جنوبی ہند ریاست تلنگانہ کے گاؤں پنچایت انتخابات کی کچھ تفصیلات پیش کی جا چکی ہیں۔ ان انتخابات کے دو مراحل ہو چکے اور کل بروز بدھ 17/دسمبر کو آخری مرحلے کی رائے دہی مقرر ہے۔ ایک اچھی خبر یہ ہے کہ (کانگریس اور بی آر ایس کے تائیدی) تقریباً 40 مسلم امیدواروں نے ان انتخابات میں کامیابی حاصل کی جن میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔ یہ نتائج تلنگانہ دیہی سطح پر مسلمانوں کے سیاسی شعور کا ثبوت بھی ہیں۔
ایک دلچسپ خبر ضلع نرمل کے منڈل لوکیشورم کی ہے، جہاں ایک خاتون (متیالا سری دیوا) نے صرف ایک زائد ووٹ سے فتح پائی اور اپنے حلقہ باگھاپور کے سرپنچ کے عہدہ پر فائز ہونے کا شرف حاصل کیا۔
راقم نے یہ خبر پڑھتے ہی اپنے مختلف اے۔آئی دوستوں سے دھڑادھڑ رابطے قائم کیے اور فوری تازہ ترین "کھلاڑی کمار ایڈونچر ڈراما فلم" کا اسکرپٹ تیار کر کے آدرنیہ اکشے کمار کو ایمیل کر دیا ہے۔
لیجیے ذیل میں ملاحظہ فرمائیے ۔۔۔
ایک ووٹ، ایک فلائیٹ، اور جمہوریت کا کھلاڑی
کہتے ہیں جمہوریت میں ہر ووٹ کی قیمت ہوتی ہے، مگر سوشل میڈیا عہد میں یہ بات اکثر وہی لوگ کہتے ہیں جو ووٹ ڈالنے کے دن یا تو کسی شادی تقریب میں مصروف ہوتے ہیں، یا بستر پر اینڈتے پڑے ہوتے ہیں یا پھر واٹس ایپ پر قوم/ملت کی تقدیر بدل دینے والے منصوبوں کی تصویریں، آڈیو ویڈیو سئر/فارورڈ کرنے کے مشغلے میں نہایت مصروف ہوتے ہیں۔
مگر تلنگانہ کے ضلع نرمل کے ایک گاؤں نے ثابت کر دیا کہ: جمہوریت کوئی فلسفہ نہیں، یہ تو بعض اوقات ایئرپورٹ، ٹیکسی، ٹائر پنکچر، سڑک فساد اور جنگل کی پگڈنڈی کا مجموعہ بھی ہو سکتی ہے۔
ہاں تو دیویو اور سجنو!
فرض کیجیے۔۔۔ اور فرض کرنا ہی بالی ووڈ فلموں کی پہلی شرط ہے: کہ نیویارک میں ایک این آر آئی خسر رہتا ہے، جسے ہم سہولت کے لیے "اکشے کمار" کہہ لیتے ہیں، کیونکہ وہ ہر فلم میں ملک بچا سکتا ہے، مگر فلائیٹ کبھی وقت پر نہیں پکڑ پاتا۔ کھلاڑی کمار کو اچانک یاد آتا ہے کہ اس کی نئی نویلی بہو "سرپنچ" کا الیکشن لڑ رہی ہے اور مقابلہ اتنا سخت ہے کہ ایک ووٹ بھی "اسپیشل ایفیکٹ" بن سکتا ہے۔
منظر:1
اکشے کمار (فلائٹ میں سیٹ بیلٹ باندھتے ہوئے، موبائل پر): "دیکھو بہو! ووٹ ڈالنا کوئی مذاق نہیں ہوتا، میں نے 'ٹائلٹ: ایک پریم کتھا' میں بھی سماج سدھارا ہے، اب گاؤں کی سیاست بھی سنبھالنے کے کئی کئی طریقے بتاؤں گا، تم بالکل فکر ناٹ!"
سارا ارجن (معصوم آواز میں): "بابا جی، آپ بس وقت پر پہنچ جائیے۔۔۔ گاؤں والے کہتے ہیں مقابلہ کانٹے کا ہے!"
اکشے کمار (مسکراتے ہوئے): "کانٹا ہو یا کیلا۔۔۔ اکشے کمار پھسلتا نہیں!"
اچانک فلائیٹ اناؤنسمنٹ: 'فلائیٹ کو تکنیکی وجوہات کی بنا پر تاخیر کا سامنا ہے'۔
اکشے کمار (آنکھیں پھاڑ کر): اوئے ماں! یہ تو کھلاڑی 786 نہیں، 'کھلاڑی لیٹ' ہو گئی!
منظر:2
ووٹنگ والے دن صبح چھ بجے، پسینے میں شرابور اکشے کمار حیدرآباد ائیرپورٹ پر اترتے ہیں، اور اسی لمحے انہیں احساس ہوتا ہے کہ جمہوریت کتابوں میں جتنی آسان لگتی ہے، زمین پر اتنی ہی مشکل۔ یہاں ان کی ملاقات ایک ایسے ٹیکسی ڈرائیور سے ہوتی ہے جو شکل سے نوازالدین صدیقی لگتا ہے اور باتوں سے پورا فلم انسٹی ٹیوٹ۔
نوازالدین صدیقی (ٹیکسی کے پاس کھڑا، سگریٹ پھونکتے ہوئے): "صاب۔۔۔ نرمل جانا ہے؟
گیارہ بجے سے پہلے پہنچا دوں گا۔۔۔ قسم ہے ماں کی، باپ کی، اور ٹیکسی کے اسٹیئرنگ کی!"
