ساغر خیامی کا اصل نام راشد الحسن تھا۔ انہوں نے 70 سال کی عمر پائی۔ ان کی تدفین آج جمعہ کو ان کے آبائی وطن لکھنؤ میں عمل میں آئے گی۔ ان کے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ تین فرزندان حسن راشد ، حسن شاہد اور حسن ریال شامل ہیں۔ ان کے انتقال کی خبر ان کے بھتیجے شکیل شمسی نے جاری کی جو سہارا ٹی۔وی چینل کے ڈائرکٹر بھی ہیں۔
ساغر خیامی کا انتقال ، اردو طنز و مزاح شاعری کے میدان کا ایک بہت بڑا خلاء شمار کیا جائے گا۔ آپ کی مزاحیہ شاعری کسی بھی مشاعرے کو کامیاب بنانے میں معاون ثابت ہوتی تھی۔ مشرق وسطیٰ اور امریکہ میں آپ کی شاعری کے بیشمار مداح موجود ہیں جو شائد اس صدمہ کو طویل عرصہ تک بھلا نہ پائیں۔
ساغر خیامی کا منتخب کلام ذیل میں ملاحظہ فرمائیں :
دلی کا کتّا
یہ بولا دلی کے کتے سے گاؤں کا کتا
کہاں سے سیکھی ادا تم نے دم دبانے کی
وہ بولا دُم کے دبانے کو بزدلی نہ سمجھ
جگہ کہاں ہے یہاں دم ہلانے کی
عاشقِ عصر حاضر
یہ عشق نہیں مشکل بس اتنا سمجھ لیجئے
کب آگ کا دریا ہے ، کب ڈوب کے جانا ہے
مایوس نہ ہو عاشق ، مل جائے گی معشوقہ
بس اتنی سی زحمت ہے ، موبائل اٹھانا ہے
متشاعر / متشاعرہ
ادب میں آ گئے خم ٹھوک شاعر
غزل کیا مہربانی کر رہی ہے
چمن کھلتے تھے جس کے بدن میں
وہ لڑکی پہلوانی کر رہی ہے
نمک حرامی
کہاں نکلتی تھیں نمکین صورتیں گھر سے
نمک کی شہر میں قیمت جو بڑھ گئی پیارو
نمک حلالوں کی یونہی کمی تھی دنیا میں
نمک حراموں کی اوقات بڑھ گئی یارو
پولیس کی شاعری
رفتہ رفتہ ہر پولیس والے کو شاعر کر دیا
محفلِ شعر و سخن میں بھیج کر سرکار نے
سنا ہے ایک قیدی صبح کو پھانسی لگا کر مر گیا
رات بھر غزلیں سنائیں جو اس کو تھانیدار نے
یہ بولا دلی کے کتے سے گاؤں کا کتا
کہاں سے سیکھی ادا تم نے دم دبانے کی
وہ بولا دُم کے دبانے کو بزدلی نہ سمجھ
جگہ کہاں ہے یہاں دم ہلانے کی
عاشقِ عصر حاضر
یہ عشق نہیں مشکل بس اتنا سمجھ لیجئے
کب آگ کا دریا ہے ، کب ڈوب کے جانا ہے
مایوس نہ ہو عاشق ، مل جائے گی معشوقہ
بس اتنی سی زحمت ہے ، موبائل اٹھانا ہے
متشاعر / متشاعرہ
ادب میں آ گئے خم ٹھوک شاعر
غزل کیا مہربانی کر رہی ہے
چمن کھلتے تھے جس کے بدن میں
وہ لڑکی پہلوانی کر رہی ہے
نمک حرامی
کہاں نکلتی تھیں نمکین صورتیں گھر سے
نمک کی شہر میں قیمت جو بڑھ گئی پیارو
نمک حلالوں کی یونہی کمی تھی دنیا میں
نمک حراموں کی اوقات بڑھ گئی یارو
پولیس کی شاعری
رفتہ رفتہ ہر پولیس والے کو شاعر کر دیا
محفلِ شعر و سخن میں بھیج کر سرکار نے
سنا ہے ایک قیدی صبح کو پھانسی لگا کر مر گیا
رات بھر غزلیں سنائیں جو اس کو تھانیدار نے
جناب آپ کو اپنے بلاگ پر ٹیگ کیا ہے، فرصت ملے تو جوابات کا انتظار رہے گا ۔
جواب دیںحذف کریں