    کشمیرکامسئلہ بھی سب کےسامنےہےکتنےمسئلہےہیں لیکن حکومت بس وہی کرتی ہےجس میں اس کافائدہ بس
    والسلام
    جاویداقبال

    جواب دیںحذف کریں
  5. Aadab Arz karta huuN...I don understand your feelings but....

    الہی باد ہائی کورٹ اور اتر پردیش کی دیگر عدالتوں نی ماضی میں کیسے فیصلے کیے ہیں چاہے اردو کے متعلق چاہے دو سال پرانا فیصلہ مسلمانون کے بارے میں یا سن انچاس کا اور اس کے بعد کے متعدد ایسے فیصلے جو کسی لحاظ سے بھی انصاف کی کسوٹی پرکھرے نہیں اترتے تھے . اس بار ایک تھائی دے دیا، کچھ تو ملا، یہ وہی یو پی ہائی جہاں آج بھی قانونن اردو ذریع تعلیم پر ممانعت ہے ہندوستان کی واحد ریاست ! ہر چیز آئیڈیل نہیں ہو سکتی..آخر کار جذباتی نریبازی نے ہی تقسیم کروایی...یہی وجہ سقوط-ا-حیدراباد کی رہی... ان سا کے نتائج قوم نے برسوں بھگتے ہیں....

    جواب دیںحذف کریں
  6. آپ تو خود مسجديں جلانے والے ہيں آپ کس بات پہ شکائيت کررہے؟

    He was commenting in relation to the attack on Ahmadiyah, in which hundreds of villagers armed with sticks, axes and sharp weapons torched a car, four houses and part of a mosque on Friday.

    http://www.thejakartaglobe.com/home/indonesian-president-again-appeals-for-calm-after-islamic-sect-attacked/399295

    انڈونيشيا بھی سيکولرملک ہے اسکی سيکولرز پہ تو کوئی اعتراض نہيں آپکو-

    جواب دیںحذف کریں
  7. @ indscribe
    عدنان بھائی ، آپ کی یہ بات بالکل بجا ہے کہ "کچھ تو ملا"۔
    انصاف کے مغائر فیصلہ پر میرا احتجاج صرف اسلئے ہے کہ ۔۔۔۔ ہمارے برادرانِ وطن بیشمار سائیٹس ، بلاگز اور فورمز پر یہ تاثر دینے کی کامیاب کوشش کر رہے ہیں کہ ہندوستان کو متحد رکھنے کیلئے یہ فیصلہ ناگزیز تھا اور بس یہی درست انصاف ہے۔
    جبکہ ہندوستان کو متحد رکھنے کیلئے کوئی "ناگزیر" فیصلہ ایک الگ چیز ہے اور دستاویزی شواہد کی روشنی میں "انصاف" پر مبنی فیصلہ ایک علیحدہ بات ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  8. @ جاوید اقبال
    جاوید بھائی ، میں نے اردو محفل فورم پر لکھا ہے کہ بابری مسجد کا واقعہ ایک استثنائی واقعہ ہے اور یہ 1853ء سے چلا آ رہا تنازعہ ہے یعنی گذشتہ دیڑھ سو سال پرانا مسئلہ۔
    بابری مسجد کا سانحہ تاریخِ ہند کا ایک سیاہ باب سہی مگر بلاشبہ ایک استثنائی واقعہ ہے ، اس استثنائی واقعہ کو بنیاد بنا کر یہ قیاس کرنا کہ انڈیا سے سیکولرزم بالکل ہی ختم ہو چکا ہے کچھ ناقابل یقین بات ہے۔ عبادات اور اعتقادات کے حوالے سے ہند کے مسلمانوں کو بھی اتنی ہی سہولیات حاصل ہیں جتنی ہندو اکثریتی طبقے کو۔ ہاں ، تعلیمی اور معاشی لحاظ سے شکایات کی جا سکتی ہیں مگر یہ شکایات صرف مسلم اقلیتی طبقہ کے ساتھ ہی نہیں بلکہ ہند کے دیگر اقلیتی طبقات کے ساتھ بھی روا رکھے گئے ہیں۔ اور ایسا تو ہر اس جگہ ہوتا ہے جہاں کوئی طبقہ اقلیت میں ہو۔ جیسا کہ چند اردو بلاگز پر ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں مہاجر طبقہ کو کافی کچھ جائز شکایات لاحق ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں