مدرسہ اسلامیہ دارالعلوم سیوان کی ہندو طالبہ نشا کماری نے بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے فوقانیہ امتحان میں سب سے زیادہ نمبر لے کر پوری ریاست میں امتیازی پوزیشن حاصل کی ہے۔ویسے تو ہندوستان کے کسی بھی انگریزی یا اردو اخبار میں یہ خبر ہماری نظر سے نہیں گزری۔ مگر اس خبر کی صداقت میں کسی خاص شبہ کی ضرورت ہمیں محسوس نہیں ہوتی۔ سماجی صلاح کار اور صحافی وی-بی-راوت نے آج سے کوئی ایک دہے قبل (مارچ-2002ء) ، پندرہ روزہ ملی گزٹ میں ایک تحقیقی مضمون بعنوان "علاقہ اجودھیا کے مدارس کا دوسرا رُخ" پیش کیا تھا۔
15 سالہ نشا کماری راجندر بھگت کی بیٹی ہے۔ اس نے نہ صرف اردو میں کامیابی حاصل کی ہے بلکہ اسے عربی اور فارسی مضامین میں بھی اسے نمایاں پوزیشن حاصل ہوئی ہے۔ اس کے والد راجندر بھگت کہتے ہیں کہ انہیں مدارس کا ڈسپلن پسند ہے، کیونکہ بقول ان کے اب سرکاری اسکولوں میں تعلیم صرف نام کی رہ گئی ہے۔
نشا کماری کو خود بھی اردو سے بہت محبت ہے اور وہ کہتی ہے کہ میں اردو اخبار اور کتابیں بہت شوق سے پڑھتی ہوں۔ اس نے کہا کہ وہ مزید تعلیم بھی انہیں مضامین میں حاصل کرے گی۔
ان کی تحقیق کے مطابق دینی مدارس کے خلاف جو متعصبانہ پروپگنڈا کیا جاتا ہے اس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ حتیٰ کہ ان مدارس میں ہندو طلباء و طالبات کی بھی ایک معقول تعداد زیر تعلیم ہے۔ شہید بابری مسجد کے عین مقابل قائم مدرسہ تعلیم و تربیت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ وہاں 70 ہندو طالب علم بھی انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو اور عربی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
اسی طرح اجودھیا کے جڑواں شہر فیض آباد سے کچھ کیلو میٹر کی مسافت پر قائم کچھچھوا شریف کی جامعہ اشرف ، اس جامعہ کی وسیع و عریض لائیبریری ، اس کے کشادہ ترین مہمان خانہ کے علاوہ رودالی شریف کے مدرسہ چشتیہ صابریہ فیض الحق کے متعلق تفصیلات فراہم کرتے ہوئے مضمون نگار نے مثبت خیالات کا اظہار کیا تھا۔
کاش تصعب سے پاک حصول علم کی فضا تمام مضامیںن اور اقوام کے درمیان میں بن جائے تو خوب ہو ۔
جواب دیںحذف کریں