وقت بڑی تیزی سے بدل رہا ہے۔ بات زیادہ پرانی نہیں ہے ، صرف بیس پچیس سال پہلے کا ذکر ہے۔ بچے اسکول اور کالج اپنے پیروں پر جاتے تھے۔ پیدل چلتے یا سیکل کے پیڈل مارتے ہوئے فاصلہ طے کرتے تھے۔ اب ہمارے بچوں کو اسکول کالج جانے کے لیے کم از کم موٹر بائیک چاہئے۔ محسوس ہوتا ہے کہ یونیفارم کی طرح موٹر بائیک بھی ضروری ہے۔ بچے موٹر سائیکل کے کئی فائدے گناتے ہیں :
وقت بچتا ہے اور فاضل وقت کو دوستوں کے ساتھ گزارا جا سکتا ہے۔ دماغ کو تازہ ہوا ملتی ہے۔ بس میں دھکے کھانے سے اور بری صحبت سے محفوظ رہتے ہیں۔ پچھلی سیٹ پر فرینڈ کو ( قریب اور بہت قریب ) بٹھانے کی سہولت حاصل رہتی ہے۔ دونوں اکٹھے آ اور جا سکتے ہیں۔ کمبائینڈ اسٹڈی کر سکتے ہیں۔
بچے موٹر بائیک کے صرف فائدے گناتے ہیں۔ موٹر سائیکل سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ ان کے غریب ماں باپ کو رہتا ہے جنہیں ہر ماہ موٹر بائیک کی قسط ادا کرنی پڑتی ہےاور پٹرول کے نام پر ایک خطیر رقم لختِ جگر کے حوالے کرنا پڑتا ہے۔ اگر ماں باپ اتنا بھی نہ کریں تو بچوں کی تعلیم متاثر ہوتی ہے۔ مالی خسارے سے ہٹ کر اگر میں دوسرے نقصانات گنانے لگوں تو مجھ پر دقیانوسی اور outdated oldman کا لیبل چسپاں کر دیا جائے گا۔ اسی لیے چپ رہنا بہتر ہے۔
۔۔۔ سیل فون دورِ حاضر کی ایک ایسی ضرورت ہے جس کے بغیر بڑے تو بڑے بچے تک مکمل نہیں ہوتے۔ سیل فون بچوں کے بہت کام آتا ہے۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کالج سے فرار ہونے اور تفریح یا فلم دیکھنے کا پروگرام بنا سکتے ہیں۔ تصویریں لے سکتے ہیں ، مووی بنا سکتے ہیں ، موسیقی سن سکتے ہیں ، ایک دوسرے کو ایس۔ایم۔ایس کر سکتے ہیں۔ لیکچر کے دوران وقت گزارنے کے لیے گیمز کھیل سکتے ہیں اور سیل فون کی مدد سے امتحان میں پاس ہو سکتے ہیں۔ سیل فون کی بدولت بچے اب ہائی ٹیک نقل کرتے ہیں۔ ڈھیر سارے کام لینے کے لیے بچے ، نئے ، قیمتی اور مختلف خوبیوں والے سیل فون کا مطالبہ کرتے ہیں اور ہمیں سیل فون دلانا اور اس میں سِم کارڈ ڈلوانا پڑتا ہے۔ اگر ہمارے طالب علمی کے زمانے میں سیل فون کی سہولت نہیں تھی تو یہ ہمارا نصیب ہے۔ خوش قسمت بچوں کو سیل فون جیسی نعمت سے محروم رکھنا بھلا کہاں کا انصاف ہے؟ اس مفروضہ پر میرے ایک دوست نے اپنے چاروں بچوں کو سیل فون دلا رکھا ہے اور جب انہیں ضرورت پڑتی ہے کسی بچے سے سیل فون مانگ کر کام چلا لیتے ہیں۔
ہمارا بھی عجیب زمانہ تھا۔ ہم نے کوڑیوں کے مول تعلیم حاصل کی۔ لیکن ہمیں بچوں کے لیے تعلیم خریدنا پڑ رہا ہے۔ اب مجھے ’زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا‘ کے معنی سمجھ میں آ رہے ہیں۔ زیور کی طرح بلکہ زیور سے زیادہ ہی تعلیم مہنگی ہو گئی ہے۔ علم کی بڑی بڑی دکانیں کھل گئی ہیں۔ بچے ان دکانوں سے کھلونے خریدنے کی طرح تعلیم حاصل کرنے کے لیے مچل جاتے ہیں۔ ضد کرتے ہیں۔ بعض بچے بیرون ملک خریداری کرنا چاہتے ہیں۔ سیر سپاٹے کے ساتھ آسانی سے ڈگری بھی مل جاتی ہے۔ چند بچے ایسے بھی ہیں جو ایک تعلیم ادھوری چھوڑ کر دوسری تعلیم میں دلچسپی لینے لگتے ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح کسی بچے کا دل ایک کھلونے سے بھر جاتا ہے تو وہ اسے پھینک کر دوسرے کی جانب متوجہ ہو جاتا ہے۔ اگر بچوں کے لیے تعلیم نہ خرید سکیں تو غریب ماں باپ پر تہمت رہ جاتی ہے۔ ایک نوجوان نے مجھ سے کہا تھا :
’میں ڈاکٹر بننا چاہتا تھا لیکن ممی پپا میری یہ خواہش پوری نہ کر سکے !‘
بچپن میں ہمیں جو کھلایا گیا اسے ہم نے شکر کے ساتھ کھایا اور جو پہنایا گیا اسے خوشی خوشی پہن لیا۔ ٹوپی پہنائی گئی تو اسے سیدھی ہی پہنی، اپنے بچوں کی طرح احتجاجاََ ٹوپی الٹی نہیں پہنی۔ آج بچے اپنی پسند کا کھاتے اور اپنی پسند کا پہنتے ہیں۔ بڑھیا سے بڑھیا شوق فرماتے ہیں۔ مرد بچے تک کانوں میں بالیاں اور بندے پہنتے ہیں۔ بال رنگ لیتے اور بالوں کو بڑھا بھی لیتے ہیں۔ زلفیں ان کے شانوں پر گر کر پریشان ہمیں کرتی ہیں۔ ہم انہیں تشویش سے دیکھنے کے سوا کچھ کہہ بھی نہیں سکتے ، کچھ کرنا تو دور کی بات ہے !
اب بچوں کی دسترس میں دنیا جہاں کی چیزیں ہیں۔ مشہور اور نامور کپڑے اور جوتے گلی کوچوں میں تک ملتے ہیں۔ اب ہمیں بچوں کو انگلی پکڑ کر ان کے کپڑے اور جوتے دلانے کی تکلیف نہیں اٹھانی پڑتی۔ یہ اہم خریداری وہ خود کر لیتے ہیں بلکہ ہمارے لیے بھی دو ایک سوغات اٹھا لاتے ہیں۔ پچھلی عید پر میرا لڑکا ، زندگی بھر شیروانی میں ملبوس رہنے والے دادا کے لیے ’لی جینز‘ پائینٹ اور ٹی۔شرٹ لے آیا تھا۔
بچے اپنی من مانی کرتے ہیں اور ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم بہت کچھ کر سکتے بلکہ کرتے بھی ہیں۔ ہم ان کی من مانی کرنے کا بل ادا کرتے ہیں۔ ہمارے بچوں نے ہماری پدرانہ ذمہ داریوں کو فنانس کی حد تک محدود کر دیا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ اب ہم بچے نہیں پالتے ، بچوں کو فنانس کرتے ہیں اور یہ ہمارا دل ہی جانتا ہے کہ کس مشکل سے غریب ماں باپ اپنی امیر اولاد کی ناز برداری کرتے ہیں؟!
--------
مضمون : غریب ماں باپ کے امیر بچے !
مضمون نگار = عابد معز
Author Details
Hyderabadi
واہ جی واہ
جواب دیںحذف کریںکیا کمال کی تحریر لکھی ہے
بہت عمدہ
اگر عابد معز صاحب کا تععارف بھی ہو جاتا تو۔۔۔
مرد بچے تک کانوں میں بالیاں پہنتے ہیں۔۔ زلفیں ان کے شانوں پر گر کر ہمیں پریشان کرتی ہیں۔۔
جواب دیںحذف کریںبہت اعلٰی۔۔۔ عابد معیز کے مزید مضامین کا انتظار رہے گا۔۔
فکر انگیز مضمون ہے اور موجودہ حالات و معاشرتی رویوں کی بالکل صحیح عکاسی کی گئی ہے، مجھے بھی عابد معیز صاحب کے مضامین کا انتثار رہے گا۔
جواب دیںحذف کریں