حیدرآباد کا محرم - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2018/09/28

حیدرآباد کا محرم

Hyderabad Muharram

حیدرآباد میں قطب شاہوں نے غمِ حسینؑ کی عظمت کو بڑے حسن اور سلیقے سے انسانوں کے دلوں تک پہنچایا ہے۔ ہندوستان میں دو ایک ہی مقامات ایسے ہیں جہاں محرم شاندار طریقے سے منایا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ محرم منانے والوں میں اہل لکھنؤ مشہور ہیں۔ لیکن اب محرم کی جگہ حیدرآباد دکن نے لے لی ہے۔ تلنگانہ کے ہندو ماہ محرم کو "پیرینڈوگا" یعنی پیروں کا تہوار کہتے ہیں۔ حیدرآباد کا محرم قومی یکجہتی کا مثالی نمونہ پیش کرتا ہے۔
حیدرآباد میں ایک رواج زمانے سے چلا آ رہا ہے کہ ہر ماہ نیا چاند دیکھ کر لوگ آپس میں آداب سلام کرتے ہیں لیکن محرم کا چاند دیکھ کر سلام نہیں کرتے کیونکہ محرم اہل بیت کے مصائب اور آلام کا زمانہ ہے۔
محرم میں مرثئے پڑھے جاتے ہیں اور مجالس ماتم منعقد کی جاتی ہیں۔ جگہ جگہ شربت اور پانی کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں کیونکہ کربلا کے شہداء بھوکے اور پیاسے شہید ہوئے تھے۔ مسکینوں کو ان کے نام سے کھانا کھلایا جاتا ہے۔ اس مہینے کا احترام ہمارے دلوں میں ایسا جاگزیں ہو گیا ہے کہ سرخ رنگ کے بھڑک دار کپڑے پہننے سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ سبز یا سیاہ رنگ کا لباس بکثرت استعمال ہوتا ہے۔

قطب شاہوں کے عہد کی بہت سی پرانی روایات کے ساتھ ساتھ حیدرآباد میں نظام میر عثمان علی خان کے زمانے میں ایرانیوں کا اثر بہت بڑھ گیا تھا۔ ارسطو جاہ اور ان کے بعد ایرانی وزیروں کا ایک پورا سلسلہ سالار جنگ اور ان کی اولاد تک چلتا ہے۔
پانچ محرم سے شہر کی رونق اور دھوم دھام بہت بڑھ جاتی تھی۔ مہاراجہ چندولال ، مہاراجہ کشن پرشاد اور راجہ شیوراج کی ڈیوڑھیوں پر روشنی کرائی جاتی تھی۔ راجہ شیوراج کی ڈیوڑھی پر لب سڑک بالائی منزل پر مختلف وضع کے پتلے بٹھائے جاتے اور روشنی کی جاتی تھی۔ ہزاروں چراغوں سے میدان جگمگاتا رہتا۔
مہاراجہ چندولال نے اپنی خودنوشتہ سوانح حیات میں لکھا ہے کہ:
"یہ نیاز کشش بھی عقیدت سے آبدار خانہ اور ٹٹی میں قسم قسم کی روشنی کرتا اور اشجار اور بلوریں قنادیل اور چالیس زحاچی چراغ رنگارنگ کے آویزاں کرتا ہے کہ دیکھنے والا اور سننے والا حیرت سے دیکھتا اور سنتا ہے۔"

دولت اور ارزانی کی وجہ سے حیدرآبادی لوگ سکون اور آرام کی زندگی گزارتے تھے۔ محرم کا تماشا دیکھنے کے لیے شوقین لوگ بنگلوں اور ڈیوڑھیوں کے جھروکوں پر مع احباب کے بیٹھ جاتے تھے اور خواتین چلمنوں کے پیچھے بیٹھ جایا کرتیں۔
5/محرم کو ہی اعلیٰ حضرت کا لنگر نکلتا تھا۔ اس لنگر میں مملکت کی ساری فوج بےقاعدہ اور باقاعدہ اور پولیس کی جمعیت کے علاوہ صرفخاص اور پائیگاہ کی فوجیں اعلیٰ حضرت کے لنگر میں ہوتیں۔ سلطان شاہی میں کمندان کی ڈیوڑھی ، کمندان کی کوت اور کمندان کی کھڑکی مشہور ہے۔ کوت میں عاشور خانہ تھا جہاں علم ایستاد کیے جاتے تھے۔ لنگر کے روز سارے شہر میں غیرمعمولی چہل پہل رہتی۔ شہر میں علم جہاں سے گزرتے میلے لگ جاتے تھے۔ لنگر کے روز ہر طبقے اور ہر ملت کا ایک عظیم الشان اجتماع ہوتا جو شاید ہی کسی اور موقع پر دکھائی دے۔ گولی لوگ ، کوڑی والا عود پکارتے ہوئے پھرتے۔ اس روز ہزاروں روپیوں کا عود بکتا ہے۔

لنگر میں سب سے پہلے نشان کا ہاتھی ہوتا۔ اس کے بعد کوتوال شہر کے سوار، پیدل، سٹی افغان پولیس کی جمعیت جو بینڈ اور مشکی باجوں کے ہوتی ہوئی گزرتی۔ اس کے بعد کوتوال شہر جن کے ساتھ ساتھ دو جلاد کتے لیے ہوئے چلتے اور اس کے بعد نظم جمعیت کی فوج کا سلسلہ شروع ہوتا۔ مختلف فرقوں کے سپاہی، عرب ، سندھی، راجپوت، واٹھور، سکھ، پربھیا، روہیلے اور مہدی پٹھان لال لال کوٹ پہنی ہوئی بےقاعدہ پلٹن اپنے اپنے سلسلے سے باجوں کے ساتھ گزرتے۔ ہاتھی کو کارچوبی جھول اڑھائی جاتی تھی ، ساتھ کوتل گھوڑے بھی ہوتے/ مغلیہ دور کے اعزاز ماہی مراتب ، چتر و علم سے سرفراز تھے وہ اس کے ساتھ ہوتے۔ غرض یہ جمعیت مغلیہ دور حکومت کی یادگار تھی۔

10/محرم کو بڑے اہتمام سے دن کے 12 بجے کے بعد قطب شاہی زمانے کا بی بی کا علم جو آج تک بی بی کے الاوے میں زیر اہتمام محکمہ امور مذہبی صرفخاص دس روز تک ایستاد رہتا ہے، مخصوص ہاتھی پر عماری کس کے، ہزاروں ہندو مسلم افراد کے جلوس کے ساتھ شہر کے مختلف مقررہ مقامات پر گشت ک دیا جاتا ہے۔ اور مسلمانوں کے علاوہ ہندو بھائی اس موقع پر نذریں پیش کرتے ہیں۔ ماتم داروں کا جلوس شہزادہ علی اصغر کا جھولا لیے ہوئے علم کے پیچھے سینہ کوبی کرتا ہوا گزرتا ہے ، اس منظر کو ہر دیکھنے والا حسرت و یاس کی آنکھوں سے کچھ نہ کچھ آنسو بہائے بغیر نہیں رہتا۔
محبوب علی بادشاہ کے زمانے میں محرم کے جو سوانگ پیش کیے جاتے تھے، ان کو ایک تماشا سمجھ کر عثمان علی بادشاہ نے حکماً بند کروا دیا اور اس کی جگہ سیاہ پوش سر و پا برہنہ ماتم داروں نے لے لی۔

ماتمِ حسین : ماتم کا طریقہ یہ ہے کہ ہر ماتم دار صف بستہ ہو کر یا حسین یا علی کہتے ہوئے اپنا داہنا ہاتھ زور زور سے سینے پر مارتا ہے ، اس میں شدت پیدا کرنے کے لیے آلاتِ جارحہ قمع ، چقچقی وغیرہ سے کام لیتے ہیں۔ اور اس طرح زخمی ہونے کے باوجود دیکھتے ہی دیکھتے حسینی معجزہ کی بدولت تمام زخم از خود مندمل ہو جاتے ہیں اور کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ اس طرح علم لے کر حسین حسین کہتے ہوئے دہکتی آگ پر سے گزر جاتے ہیں اور پاؤں مطلق نہیں جلتے۔

واقعہ کربلا کو جس طرح مسلمانوں نے مرثیہ کی شکل میں نظم کیا اسی طرح ہندو بھائیوں نے بھی بساط بھر کوشش کر کے اس موضوع پر قلم اٹھایا۔ جیسے انیس، دبیر ، جوش ، فراق ویسے ہی محروم ، جگناتھ آزاد، آنند نرائن ملا اور دیگر حضرات نے بھی امام حسین کی شان میں نوحے اور مرثئے لکھے ہیں۔

***
مآخذ:
کتاب "حیدرآباد کی مشترکہ تہذیب" (سن اشاعت: فروری 1985)
تالیف: اقبال جہاں قدیر

1 تبصرہ: