قارئین !
بہت معذرت کہ ہم اپنے ہی شہر حیدرآباد (دکن) کی ایک نامور اور مقبول ادیبہ محترمہ رفیعہ منظور الامین کے انتقال پُرملال کی اطلاع بروقت نہ دے سکے۔
رفیعہ منظور الامین 25۔جولائی۔1930ء کو حیدر آباد میں پیدا ہوئی تھیں اور بروز پیر 30۔جون۔2008ء انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ روزنامہ 'انقلاب (ممبئی)' کے نامہ نگار ندیم صدیقی کے مطابق جب ان کے وقتِ وفات کے قریب ظہر کی اذاں ہو رہی تھی تو ان کے لب اذاں کے ابتدائی الفاظ ( اللہ اکبر اللہ اکبر) دہراتے ہوئے ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
رفیعہ منظور الامین کی شہرت مقبولیت کی چوٹی پر 1988ء میں اس وقت پہنچی جب مکتبہ جامعہ ، دہلی سے ان کا ناول " عالم پناہ " شائع ہوا۔ یہ ناول اشاعت سے قبل مشہور ادارہ شمع کے خواتین اردو ماہنامہ "بانو" میں قسطوار شائع ہوتا رہا تھا۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہم بھائی بہن ، ہرچند کہ اس وقت کم عمر تھے پھر بھی وراثت میں ملے ادبی ذوق کی وجہ سے اس ناول کی اگلی قسطوں کا بڑا بےچینی سے انتظار کرتے تھے۔ پھر 1995ء میں اس ناول کو مشہور ہدایتکار لیکھ ٹنڈن نے ٹیلی وائز کیا جو "فرمان" کے عنوان سے دودرشن کے ذریعے منظرعام پر آیا۔
'عالم پناہ' کا کردار کنول جیت سنگھ نے ، 'ایمن' کا دیپیکا نے اور 'نواب مرزا' کا راجہ بنڈیلا نے ادا کیا تھا۔
"فرمان" کا منظرنامہ اور اس کے مکالمے بھی محترمہ رفیعہ منظور الامین نے تحریر کئے تھے اور تمام اداکاروں کے کاسٹیوم بھی خود انہوں نے ہی ڈئزائن کئے۔
رفیعہ منظور الامین ، ایک پولس عہدیدار عبدالحمید کی دختر تھیں۔ اُن کے والد پولس ٹریننگ اسکول کے پرنسپل تھے۔ رفیعہ منظور الامین کے شوہر محترم جناب منظور الامین دودرشن کے ڈائرکٹر کے عہدے سے ریٹائرڈ ہو چکے ہیں اور اردو کی ادب دنیا میں خاکہ نگاری کے حوالے سے اپنی ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ آپ کے مضامین اکثر و بیشتر مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔
ان کی ایک دختر امریکہ میں ڈاکٹر ہیں اور دوسری سعودی عرب کے ایک اسکول میں وائس پرنسپل کے عہدے پر فائز ہیں۔
رفیعہ منظور الامین کا سب سے پہلا ناول 'سارے جہاں کا درد' تھا جس کو مشہور ناول نگار نسیم انہونی نے اپنے ادارے سے شائع کیا تھا۔ کشمیر کی رومانی فضا کے پس منظر میں یہ ناول تخلیق کیا گیا تھا۔
رفیعہ منظور الامین کی کہانیوں کے دو مجموعے
دستک سی درِ دل پر
آہنگ
بھی طبع ہو چکے ہیں۔
ہندوستان کی کئی ادبی اکیڈمیوں نے رفیعہ منظور الامین کی تخلیقات کو انعامات و اعزازات سے نوازا تھا۔ ٹیلی فلم "فرمان" کو بھی کئی ایوارڈ ملے تھے۔
