© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
23/ستمبر/2022
*****
بات صرف اتنی ہے کہ حیدرآباد (دکن) میں بعد از پیدائش پچیس سال گزارنے اور پھر دو عشروں کے لیے غائب ہو کر واپس لوٹنے پر، ہر مہینے دو مہینے کے دوران کوئی نہ کوئی ایسی مسجد نظروں کے سامنے دوبارہ آ جاتی ہے کہ یکایک چونک اٹھنا پڑتا ہے:
"ارے یہ ۔۔۔ یعنی کہ وہ مسجد جو/جہاں ۔۔۔۔"
بلکہ ایسے مبارک مواقع پر ہمارے دوست #مرزا اپنی جیب سے سفید گول ٹوپی نکال کر میرے سر پہناتے اور خود رومال اپنے سر باندھ کر نہایت خشوع و خضوع سے لحنِ قوالی میں فرماتے ہیں ع
ترے دل کے کسی کونے میں مسجد ہے بسی ہوئی، بسی ہوئی، بسی ی ی ی ہوئی۔۔۔۔
تو یہ مسجد یعنی "مسجد زور آور خاں" آج برسوں بعد اچانک نظر میں آئی تو نمازِ جمعہ یہیں ادا کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ سلطان بازار (کوٹھی) پر موجود سابقہ رائل ٹاکیز (اب رائل پلازا) سے گجراتی سماجی ادارہ کے مشہور و معروف کالج "پرگتی مہاودیالیہ" کی سمت جانے والی اس گلی کا نام کنداسوامی لین ہے جو ہنومان ٹیکری سڑک پر جا ملتی ہے۔ اور یہ گلی شہر بھر میں عینکوں کی جا بجا چھوٹی بڑی دکانوں کے حوالے سے کئی دہائیوں سے مشہور و مقبول ہے۔ تو اسی گلی کے اختتام پر بالکل سامنے یہی مسجد ہے۔
جی ہاں وہی ہنومان ٹیکری جہاں مشہور کھولانی ریسٹورنٹ ہے، تھوڑا آگے ایچ۔ای۔ایچ دی نظام اینڈ الہ الدین ٹیکنکل انسٹی ٹیوٹ اور مزید آگے تلک روڈ چوراہے پر حیدرآباد میٹروپالیٹن واٹر سپلائی اینڈ سیوریج بورڈ یعنی بگل کنٹہ واٹر ریزروائر۔ جس کی قطار میں تھوڑا سا آگے وہی مشہور و معروف جڑواں سینما ہال تھے "فرحین" اور "شاہین" جن کا نام اصل میں 70 کی دہائی کے اواخر میں شہر حیدرآباد کے مشہور آرکیٹکٹ صدیق صاحب نے اپنی دو دختران کے نام پر رکھا تھا۔ جن میں سے بڑی بیٹی فرحین کا ٹینک بینڈ پر اپنی کار کی تیزرفتاری کا سنگین حادثہ ہوا تھا۔
غالباً نوے کی دہائی میں آرکیٹکٹ صاحب نے دونوں تھیٹر فروخت کر دئے جن کا نام بعد ازاں سوریہ 70 ایم۔ایم اور سوریہ 35 ایم۔ایم رکھا گیا۔ اب تو خیر یہ تھیٹر بھی ختم ہوئے اور ان کی جگہ سوریہ کمپلکس ہے۔
اسی (80) کی دہائی میں، بلکہ ابھی ابھی ویکی پیڈیا نے بتایا کہ ششی کپور، ریکھا اور ڈینی کی سسپنس تھرلر فلم "کالی گھٹا" جنوری 1980ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ ایک دوست کے ہاں دوردرشن ٹی۔وی پر ہفتہ وار فلم دیکھنے کا گھر سے بہانہ بنا کر بڑے بھائی صاحب کے ہمراہ سیدھے 'فرحین' پہنچ گئے۔ فلم کا دوسرا ہفتہ تھا اور آثار تھے کہ شاید فلم فلاپ ہو چکی جو کہ ٹکٹ آسانی سے مل گیا۔ ابھی فلم شروع ہونے میں آدھ گھنٹہ باقی تھا، بڑے بھائی صاحب نے حسب روایت فرمایا کہ: چلو ٹائم ہے ابھی، عصر کی قضا پڑھ لیتے ہیں۔۔۔
یعنی اس زمانے کے محاورہ کے مطابق: چوری میرا کام، نماز میرا فرض!
تو قریب میں یہی بڑے نام والی چھوٹی سی مسجد نظر آئی تو یہیں قضا نماز ادا کی تھی۔ بعد میں کبھی دوبارہ یہاں نماز پڑھنے کا مجھے تو کوئی موقع نہیں ملا۔ اب برسہا برس بعد آج دوسری بار موقع حاصل ہوا تو مسجد کی کشادگی، سلیقگی اور پرسکون ماحول کو دیکھ کر ازحد خوشی ہوئی۔
رہے نام اللہ کا!!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں