© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
28/اپریل/2022
*****
ایک پوسٹ کارڈ کی قیمت تم کیا جانو ۔۔۔
آفر: خط کا جواب خط (پوسٹ کارڈ) سے ہی دیجیے اور میری پہلی کتاب مفت حاصل کیجیے!
ویسے تو سال بھر میں کچھ مرتبہ ڈاک خانہ کے دیدار ہوتے ہیں لیکن آج کافی برسوں بعد شہر حیدرآباد کے صدر ٹبہ خانہ (جنرل پوسٹ آفس، عابڈز، حیدرآباد) میں ایک کام سے جانے کا اتفاق ہوا۔ اتفاق سے وہاں ایک صاحب ایسے نظر آئے جو پوسٹ کارڈ پر تلگو رسم الخط میں جلدی جلدی کچھ سطریں تحریر کر رہے تھے۔
جی ہاں، جی ہاں ۔۔۔ وہی پوسٹ کارڈ ۔۔۔ 15 پیسے والا پوسٹ کارڈ!
جو ایک زمانے میں عوامی رابطے کا مقبول عام ذریعہ تھا۔ ہمارے نوجوان دوست فرنود رومی (مالیگاؤں، ) نے بھی اسی پوسٹ کارڈ کا ذکر پچھلے دنوں اپنی ٹائم لائن پر کیا تھا تو خاکسار نے یہ رائے دی تھی کہ:
کیا ہی اچھا ہو کہ۔۔۔ سوشل میڈیا کے دوست ایک دوسرے کو پوسٹ کارڈ لکھیں اور بعد وصولی ڈاک، اپنی ٹائم لائن پر ڈاک کی مہر کے اسکرین شاٹ کے ساتھ خط کو شئر کریں۔
تجویز کے پس پشت صرف یہ خیال تھا کہ آج کی نوجوان اردو نسل کو ماضی کے ایک ذریعۂ ترسیل کی آگاہی دی جائے اور یہ بھی کہ ۔۔۔ ہمارے ملک کے محکمۂ ڈاک کو پتا چلے کہ آج کی جنریشن میں بھی اردو لکھنے والے موجود ہیں۔
موبائل اور انٹرنیٹ کے تیزرفتار زمانے میں ایسی باتیں اور ایسی تجویز گو مذاق ہی لگتی ہیں، مگر کیا برا ہے اس بہانے کوئی پرانی یاد تازہ کی جائے۔۔۔
مگر صورتحال کچھ یوں ہے کہ دن بھر میں چند کلکس کے ذریعے شئرنگ/فارورڈنگ کا عظیم الشان کام تو ہم بآسانی اور بہ رضا و رغبت کر لیتے ہیں لیکن ڈاک خانہ جانا، پوسٹ کارڈ خریدنا، پھر قلم اٹھا کر چند سطریں خود سے لکھنا اور آخر میں پوسٹ بکس میں خط ڈال آنا ۔۔۔ بڑا محنت طلب کام لگتا ہے (طنز کی بات نہیں، یہ سب مجھے خود بارِ خاطر لگتا ہے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں