عظمتِ رفتہ کے نقوش ۔۔۔۔۔ ؟! - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2009/04/20

عظمتِ رفتہ کے نقوش ۔۔۔۔۔ ؟!

السلام علیکم !
محترم دوستو ! ابھی ہم نے پچھلے دنوں خوشخبری سنائی تھی کہ حیدرآباد (دکن) کے معروف و مقبول مزاح نگار عابد معز صاحب کی شگفتہ تحریروں پر مبنی ایک بلاگ جلد شروع کیا جائے گا۔

اب ایک مزید کوشش اس ضمن میں کی جا رہی ہے۔ ہندوستان کے صاحب طرز ادیب ، دانشور ، صحافی اور نقاد محترم محمد طارق غازی سے ربط کیا جا رہا ہے اور ان شاءاللہ جلد ہی ان کی سنجیدہ اور قابل غور و فکر تحریریں ان کے قائم کردہ بلاگ پر مطالعے کے لئے دستیاب ہوں گی۔
طارق غازی صاحب ایک طویل عرصہ تک سعودی عرب کے مقبول و معروف انگریزی روزنامہ "عرب نیوز" سے منسلک رہے ہیں اور ان دنوں کناڈا میں مقیم ہیں۔

فی الحال آپ ان کے ایک دانشورانہ مضمون کا اہم اقتباس یہاں ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔۔

*****
نکتہ
عظمت کبھی دی نہیں جا تی، محنت کا صلہ ہوتی ہے۔ (آزاد ترجمہ: طارق غازی)
- براک اوباما
Barack Obama: Greatness is never given. It must be earned‪.
افتتاحی تقریر صدارت ، منگل 20-جنوری-2009
اقتباس : روزنامہ انڈ ِپینڈ نٹ، لندن ، 21-جنوری-2009

گفتہ
سیاست داں کم ہی کوئی علمی یا تاریخ کے لئے قابل ذکر بات کرتے ہیں۔ آج کل تو ان کی تقریریں بھی کوئی اور ہی لکھ کر دیتا ہے، اورقلم کا وہ مزدور اچھے جملے اپنی تحریروں کے لئے رکھ چھوڑتا ہے۔ مگر کبھی کبھی کوئی یادگار جملہ سہواً تقریر میں رہ جاتا ہے اور یوں وہ سیاست داں اس جملہ کے حوالے سے لوگوں کو عرصہئ دراز تک یاد رہ جاتا ہے۔ امریکہ کے چوالیسویں صدر براک اوباما نے حلف اٹھانے کے بعد ایک ایسا ہی جملہ کہہ دیا جوقابل ذکر ہونے کے باوجود آج کل کے عالمی ابلاغیہ کو متوجہ نہیں کرسکا۔
ابلاغیہ اُن جملوں کی پرتیں کھولنے میں مصروف ہوا جو گرچہ مطلب کچھ نہ ہو کے زمرے میں آتے ہیں۔ لیکن اوباما نے 20-25 منٹ کی افتتاحی تقریر میں ایک بہت ہی قابل ذکر بات کہی تھی جو بظاہر تو عام امریکیوں کے دلوں تک نہیں پہنچی، اوروں کا تو ذکر ہی کیا۔

یہ بات سو فی صدی سچ ہے کہ بھیک تو در کنار عظمت کوئی تحفہ میں بھی نہیں دیتا ۔ خود اوباما ہی اس کی مثال ہیں۔ ایک ایسی گوری امریکن عورت کے کالے بیٹے جس نے زندگی میں دو شادیاں کیں اور جس کے دونوں شوہر مسلمان تھے - ایک سیاہ فام مشرقی افریقی، دوسرا زرد فام جنوب مشرقی ایشیائی، ایک ایسا نوجوان جوکچھ دن منشیات میں بھی ملوث رہا ہو، ایک ایسا شخص جسے باپ کی سرپرستی میسر نہیں آئی۔ مگر پھر وہ خود کو پہچانتا ہے اور اپنے شہر اور معاشرہ میں خدمت خلق شروع کرتا ہے۔ پڑھتا ہے۔ جادوبیان مقرر بنتا ہے۔ یہاں تک کہ 47 سال کی عمر میں امریکہ کا 44 واں صدر بن جاتا ہے۔
یہ عظمت کسی نے اسے تحفے یا بھیک میں نہیں دی۔ بے شک اس کے لئے بہت لوگوں نے کام کیا، خاص طور سے سابق امریکی صدر جمی کارٹر کے قومی سلامتی کے مشیر زبگنیو برزنسکی تو در پردہ اوباما کے اصل گرو ہیں اور اوباما کی صدارت بہت کچھ انہی برزنسکی صاحب کی مرہون منت بھی ہے، مگر گرو بھی تو تبھی کامیاب ہوتا ہے جب چیلے میں کچھ جان ہو۔