اکشے کمار (شکی نظروں سے): "پانچ گھنٹے کا راستہ ہے!"
نوازالدین (مسکرا کر، بجرنگی بھائی جان اسٹائل میں): "ارے صاب، ہم آدمی نہیں ہیں۔۔۔ ہم احساس ہیں، احساس! ٹائم کو احساس دلوا دیں گے!"
اکشے کمار (ٹکسی میں بیٹھتے ہوئے): "چلو۔۔۔ جان ہے تو جہاں ہے، ووٹ ہے تو سرپنچ ہے!"
منظر:3
راستے میں اچانک پٹرول ختم ہو جاتا ہے (کیونکہ سیاست میں سب سے پہلے ایندھن ہی ختم ہوتا ہے)۔ ٹیکسی جھٹکے کھاتی ہے۔
نوازالدین: "صاب۔۔۔ ذرا سا پرابلم ہے۔ پٹرول ختم ہو گیا!"
اکشے کمار (چِلاتے ہوئے): "یہ کون سا نیا ڈائیلاگ ہے؟ میں نے تو 'ہیرا پھیری' میں بھی اتنی بدانتظامی نہیں دیکھی!"
کچھ آگے جا کر ٹائر پنکچر (کیونکہ جمہوریت کا پہیہ ہمیشہ ہموار سڑک پر نہیں چلتا)۔
نوازالدین (سکون سے): "صاب! زندگی میں دو چیزیں کبھی سیدھی نہیں رہتیں۔۔۔ ایک سیاست، دوسرا ٹائر!"
منظر:4
گاڑی گاؤں کے قریب پہنچ گئی، مگر ایک سڑک پر، فسادی لوگوں کا ہجوم۔۔۔ کیونکہ ہمارے ہاں ہر الیکشن، کچھ لوگوں کے لیے تہوار اور کچھ کے لیے "موقع۔۔۔ موقع" ہوتا ہے۔
اکشے کمار: "یہ لوگ کیوں کھڑے ہیں؟"
نوازالدین (دبے لفظوں میں): "فساد ہے صاب۔۔۔ سیاست کا سائیڈ ایفیکٹ!"
اکشے کمار (بوکھلا کر): "واپس مڑو!"
نوازالدین (جوش میں): "واپس؟ ہم وہ نہیں جو ڈر جائیں! جنگل سے لے چلوں گا صاب! راستہ نہیں، نیت دیکھتا ہوں!"
ٹیکسی جنگل کی پگڈنڈیوں پر دوڑنے لگتی ہے اور یوں نواز الدین صدیقی ثابت کرتا ہے کہ
ملک میں اگر کچھ واقعی ترقی کر رہا ہے تو وہ شارٹ کٹ ہیں۔
منظر:5
مقام: پولنگ بوتھ، وقت: دوپہر ایک بجنے میں پانچ منٹ باقی۔
اکشے کمار ٹیکسی سے کود کر بھاگتا اور پولنگ بوتھ میں داخل ہوتا ہے، ہانپتے ہوئے، پسینے میں شرابور، مگر ووٹ ڈالنے کے ارادے میں مکمل۔
اکشے کمار (ہانپتے ہوئے): "روکو۔۔۔ روکو۔۔۔ میں آخری ووٹر ہوں!"
پریسائیڈنگ افسر (مکرم نیاز): "بس پانچ منٹ باقی ہیں!"
اکشے کمار ووٹنگ کیبن میں جاتا ہے، بیلاٹ پیپر پر مہر لگا کر اسے بیلاٹ بکس میں ڈالتا ہے، پھر باہر آ کر زمین پر بیٹھ جاتا ہے۔
اکشے کمار (آنکھیں بند کر کے اور سر تھام کے): "آج پتا چلا۔۔۔ ووٹ میں واقعی وزن ہوتا ہے!"
یوں کھلاڑی کمار کو زندگی میں پہلی بار پتا چلتا ہے کہ فلم میں ملک و قوم کو بچانا آسان ہے، مگر حقیقت میں ایک ووٹ ڈالنا کئی مناظر مانگتا ہے۔
منظر:6
اگلا دن، نتیجے کا دن!
سارا ارجن ہاتھ میں نتیجہ کا کاغذ لیے روتی ہوئی کھڑی ہے۔
سارا ارجن: "بابا جی۔۔۔ میں۔۔۔ میں صرف ایک ووٹ سے جیت گئی!"
اکشے کمار کی آنکھیں بھر آتی ہیں، بہو کے سر پر ہاتھ رکھتا ہے۔
اکشے کمار (بھاری آواز میں): "بیٹی۔۔۔ یہ میرا ووٹ نہیں تھا۔۔۔ یہ ۔۔۔ یہ جمہوریت کی جیت تھی!"
دروازے کے باہر سڑک پر سے نواز الدین کی آواز آتی ہے: "صاب۔۔۔ ٹیکسی کا کرایہ ایک ووٹ بڑھا دیجئے گا!"
اور یوں ثابت ہوتا ہے کہ ۔۔۔ جو شہری یہ کہتے ہیں کہ: "میرے ایک ووٹ سے کیا فرق پڑے گا"، انہیں کبھی نرمل کے اس گاؤں کا سفر کرنا چاہیے، بشرطیکہ فلائیٹ وقت پر ہو۔
اختتامیہ:
یہ کہانی فلمی ضرور لگتی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ، جمہوریت اکثر اسی طرح جیتی جاتی ہے، خاموشی سے، آخری منٹ میں، اور ایک ووٹ سے۔
باقی سب تو صرف اسکرپٹ ہوتا ہے!!
*****
تحقیق مع اسٹوری از: مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
16/دسمبر/2025ء
Imaginative film script by: Mukarram Niyaz.


کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں