© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
22/جنوری/2022
*****
پہلے تو والد مرحوم رؤف خلش کے دوسرے شعری مجموعے "صحرا صحرا اجنبی" (سنہ اشاعت: ستمبر 1988ء) سے ایک نظم پڑھ لیجیے۔ عنوان ہے: "بیوی"
تازہ سرخ گلابوں کی خوشبو
بند ہو کر گھر آئی تھی
برسوں میں کھلی تو
بکھری پتیوں کی طرح کونے کھدروں میں پھیل گئی
میں جن میں آج کل
اپنی ذات کی کرچیاں ٹٹولا کرتا ہوں
(مارچ 1982ء)
کل رات خاتونِ اول و آخر جب شادی کی ایک تقریب سے بعد واپسی اپنے مخصوص مخزن الزیورات میں اشیائے زیب و زینت رکھنے لگیں تو ایک کونے میں کچھ تصاویر پڑیں نظر آئیں۔ پوچھا: یہ کیا؟ چٹخ کر بولیں:
"ہے ایک۔ چار تصویریں بھیج کے کھا گئے ساری زندگی ہماری۔"
پہلی تصویر تو وہی روایتی ہے جو کسی زمانے میں ہر حیدرآبادی نوجوان فوٹو اسٹوڈیو میں بڑی شان سے کھنچوا کر اور عطر میں بسا کر اپنی اسم نویسی کے ساتھ نتھی کرکے فریق ثانی کے گھر بھیجتا تھا۔
چاروں تصاویر 1998ء سے 2000ء کے درمیان کی ہیں۔ ایک تصویر ناکتخدائی کے ایام کی اپنے ریاض کے فلیٹ میں، دوسری تصویر کسی حیدرآبادی تقریب میں رات دو بجے کے بعد کی اور آخری تصویر کرنول (آندھرا پردیش) کی تنگبھدرا ندی کے بیچ کی۔
دونوں چھوٹی بیٹیوں کا تبصرہ ان تصاویر پر:
بھیا (بڑا بیٹا) کسی بھی فنکشن میں ایسے ہی منہ بنا کر بیٹھتے ہیں۔
بھایو (چھوٹا بیٹا) ایسے ہی پوزاں مار کے اپنی فوٹوواں لیتے۔
ابو تو آج بھی ایسے ہی بیٹھ کر کتابیں پڑھتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں