تقریباً روزانہ ہی یہ پانچوں اخبار مختلف موضوعات پر دو یا دو سے زائد صفحات کا سپلیمنٹ نکالتے ہیں۔ مثلاً جمعہ کو مذہبی صفحہ ہوتا ہے تو اتوار کو تفریحی یا ثقافتی یا ادبی ایڈیشن۔
موضوعاتی مواد کی پیشکشی اور دلکشی کے حوالے سے پانچوں اخبارات کا تقابل ذرا مشکل کام ہے کہ سخت مقابلہ نظر آتا ہے ، پھر بھی بہتر مواد کے حوالے سے ترتیب ہماری نظر میں کچھ یوں بنتی ہے :
اعتماد ، منصف ، سیاست ، راشٹریہ سہارا ، رہنمائے دکن
جمعہ کے "منصف" میں ایک دلچسپ سفرنامہ (بعنوان : قرآن اور بائبل کے دیس میں) گذشتہ چند ہفتوں سے شائع ہو رہا ہے جس کو سعودی عرب میں مقیم محترم جناب محمد مبشر نذیر نے تحریر کیا ہے اور جو ان کی اپنی ویب سائیٹ پر بھی یونیکوڈ رسم الخط میں یہاں موجود ہے۔
سفرنامہ کی اس جمعہ والی قسط میں چند اقتباسات بہت خوبصورت اور قابل غور و فکر ہیں ۔۔۔۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرد کی عفت و عصمت
نجانے ہمارے معاشرے میں عفت و عصمت کا تصور صرف اور صرف عورت کے ساتھ خاص کیوں کر دیا گیا ہے۔ مرد کے لئے بھی عفت و عصمت اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ عورت کے لئے۔ ہمارے معاشرے میں مرد تو جو چاہے کرتا پھرے اس سے خاندان کی عزت پر کوئی حرف نہیں آتا لیکن اگر عورت ایسا کر بیٹھے تو یہ اس کے لئے ایک ناقابل معافی جرم ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے اس گناہ کے بارے میں مرد اور عورت میں کوئی تفریق نہیں کی۔ اس گناہ کے نتیجے میں عورت جتنی گناہ گار ہوتی ہے، مرد بھی اتنا ہی گناہ گار ہوتا ہے اور اگر مرد توبہ کے ذریعے پاک صاف ہو سکتا ہے تو ایسا عورت کے لئے بھی ممکن ہے۔
جس طرح قدیم دور میں عالمی فتنہ شرک تھا جس نے چین و ہندوستان سے لے کر افریقہ اور یورپ تک تمام اقوام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اسی طرح دور جدید کا سب سے بڑا فتنہ بے حیائی اور فحاشی ہے۔ اہل مغرب جب اپنے مذہب سے برگشتہ ہوئے تو انہوں نے دل و جان کے ساتھ بے حیائی کو قبول کر لیا۔ جب ان کا قبضہ مسلم ممالک پر ہوا تو یہ بے حیائی یہاں بھی امپورٹ ہوئی۔
شروع شروع میں تو یہ صرف معاشرے کے ایک مخصوص طبقے تک ہی محدود رہی لیکن 1990ء کے عشرے میں ڈش، کیبل اور انٹر نیٹ کے فروغ کے بعد جس تیزی سے یہ مسلم معاشروں میں پھیل رہی ہے، اس سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگلے پندرہ بیس برس میں اس معاملے میں مسلم اور مغربی معاشروں میں شاید ہی کوئی فرق رہ جائے۔ مسلم ممالک میں یہ منظر عام نظر آتا ہے کہ ماں اور بیٹی ساتھ ساتھ جا رہی ہیں۔ ماں نے تو برقع لے رکھا ہے جبکہ بیٹی نیم عریاں لباس پہنے ہوئے ہے۔ بے حیائی دور جدید کا فتنہ ہے جس کے استیصال کے لئے اہل مذہب کو ایک عظیم جہاد کی ضرورت ہے جس کا میدان جنگ انسانی ذہن ہوگا۔
اہل مغرب کی تقلید ۔۔۔ مگر کس روش پر ۔۔۔؟!
میں ذاتی طور پر اہل مغرب کے بارے میں کسی تعصب کا شکار نہیں۔ جدید سائنسی ایجادات سے لے کر جمہوریت، انسانی حقوق، آزادی اظہار اور نظم و ضبط جیسی بے شمار ایسی چیزیں ہیں جو مغرب نے تین چار سو سال کی محنت کے بعد انسانیت کو دیں۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں بھی کوئی چیز مانع نہیں کہ جدید دور میں ان تصورات کو اپنانے کے لئے اور اپنے معاشروں کو ماڈرنائز کرنے کے لئے ہمیں مغرب ہی سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔< اعتراض مجھے اس بات پر ہے کہ مسلم معاشرے اہل مغرب کی ان خوبیوں کو تو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں اور ان سے سیکھنے کے لئے جس چیز کا انتخاب کرتے ہیں وہ بے حیائی اور فحاشی ہے۔ شاید یہ وہ واحد معاملہ ہے جس میں اہل مشرق، اہل مغرب کی بجائے بہتر مقام پر کھڑے ہوئے تھے لیکن انہوں نے مغرب کی اچھی چیزوں کو لینے کی بجائے اس چیز کا انتخاب کیا جس میں اہل مغرب انسانیت کے درجے سے بھی گرے ہوئے ہیں۔ انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک تمام مسلم ممالک کو دیکھتے چلے جائیے، ہمیں مغرب کی انسان دوستی، انسانی حقوق، جمہوریت اور نظم و ضبط تو شاید ہی کہیں نظر آئے لیکن ان کی عریانی و فحاشی ہر جگہ ہمیں نظر آئے گی۔
حیدر آبادی بھائی آپ نے مغالطہ دور کرنے کیلئے بہت اچھا لکھا ہے -بہت شکریہ
جواب دیںحذف کریںہندوستان کے اردو اخبارات میرے بھی زیر مطالعہ رہتے ہیں جس سے سرحد پار مسلمانوں کی عمومی سوچ اور حالت کو سمجھنے میں کافی آسانی ہوجاتی ہے۔ سیاست، منصف اور اعتماد سے تومیں واقف ہوں لیکن راشٹریہ سہارا کا پہلی دفعہ سنا ہے۔
جواب دیںحذف کریںپاکستانی اور ہندوستانی اردو اخبارات کے درمیان کافی چیزیں مختلف نظر آتی ہیں۔ جیسے پاکستان میں اردو اخبارات کے صفحہ اول میں تیس چالیس خبریں جوڑ دی جاتی ہیں جبکہ ہندوستان میں صٖفحہ اول پر انگریزی کی طرح صرف تین چار مین اسٹوری کو جگہ دی جاتی ہے۔ پاکستان میں یہ طریقہ کار" آج کل" نامی اخبار نے اپنایا ہوا لیکن انکا یہ تجربہ ناکام ہوگیا ہے۔
نجانے ہمارے معاشرے میں عفت و عصمت کا تصور صرف اور صرف عورت کے ساتھ خاص کیوں کر دیا گیا ہے۔ مرد کے لئے بھی عفت و عصمت اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ عورت کے لئے۔ ہمارے معاشرے میں مرد تو جو چاہے کرتا پھرے اس سے خاندان کی عزت پر کوئی حرف نہیں آتا لیکن اگر عورت ایسا کر بیٹھے تو یہ اس کے لئے ایک ناقابل معافی جرم ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے اس گناہ کے بارے میں مرد اور عورت میں کوئی تفریق نہیں کی۔ اس گناہ کے نتیجے میں عورت جتنی گناہ گار ہوتی ہے، مرد بھی اتنا ہی گناہ گار ہوتا ہے اور اگر مرد توبہ کے ذریعے پاک صاف ہو سکتا ہے تو ایسا عورت کے لئے بھی ممکن ہے۔
جواب دیںحذف کریںویسے تو ساری ہی باتیں قابل غور ہیں ،مگر یہ ایک ایسی بات ہے جس پر ہم مرد آج سے ہی غور شروع کردین تو معاشرہ برائیوں سے پاک ہوجائے!
بالکل درست لکھا ہے ۔ کاش کوئی سمجھے
جواب دیںحذف کریںالسلام عیلکم ورحمۃ وبرکاتہ،
جواب دیںحذف کریںبہت سچ لکھاہےآپ نےدراصل یہ عورتوں کوہی عزت کہاجاتاہےاس کےمتعلق ہمیں بھی توکچھ سوچناچاہیے
والسلام
جاویداقبال