نامناسب رویے دور کیجیے - بچوں کی مناسب تربیت کیجیے - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2021/03/19

نامناسب رویے دور کیجیے - بچوں کی مناسب تربیت کیجیے

inappropriate-behavior-proper-training
تحریر: جویریہ سعید

آج ایک چھوٹی اور سیدھی سی بات کرنا چاہتی ہوں۔
اس میں کسی طویل وضاحت اور کسی مختلف پہلو کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔
اس میں کسی پیچیدہ مشق کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔ کہ اس کام میں یہ مشکل ہے تو حل بتائیے ، یہ بڑا مشکل ہے کیا کریں؟
سیدھا سا سوال ہے۔۔۔ اور سیدھی سی نصیحت ہے۔۔۔ چھوٹا سا کام ہے۔۔
یہ کس قسم کی ذہنیت ہوتی ہے جو بڑوں سے بالعموم مگر بالخصوص بچوں اور بچیوں سے براہ راست یا ان کی موجودگی میں ان کی والدہ سے سوال پوچھتی ہے اور تبصرہ کرتی ہے۔۔۔
"یہ اتنی موٹی ہورہی ہے۔۔ اس کا کھانا کم کرو!"
""لڑکیاں موٹی نہیں ہونی چاہییں ۔۔ کچھ خیال کرو!"
"سنو! اس کا رنگ گہرا ہے۔ کوئی کریمیں لگاؤ۔۔۔ کچھ کرو!"
"اس کے بال کیسے خراب ہیں۔۔۔ یہ اور وہ کرو۔ گنجا کردو۔ اچھے بال آئیں گے۔"
"اس کا قد بہت چھوٹا ہے۔۔ اس کو یہ اور وہ کرو۔"
کوئی بچی تیار ہوکر جائے تو اس کو کہنا۔۔
"آئے ہائے یہ کیا پہنا دیا۔؟"
"یہ کیسی دادی اماں بنا دیا۔"
"یہ کیسی لگ رہی ہے؟"
"اس کا رنگ دبتا ہوا ہے۔ تم لوگوں میں سے نہیں لگتی۔ اس کا کچھ کرو"
"یہ تم پر چلی گئی ہے۔ ورنہ بڑی والی تو کتنی خوبصورت ہے۔ "
کیا سمجھتے ہیں بچوں کو عقل نہیں ہوتی؟ احساس نہیں ہوتا؟ جذبات نہیں ہوتے؟؟؟
وہ سب سمجھتے ہیں ۔ کئی بڑے تو جواب بھی دے دیتے ہیں مگر پانچ، چھے، سات، آٹھ یا بارہ تیرہ برس کی بچی یا بچہ تو اپنے احساسات کو الفاظ کی شکل میں پراسس کرنے سے بھی قاصر ہوجاتا ہے۔
آپ لوگوں کو اپنے اوپر شرمندہ ہونا چاہیے۔
ان بچیوں کی ماؤں سے بھی گذارش ہے کہ خدارا کبھی کسی کے حسن کے بارے میں نہ تبصرے کریں نہ جسمانی حسن کو مرکز گفتگو بنایا کریں۔۔۔
کسی بچی یا بچے کو ایسا کہا جاتا ہو۔۔ تو اس وقت بھی اس کی حمایت کریں۔۔ اور اگر اس پوزیشن میں نہ ہوں تو بعد میں اس بچے کے ساتھ بیٹھیں ۔۔۔ صاف صاف زبان میں آرام سے پوچھیں۔۔۔ کہ فلاں نے یہ بات کہی تھی تو آپ کو کیسا لگا تھا؟
وہ جو کہے اسے غور سے سنیں ۔
نہ کہہ پائے یا جھجھکے تو اس کو کہنے میں مدد دیں۔۔
"برا لگا تھا؟ رونا آیا تھا؟ شرمندگی ہوئی تھی؟ غصہ آیا تھا؟"
وہ بیان کرے تو اس کے بعد اور پھر بھی بیان نہ کر سکے تو خود سے کہیں۔
"وہ بالکل غلط بات تھی۔ بہت بری بات تھی۔ ان کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ امی کو بہت دکھ ہوا، بہت غصہ آیا۔۔ میں ان کو کہنا چاہتی تھی۔۔ مگر انہوں نے سننا نہیں ہے یا بات بڑھانی ہے۔۔ مگر میں آپ کو بتا رہی ہوں کہ آپ بہت پیاری /پیارے ہیں"
اس کے بعد جسمانی خوبصورتی کے معیارات پر بات کرسکیں تو کریں ۔۔۔ نہیں تو بچے سے کہیں۔۔
"آپ کی آنکھیں کتنی پیاری ہیں۔۔ بالکل میری طرح ہیں، ہونٹ بالکل ابو کی طرح ہیں۔ رنگ بالکل میرا ہے۔۔ فلاں شے کتنی خوبصورت ہے۔"
اس کے بعد یا وقتا فوقتاً بچے/بچوں کو بتایا کریں کہ ان میں سے ہر ایک کے آنے پر ماں اور باپ کتنا خوش ہوئے تھے اور اس خوشی کا اظہار کیسے کیا تھا۔ ابو نے کیا کہا تھا ، آپ نے کیا کیا تھا۔۔۔
گویا بچے کی سیلف اسٹیم کو مضبوط کرنا ہے۔ اس کو قدردانی کا احساس دلانا ہے
وزن زیادہ ہو یا آپ بھی قد وغیرہ کے لیے ورزش کا کہتی ہوں تو کہنا ہے۔۔۔ "محنت تو کرنی ہی ہے ، میں نے بھی اور آپ نے بھی۔ لٹکنے ، دودھ پینے اور ایکسرسائز سے قد بڑھتا ہے وزن کم ہوتا ہے۔ اور یہ صحت مند ہونے کے لیے ضروری ہے۔ جو مجھے بھی کرنا چاہیے اور آپ کو بھی۔ اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں کہ آپ اس کی وجہ سے بدصورت لگتے ہیں۔"
"دنیا میں کامیاب وہ ہے جس کا اندروں خوبصورت ہے۔ "
پھر حقیقی خوبیوں پر بھی بات کیا کیجیے۔
کبھی وقت ملے تو بچوں کو یوٹیوب سے ڈھونڈ کر ایسے کامیاب لوگ دکھائیے جن کا رنگ ، قد اور جسمانی خدوخال دنیاوی خوبصورتی کے معیار پر پورے نہیں اترتے مگر وہ کامیاب پوئے۔
ان کو اعتماد دیجیے۔
اپنے اندر بھی تبدیلی لائیں۔ خود بی خوامخواہ جسمانی خوبصورتی کے تذکرے چھوڑ دیجیے۔
بچے سب غور سے سنتے ہیں ۔ نہ کہیں تب بھی سنتے ہیں۔ اندر اندر خوش ہوتے ہیں۔ ہوسکتا ہے آپ اپنے کسی کم گو بچے کو مسکراتا دیکھیں۔
بتاتی چلوں کہ یہ سب کام میں نے باقاعدگی سے اپنے بچوں کے ساتھ کیے ہیں ۔
قد، رنگ، جسامت۔۔۔ حجاب، مشرقی لباس ، ہر شے پر بولڈ ڈسکشنز کیے ہیں۔ چھبتی ہوئی باتوں کی سرجری کروائی پے۔
میرے ایک بچے نے آکر کہا۔۔ "میں کالا ہوں۔"
ہم سب سکتے میں آگئے کیونکہ ہم دونوں نے ایسی باتوں کو ہمیشہ سختی سے رد کیا تھا۔۔ پھر کیسے ہوا؟
صاحب نے تھوڑی دیر بعد کہا۔۔
"تم کالے نہیں ہو۔ تم بہت خوبرو ہو۔۔۔"
میں نے کہا۔۔۔
"نہیں! تم سانولے ہو۔۔ یعنی ڈارک براؤن۔۔ اور تم بہت خوبرو ہو! یہ کس نے کہا کہ خوبرو ہونے کے لیے رنگ کا گورا ہونا ضروری ہے۔"
صاحبزادے نے بتایا کس نے کہا ہے۔۔ اور انہوں نے کیا محسوس کیا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اس کا احساس انہیں دیسی بچوں نے دلایا تھا۔
میں نے کئی مرتبہ اس موضوع پر فیملی ڈسکشنز کیے ہیں جن میں امی ابو اور بچے سب شریک ہوتے ہیں۔
خوبصورتی کیا ہے؟
دنیا کا معیار کیا ہے؟
کسی کے کہنے سے کیا ہوتا ہے؟
چھوٹا قد، کم گو، شرمیلا ہونا، ڈرپوک ہونا۔۔
غلط کہنے والا غلط ہوتا ہے چاہے وہ بزرگ اور عمر میں بڑا ہو ۔۔
سیرت طیبہ کی مثالیں دی ہیں ۔۔۔
آپ اپنے بچوں کو زمانے کے ان بے رحم رویوں سے نبرد آزما ہونے کو اکیلا نہ چھوڑیں ۔۔۔
آپ یعنی ماں اور باپ دونوں۔۔۔ ان کو چار دیواری کے اندر ایسی مضبوط پناہ گاہ فراہم کیجیے کہ وہ اندر سے مضبوط ہوں۔۔ اور دعا کرتے رہیے۔
اور اگر آپ ان لوگوں میں شامل ہیں جو لوگون کی جسمانی ساخت اور ان کے پہناوے اور حلیوں پر بے رحم اور بے حس تبصرے کرتے ہیں ۔۔
اور حسن حسن، دلہن کیسی ہے، فلاں زیادہ پیاری ہے، فلاں کتنی پیاری ہے، فلاں کا بیٹا کا قدر پیارا ہے۔۔۔ فلاں اداکارہ کا قدر حسین ہے۔۔ وغیرہ وغیرہ
قسم کی گفتگو کرتے ہیں ۔۔۔ تو میں آپ سے بے زار ہوں۔۔
اس وجہ سے مجھے کسی کی جسمانی ساخت کی تعریف زمانے کے معیار کے مطابق کرنے سے چڑ ہے۔ اور میں ایسے حسن سے شدید تعصب رکھتی ہوں۔ مجھے بچوں اور حجاب کی خوبصورتی کے نام پر گورے اور نیکی آنکھوں والے بچوں اور نقاب و حجاب میں لپٹی حسیناؤں کی تصویروں سے چڑ ہوتی ہے۔ ہم سب اندر سے احساس کمتری اور تعصبات میں مبتلا ہیں ۔
بات تلخ ہے مگر یہ سچ ہے کہ یہ کسی اور مخلوق کے لیے نہیں ، آپ ہی کے لیے کہا گیا ہے کہ " زبان کا گھاؤ تلوار کے گھاؤ سے زیادہ گہرا ہوتا ہے۔۔ اور زبان کا گھاؤ نہیں جاتا، تلوار کا جا بھی سکتا ہے!"
اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اور ہر وقت دوسروں کے بجائے اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔
بچوں کو اذیت دینے والے میری نزدیک سب سے خراب لوگ ہیں ۔۔ خصوصا وہ جو اس وجہ سے خود کو اس کا حقدار سمجھتے ہیں کہ وہ بڑے ہیں تو کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔
جو لوگ بچوں کو ایسا کہتے ہیں وہ سب سے زیادہ بدصورت لوگ ہیں ، چاہے کتنے حسین و جمیل لائق فائق اور عزت دار ہوں۔

1 تبصرہ:

  1. ماشاءالله! بہت اچھی بات کہی آپ نے۔ ہمرے معاشرے میں صرف بچے ہی نہیں بڑے بھی اس رویے کا شکار ہیں۔ "لوگ کیا کہیں گے"۔۔ بس یہی ایک سوچ اِن سب کی محرک بنتی ہے شاید۔ ہمیں اپنے بچوں کو باطنی طور پر مضبوط بنانا چاہیے۔ جزاک اللّه

    جواب دیںحذف کریں