کچھ خشونت سنگھ کے بارے میں ۔۔۔ - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2008/03/13

کچھ خشونت سنگھ کے بارے میں ۔۔۔

محترم قارئین ۔۔۔۔
کلکتہ کے معروف انگریزی اخبار "دی ٹیلیگراف" کے ایک حالیہ شمارے میں معروف صحافی ، کالم نگار اور آزاد فکر قلمکار خشونت سنگھ کا ایک مضمون حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر بعنوان
مسیحائے عصر : ‫‫A Messiah for our time
شائع ہوا ہے۔خلاف توقع ، اسلام کے تعارف میں یہ مضمون بہت ہی جامع ، مدلل اور ایمان افروز ہے۔ اور یہ واقعی ہمارے لئے حیرت انگیز امر ہے۔

کچھ ماہ قبل ، جب ہم اپنے پرانے بلاگ پر تھے ، تو انہی خشونت سنگھ صاحب کی ہرزہ سرائی پر اپنا رد عمل ظاہر کیا تھا۔ہم اپنے معزز قارئین کے لئے وہی پرانی تحریر یہاں پہلے پیش کرنا چاہیں گے۔ اس کے بعد ، خشونت سنگھ کی حالیہ متاثرکن تحریر پر اپنا تبصرہ کل کریں گے۔

خشونت سنگھ ، ہندوستان کے ایک معروف صحافی ، ادیب اور دانشور ہیں ۔ لگتا ہے اب ان کی عمر کے زوال نے ان کی سوچوں پر بھی یلغار کر دی ہے ۔ ورنہ آج سے کچھ سال قبل تک بھی آپ جناب ایک ایسی اعتدال پسند اور انسانیت نواز شخصیت کے طور پر متعارف تھے جس کا ایقان تمام مذاہب کے یکساں احترام پر رہا ہو ۔ کچھ عرصے سے آپ نے اسلام اور مسلم شخصیات کے خلاف ہرزہ سرائی کا محاذ سا کھول لیا ہے جو ان کی اُس متعصبانہ ذہنیت کا اظہار ہے جس پر غالباََ اب تک پردہ پڑا ہوا تھا ۔

انگریزی روزنامہ ’ہندوستان ٹائمز‘ کے 17۔ فبروری 2007ء کے شمارے میں خشونت سنگھ اپنے مخصوص کالم کے تحت بدنام زمانہ تسلیمہ نسرین کے برقعہ جلا دینے والے غیر معقول مشورہ کی تائید کرتے ہوئے اپنی مضحکہ خیز منطق کے مطابق یوں رقم طراز ہیں ‫:

مسلمان عورتوں کا گھر سے باہر برقعہ پہن کر نکلنا ، ہندو اور مسلم میں تفریق پیدا کرتا ہے اور یہ تفریق نمایاں نظر آتی ہے ۔ یہ مسلمانوں کے لئے اچھا نہیں ہے ۔ اس سے مسلم عورتیں ، ہندو خواتین سے الگ تھلگ نظر آتی ہیں اور برقعہ ، جہالت اور پچھڑے پن کی علامت ہے ۔

مجلس علماء ، مرٹھواڑہ ، اورنگ آباد کے ناظم مولانا محمد عبداللہ قاسمی نے خشونت سنگھ کی اس متنازعہ تحریر پر شدید ردّعمل کا اظہار کرتے ہوئے درج ذیل بیان جاری کیا ہے ‫:
بنگالی ناول نگار تسلیمہ نسرین کی حمایت میں برقعہ کو جہالت اور پچھڑے پن کی علامت سے تعبیر کرنے کے لئے جو خودساختہ معیار خشونت سنگھ نے بتایا ہے اس کو سامنے رکھ کر اگر انہیں یہ مسورہ دیا جائے کہ ‫:
ملک میں ہندوؤں کے ساتھ سکھ بھی رہتے ہیں ۔ جب وہ پگڑی باندھ کر نکلتے ہیں تو عوام کے درمیان الگ تھلگ نظر آتے ہیں ۔ یہ پگڑی ہندو اور سکھ میں تفریق پیدا کرتی ہے اور یہ تفریق نمایاں نظر آتی ہے ۔ برقعے کو جہالت اور پچھڑے پن کی علامت بتانے والے خشونت سنگھ پہلے خود اپنے سماج کو مشورہ دیں کہ سر سے پگڑی اتار دیں تاکہ وہ دوسری قوموں کے ساتھ یکساں نظر آئیں ۔ یہ پگڑی کس چیز کی علامت ہے ؟ بقول خشونت سنگھ ، کسی کا الگ تھلگ رہنا سماج میں اچھا نہیں ہے تو پگڑی کو جہالت اور پچھڑے پن کی علامت سمجھ کر اس کے استعمال کو ترک کر دینا چاہئے ۔ کیا خشونت سنگھ اس کے لئے تیار ہیں ؟
شائد تسلیمہ نسرین کی حمایت میں خشونت سنگھ اس درجہ مغلوب ہو گئے تھے کہ انہیں اس بات کا تک احساس نہ ہو سکا کہ جو مشورہ وہ دے رہے ہیں وہ پلٹ کر ان پر بھی آ سکتا ہے ۔


خشونت سنگھ کے لئے ہمارا نیک مشورہ یہ ہے کہ کسی کی بےجا حمایت کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کے ماننے والوں کے جذبات کو وہ مجروح نہ کریں ۔ اسلام میں خواتین کے لئے پردہ کا جو حکم ہے ، اس کی اہمیت و افادیت کا پہلے تفصیلی مطالعہ کریں اور حقائق کا ادراک کریں ۔

2 تبصرے:

  1. برادر حیدرآبادی!
    خشونت سنگھ ایک صاف گو اور صاف دل صحافی ہیں۔ میں بچپن ہی سے ان کا لکھی ہر بات بڑے غور سے پڑھتا آیا ہوں۔
    میرے پاس ان کے انٹرویو کا ایک تراشہ بھی ہے جس میں ان کی شفاف شخصیت ابھر کر سامنے آتی ہے۔ خشونت کسی بھی قسم کے خدا میں یقین نہیں رکھتے لیکن اس نے انہیں اندھا کرنے کی بجائے ان کے ذہن کے دریچے کھول دیئے ہیں۔
    مہیش بھٹ اور خشونت سنگھ جیسے لوگ دماغ سے سوچتے ہیں دل سے نہیں۔ میں ان کی قدر کرتا ہوں اور میری نظر میں وہ نیک نفس ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. uvnwxwاس بات کو ہمارے علم میں لانے کیلئے میں آپ کا شکر گذار ہوں۔ آپ کے بلاگ کو میں بہت معلوماتی پاتا ہوں۔آ

    جواب دیںحذف کریں