اُردو کی مشہور شاعرہ و ادیبہ پروفیسر رفیعہ شبنم عابدی نے رفیعہ منظور الامین کے انتقال پر اپنے تاثرات سے یوں آگاہ کیا :
رفیعہ منظور الامین کی وفات سے اُردو نے ایک سنجیدہ ، صاف ستھرے خیالات کی حامل اور حقیقت پسند افسانہ نگار کو کھو دیا ہے کہ اب ہمیں اپنی صنف میں ایسی لکھنے والیاں نظر نہیں آتیں۔ رفیعہ منظور الامین نہ صرف ایک نیک دل، شریف النفس خاتون تھیں بلکہ ایک اچھی افسانہ نگار اور ناول نگار بھی تھیں۔ جیلانی بانو کے بعد حیدرآباد کی لکھنے والی خواتین میں یقیناً رفعیہ منظور الامین کا نام نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ مرحومہ نے اپنی کہانیوں میں حیدرآباد کی جاگیر دارانہ تہذیب کی عکاسی تو ضرور کی مگر نہ تو انہوں نے فحش نگاری سے کام لیا اور نہ ہی منفی پہلوؤں کو اُجاگر کرنے کی دانستہ کوشش کی بلکہ اس تہذیب اور ماحول کے مثبت مناظر کے پہلوؤں کو پیش کیا جو اپنی اخلاقی اقدار کے سبب آج بھی مثالی حیثیت رکھتے ہیں ان کا ناول "عالم پناہ" ایک نہایت حسین اور دل کو چھو لینے والی تخلیق ہے۔
1980ء میں دلی اُردو اکادیمی کے زیر اہتمام "اردو افسانہ : روایت اور مسائل" کے زیر عنوان پانچ روزہ کل ہند اُردو سمینار کی صدارت کرتے ہوئے رفیعہ منظور الامین نے بین الاقوامی سیاست، سماجی مسائل اور ادب سے متعلق کئی موضوعات پر اپنے معروضات پیش کی تھیں ۔۔۔۔ اس صدارتی تقریر کا ایک اہم مکالمہ ملاحظہ فرمائیں :
ہمارے پیش رو ادیبوں کی دُنیا نسبتاً چھوٹی تھی چنانچہ مسائل بھی اسی سے مطابقت رکھتے تھے لیکن اب صنعتی اور سائنسی ترقی نے جغرافیائی حدوں کو جیسے ختم سا کر دیا ہے اور اسی لیے آج ادیب کی ذمے داری بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔
امریکہ کے اپنے حالیہ دورے میں جب مَیں ورجینا گئی تو وہاں رولن کے مقام پر مجھے اچانک اندازہ ہوا کہ میں دُنیا کی سب سے زیادہ دھماکہ خیز مقام پر کھڑی ہوں، حاضرین! یہ وہ ظالم مقام ہے جہاں امریکہ کی ڈیفنس ریسرچ ایجنسی واقع ہے۔ امریکی صدر جس اسٹار وار کا ذکر کرتے تھے اس کی تیاری یہیں ہو رہی ہے۔ برق رفتار تیکنالوجی اور روبوٹ پر یہیں تحقیق اور تجربے کیے جارہے ہیں۔
کیا آج سے پہلے کے ادیبوں نے ان تباہ کن چیزوں کے نام بھی سنے تھے؟
روایتی افسانہ نگاروں نے جو کچھ جھیلا ، وہی لکھا اور ان کی کاوشوں کی تاثیر بھی ہم نے دیکھ لی اب ہماری نئی نسل کے ادیب کہاں تک کامیاب ہو تے ہیں یہ وقت ہی بتائے گا۔ یہ میرا چیلنج نہیں ایک بیانِ حقیقت ہے۔
اتنی باخبر اور گہرائی سے سوچنے والی اردو ادیبہ کی وفات کو اردو زبان و ادب کا ایک انتہائی نقصان سمجھا جانا چاہئے !!
(انقلاب ، ممبئی کے ندیم صدیقی کی تحریر کے چند اقتباسات سے شکریہ کے ساتھ استفادہ)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں