ماہر نے جب نوکدار سوئی سے غضبناک شیر کی شکل بنانی شروع کی تو پہلوان شدتِ تکلیف سے چیخنے چلانے لگا۔ پھر بڑی مشکل سے چیخ روک کر اس نے پوچھا : تم اس وقت شیر کا کون سا حصہ بنا رہے ہو؟
ماہر نے کہا : دُم !
پہلوان بولا : دُم مت بنواؤ، شدید تکلیف ہو رہی ہے۔ بغیر دُم کا شیر بھی چلے گا۔
ماہر نے بات مان کر دوسری طرف بےرحمی سے زخم لگانے کا عمل شروع کیا۔
پہلوان پھر چلایا : اب شیر کا کون سا حصہ ہے؟
ماہر بولا : کان !
پہلوان تکلیف کے باوجود غرایا : خبردار ! اس شیر کے کان نہ ہوں۔ میرا حکم ہے کہ تم کان چھوڑ دو۔
ماہر نے کسی اور طرف سوئی چبھونے کا عمل شروع کیا۔ پہلوان پھر کراہا۔
پوچھا : یہ کیا بنا رہے ہو؟
ماہر نے کہا : شیر کا پیٹ۔
پہلوان نحیف آواز میں گرجا: میرے جسم کا درد بڑھ رہا ہے۔ تم پیٹ نہ بناؤ۔ کیا شیر کیلئے پیٹ کا رہنا ضروری ہے؟
ماہر کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ وہ دیر تک دانتوں میں انگلی دبائے تعجب کرتا رہا۔ پھر بالآخر پیر پٹخ کر اٹھا اور کہنے لگا :
کیا دنیا میں کسی نے ایسا شیر بھی دیکھا ہے جس کے کان ، دُم اور پیٹ نہ ہوں؟ ایسا شیر تو خدا نے بھی پیدا نہیں فرمایا۔
مولانا رومی کی مثنوی سے یہ واقعہ نقل کرتے ہوئے ہند کے معروف صحافی اور عالم دین مولانا سید احمد ومیض ندوی لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
اس واقعہ میں پہلوان کا جو طرزِ عمل اپنی پیٹھ پر شیر کی شکل بنوانے کے متعلق تھا کہ وہ بغیر دُم ، کان ، پیٹ کے شیر کی شکل کا خواہاں تھا ، ٹھیک وہی طرزِ عمل ہم مسلمانوں کا اسلام کے تعلق سے ہے۔
ہم چاہتے ہیں کہ اسلام کے بہت سے احکام پر عمل نہ کرنے کے باوجود ہم مسلمان کہلائیں اور ہمارے اسلام پر کوئی حرف نہ آئے۔ جیسے کہ اُس پہلوان کی خواہش تھی کہ یپٹھ پر شیر بنایا جائے لیکن اس کیلئے جس قربانی اور مجاہدہ کی ضرورت تھی وہ اس سے گریز کرتے ہوئے شیر کی شکل چاہتا تھا۔
ٹھیک اسی طرح دورِ حاضر کے ہم مسلمانوں میں "مسلمان" کہلانے کا شوق ہے !
آزاد خیالی کے ساتھ سارے اسلام پر عمل کرنے میں چونکہ نفس کو بڑی مشکل پیش آتی ہے ، اسلئے ہم اسلام کی اپنی مرضی والی کچھ اچھی باتوں پر عمل کر کے "پورے اسلام" کا دعویٰ کر بیٹھتے ہیں !!
مولانا حالی نے بھی شائد اسی طرز عمل کو دیکھتے ہوئے کہا ہوگا :
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں ۔۔۔۔۔۔ نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے !!
سچ کہا ہے ۔ آج کے مسلمانوں کی اکثريت يہی چاہتی ہے
جواب دیںحذف کریںافسوس تو یہ ہے کہ خود اپنی آسانی کے لیے اسلام میں سے نا صرف غیر پسندیدہ چیز جدہ کردیتے ہیں، بلکہ دوسروں کو بھی عمل کرنے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںذبردست تحریر ہے حضرت
جواب دیںحذف کریںشکریہ
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیر۔ بہت اچھی تحریر ہے۔
والسلام
جاویداقبال
مجھے تو آج تک یہ نہیں نمعلوم ہو سکا کہ وہ لوگ جو اسلام پہ پورا عمل کرنے کا دعوی کرتے ہیں وہ کہاں تک اسلام کو سمجھ پائے ہیں۔ دوسرے لوگوں کے اسلام پہ تنقید کرنے سے بہتر اپنے اسلام کو مزید بہتر کرتے رہنا زیادہ ضروریی ہے۔ ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔ مبادا جو دوسروں پہ اس سلسلے میں زیادہ تنقید کر رہا ہو وہ زیادہ غلطی پہ ہو۔
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم
جواب دیںحذف کریںبہت اچھا لکھا ہے آپ نے۔۔۔۔ سب کا اپنا اپنا ورژن ہے اسلام کا۔۔۔۔ کسی کو دم نہیں پسند، تو کسی کو پیٹ۔۔۔۔۔۔!۔ خیر، میں کسی کو غلط نہیں کہتا کہ یہ بھی رنگ ہیں اس دنیا کے۔۔۔
ہاں! رویوں سے ضرور اختلاف ہے۔
ولسلام