ایک پاک و صاف دل کی آج اتنی اہمیت نہیں رہی جتنی گردے کی ہے !!
سنا ہے کہ گردہ لاکھوں روپیوں میں فروخت ہونے لگا ہے۔ لیکن جس طرح "دل" کے چوری ہونے کا پتا نہیں چلتا اور جب پتا چلتا ہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے ، ٹھیک اسی طرح "گردے" کے چوری ہونے کا پتا بھی تاخیر سے چلتا ہے۔
آج جبکہ عاشقی سودے بازی ہو چکی ہے، اسی تناظر میں اگر پیار کرنے والے بھی "دل" کے بجائے "گردہ" چرانے پر اُتر آئیں تو پھر غضب ہی ہو جائے گا۔
کوئی معشوقہ "ہائے میرا دل کھو گیا" کے بجائے "ہائے میرا گردہ کھو گیا!" کہنے پر مجبور ہو جائے گی۔
اور کوئی عاشق اپنی محبوبہ کو جاتا ہوا دیکھ کر "چُرا کے دل میرا گوریا چلی" کے بجائے "چرا کے گردہ مرا، گوریا چلی" کا سحر انگیز نغمہ گانے پر مجبور ہو جائے گا !
ایک ایسے وقت میں جبکہ ہندوستانی فلمساز پرانی فلموں کی کہانیاں تو کجا پرانی فلموں کے نام تک استعمال کرنے لگے ہیں ، گردہ چوری کے بیشمار واقعات سے متاثر ہو کر ممکن ہے "دل" کے عنوان سے بنائی گئی فلموں کو "گردہ" سے تبدیل کر دیں۔ مثلاً کچھ نام یوں :
ہمارا گردہ آپ کے پاس ہے !
گردہ آخر گردہ ہے !
گردہ اپنا اور پریت پرائی !
گردہ دیا درد لیا
گردہ ہے کہ مانتا نہیں !
گردہ ہی تو ہے !
گردہ تو پاگل ہے !
گردہ تیرا دیوانہ
وغیرہ وغیرہ۔
گردہ چوروں کے لیے گردہ تو خردہ بن چکا ہے۔ وہ اس ڈھٹائی سے گردہ چرانے لگے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ نے حضرت انسان کو دو گردے محض اس لئے عطا کئے ہیں کہ وہ کسی کا بھی ایک گردہ چرا کر عیش و آرام کی زندگی گزاریں !
حال ہی میں ایک ایسے گردہ ریکٹ کا پتا چلا ہے جس نے گذشتہ آٹھ سال کے دوران پانچ سو (500) افراد کے گردے چرائے اور ان گردوں کو ضرورت مند مریضوں بشمول بیرون ممالک کے دولت مند مریضوں کو کروڑوں روپے میں بیچ کر اربوں کی دولت بنا لی۔ آٹھ سال کے دوران 500 گردے نکال لینا واقعی بڑا دل گردے کا کام ہے۔ گردہ ریکٹ کے سرغنہ امیت کمار کو نیپال میں دبوچ تو لیا گیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پولیس ، دیگر ذمے دار افراد اور گردہ ریکٹ کی ملی بھگت کے بغیر معصوم عوام کے گردے کیوں کر نکالے اور چرائے جاتے؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گردہ چور گروہ ہر گُر سے واقف اور انسانیت سے عاری ہے۔ چنانچہ ظالموں نے لکھنؤ کے ایک چار سالہ معصوم لڑکے کا تک گردہ نکال لیا۔
انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ گردہ چرانے والوں کے گردے بھی ان کے جسموں سے نکال لیے جائیں !!
--------
فکاہیہ : کہیں آپ کا گردہ چوری تو نہیں ہو گیا؟!
مضمون نگار = حمید عادل
(اقتباس بحوالہ : روزنامہ منصف ، حیدرآباد ، اتوار ایڈیشن ، 10۔ فبروری 08ء )
Author Details
Hyderabadi
bahot KHoob! bhai paasah!!
جواب دیںحذف کریںpaRh kar mazah aagaya :)