مگراوباما تو امریکہ کے حوالہ سے قوموں کے حصول عظمت کی بات کررہے تھے ۔
تو قومیں کس طرح عظمت حاصل کرتی ہیں؟
یہ سوال کسی مسلمان یا عرب سے کرنا لاحاصل ہے۔ وہ توابھی اپنی اُس عظمت رفتہ کے سحر سے آزاد نہیں ہوئے جو انیسویں صدی میں انہیں پیرس کی سوربون یونی ورسٹی میں اور برصغیر کی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں دکھایا گیا تھا۔ مستقبل قریب میں بھی اس عظمت رفتہ کی بازیافت کا ان قوموں کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ بلکہ ان کو تو پتہ ہی نہیں ہے کہ عظمت کہتے کسے ہیں۔ ان کے پاس عظمت کا ایک خوابناک تصور ہے جس کے ڈانڈے حقیقت سے تو نہیں ملتے۔

ہندستان کو دیکھئے۔ وہاں ایک شاعر اپنی قوم کی پھٹی ہوئی ٹوپیاں دکھا دکھا کے مشاعروں کے مجمع کے سامنے چنگھاڑتا ہے:
ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں
اور سننے والے وحشیوں کی طرح آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں اور باور کرتے ہیں کی ان کی یہ چیخ پکار ایک دن عجائب گھروں سے نکال کر تاج ان کے سروں پر رکھ دے گی اور انہیں پھر عظمت حاصل ہو جائے گی۔
پاکستان کا حال دگر گوں ہے۔ وہاں جسے عظمت رفتہ کہیں وہ تو دلی، آگرہ،لکھنؤ، حیدرآباد، بھوپال، آرکاٹ، سرنگا پٹم، ٹونک،سہسرام اور مرشدآباد میں رہ گئی تو اس کا ذکر ہی کیا، اور جو تاریخ ملی وہ سکھوں کی ہے یا اشوک موریہ کے ٹکسیلا کی ہے یا ماقبل تاریخ کے موئنجوداڑوکی، تو اس کا بھی ذکر کیا۔
بنگلہ دیش کو پے بہ پے سیلابوں اور سلسلۂ سیل کی ردیف ہڑتالوں سے فرصت ملے تو عظمت کے موضوع پر بھی مذاکرہ ہو۔
عربوں نے سب کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ خلیج کے چنے کے دانے جیسے ملکوں میں اونچی عمارتوں بنانے کی ہوس سے خوئے نمرود کی بوآتی ہے جس نے بابل کا مینار بنایا تھا۔
منگولوں اور بُشیوں کی طرح سعودی اس تاریخ ہی کا نام و نشان مٹانے پر کمر بستہ ہیں جو عظمت رفتہ کی اذیتناک یاد میں مبتلا کرتی ہے۔ انہوں نے پہلے مدینہ میں اور اب مکہ میں ان تمام آثار کومٹا ڈالا جن سے دنیا کے ایک ارب 70 کروڑ مسلمانوں کو اپنی اصل کا سراغ ملتا تھا۔ آنے والے دنوں میں نہ سلف کے آثار رہیں گے نہ ان کے وجود کا کوئی ثبوت، بس شرک رہ جائے گا اور دلیل انہی نئے منگولوں سے لائے گا۔ تو یہ بجائے خود بڑی خدمت ہوگی اورعظمت بھی ملے گی پھر انہی کو جن کا عربوں کی تاریخ عظمت سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔
اور اِدھر اُدھر نظر ڈالو تو پاس پڑوس میں عظمت حاصل کرنے کا صدیوں پرانا آزمودہ نسخہ استعمال کیا جا رہا ہے کہ ایک آدمی فرعون بن کر کرسی سے چپک جائے اور اپنی پوجا کروائے ۔
نئے نبی آنے کے نہیں تو تازہ فرعونوں کو اب موسیٰ کا ڈر بھی نہ رہا۔
افریقہ چلو۔ وہاں کالے ملکوں میں جگمگ جگمگ جواہرات ارضی کی وہ بہتات ہے کہ روائتی تاجر قوموں کی آنکھیں ہی نہیں دل و دماغ بھی خیرہ ہیں، چنانچہ ان ملکوں میں دن بھی تیرہ و تاریک ہیں۔ ان کے پاس نہ عظمت نہ اس کی تاریخ۔ ہاں بحر ظلمات کے کنارے ایک غریب ملک کے بادشاہ نے ایک امیر ملک کے باد شاہ سے کئی لاکھ ڈالر مانگ کر کم از کم افریقہ کی سب سے بڑی مسجد سمندر کے کنارے بناڈالی ۔ دونوں باد شاہ مر چکے ہیں اور مسجد یورپ امریکہ کے عیسائی معماروں کے فن کی عظمت کے ثبوت کے طور پر موجود ہے۔
جدہ میں یونیورسٹی قائم ہوئے 42 برس گزر گئے اور اس ملک میں سال گزشتہ قائم ہونے والی دو نئی یونیورسٹیوں کے لئے اب بھی صرف یورپ، امریکہ، کنیڈا اور آسٹریلیا سے پروفیسروں کی مانگ کے ڈھنڈورے پیٹے گئے۔

کیا کسی قسم کی عظمت ان قوموں کا مقدر بن سکتی ہے؟
نہیں!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں