مکہ مسجد ، حیدرآباد (دکن)۔ |
السلام علیکم اور عید الفطر کی مبارکباد بھی قبول فرمائیں (گو کہ ایک دن بعد سہی ۔۔۔)
ایک ماہ کے روزے ، عبادتوں اور سعادتوں کے صلے میں (یا) ایک ماہ کی روحانی مشقتوں کے بعد عیدالفطر سال میں ایک بار آتی تو ہے مگر ہمارے یار لوگ تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کی کمائی کا مصرف ڈھونڈتے ہوئے بھی آتی ہے اور ۔۔۔ مسلمان سال بھر جو کچھ پس انداز کرتے ہیں وہ اس ماہِ مبارک میں خرچ کر دیتے ہیں تاکہ مسلمانوں کی یہ خوبی بھی دیگر اقوام پر اجاگر ہوتی رہے۔
کل عیدگاہ میں مقررین کی تقریر کے بعد امام صاحب نے فرمایا : اب وہ نماز کی ترکیب بتائیں گے۔
ہم اپنے بچپن سے دیکھ رہے ہیں کہ یہ نماز کی "ترکیب" بھی عجیب چیز ہے۔ کسی بندے کو یاد ہی نہیں رہتی۔ حالانکہ سال میں دو بار عید کے مواقع پر امام صاحب خاص طور پر بتاتے ہیں اور ہر مرتبہ لوگ دوران نماز غلطی کر ہی بیٹھتے ہیں۔ جبکہ سمجھدار سے سمجھدار آدمی بھی اپنے بازو والے شخص کی حرکات پر نظر رکھتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ نماز میں کم اور بازو ٹھہرے ہوئے فرد کی حرکات و سکنات پر توجہ ہوتی ہے۔
نماز عید کے بعد لوگوں نے ایک دوسرے سے گلے ملنا شروع کیا۔ بڑا دلچسپ منظر سامنے آیا۔ نماز کے قبل تک جو لوگ ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے ، نماز کے اختتام پر گلے ملنے لگے۔ ہم نے اس موقع پر ایک ہی دعا مانگی :
یہ جذبہ ہم تمام میں عیدگاہ سے نکلنے کے بعد بھی اگلے سال کی عید تک یونہی قائم رہے ۔۔۔۔ آمین !
بہرحال ۔۔۔ رمضان شریف ہم سے وداع ہو چکے ہیں۔ ہم لوگوں نے اس مہینے میں دیگر پارٹیوں سے دور رہ کر زیادہ تر وقت عبادتوں (اور خریداری) میں صرف کیا۔ اس مہینہ میں ہم صرف ایک ہی پارٹی یعنی "افطار پارٹی" سے جڑے رہے۔ اب بہت ہو چکا۔ کل ہم عید منا چکے ہیں۔
اب عید کے فوری بعد بلاگنگ والی سیاست میں مصروف ہو جانا چاہئے !
آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے رمضان بھر ہم سب اس سے رکے رہے تھے؟؟؟؟؟
جواب دیںحذف کریںکیا بزرگ کیا جوان کیا ادھیڑ عمر سب نے بھرپور حصہ ڈالا اس بلاگنگ والی سیاست میں!!!!!
Abdullah ji ne b blogging shoro kr di hai lag raha hai
جواب دیںحذف کریں