صاحب! کچھ ادھر ادھر ایسا ویسا پڑھ لیتے ہیں تو پھر سے پرانا زخم ہرا ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی عادت سی ہو گئی ہے کہ سال میں ایک آدھ بار دلِ ناتواں کو ایسے دھچکے کھاتے رہنے کی۔ کوئی پانچ سال قبل اسی بلاگ پر لکھ گئے تھے کہ ۔۔۔ اک دل کا درد ہے کہ رہا زندگی کے ساتھ ۔۔۔
گو کہ اس سے چند ماہ قبل کسی نے امید دلائی تھی کہ ہندوستان میں اردو ابھی نہیں مر رہی ہے۔
مگر بات کیا ہے ۔۔ کوئی کچھ کہتا ہے کہ کوئی کچھ۔ اب یہی دیکھیں کہ ابرار رحمانی صاحب نے اردو اور ہندی کے حوالے سے کیا کچھ حقائق بیان کئے تھے؟ فرماتے ہیں ۔۔۔
اکثر ہمارے کچھ "بزرگ" کہتے نظر آتے ہیں کہ ہماری زبان "اردو" دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی بڑی عالمی زبان کی اتنی قابل رحم حالت کیوں ہے؟ آپ پھر اصرار کریں گے کہ رپورٹ بتاتی ہے کہ : اردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے۔ اب اگر آپ ذرا حقیقت سننے کو تیار ہوں تو سنیں!
آپ جسے اردو کہہ رہے ہیں ، وہ دراصل "ہندوستانی" ہے جو اب زیادہ تر ہندوستان میں دیوناگری رسم الخط میں لکھی جا رہی ہے۔ آپ کہیں گے کہ نہیں صاحب! اس میں "اردو بولنے والے بھی" شامل ہیں۔ چلئے ہم مان لیتے ہیں۔ مگر کتنے فیصد ؟
بول چال کی سطح پر دونوں زبانیں یقیناً ایک ہی معلوم ہوتی ہیں مگر ان کی اصل شناخت ان کے رسم الخط سے ہے اور اب اس میں کوئی شبہ کی گنجائش نہیں کہ اردو رسم الخط میں "ہندوستانی" لکھنے والے دیوناگری میں لکھنے والوں سے کافی پیچھے ہیں۔ عالمی رپورٹ میں جس ہندوستانی کے تیسرے نمبر پر ہونے کی بات کہی جا رہی ہے وہ دیوناگری ہندوستانی ہے "اردو نہیں" ہے۔ (حالانکہ یہ بھی ایک خوش فہمی ہے)۔
عام طور پر ہم یہ بھی کہتے نہیں تھکتے کہ ریڈیو اور ٹیلی وژن کی زبان دراصل "اردو" ہی ہے۔ یہ ایک خوش فہمی اور ۔۔۔۔
ارے صاحب! یہ "دیوناگری ہندوستانی" ہے۔ آپ کسی بھی ٹی وی اسکرپٹ یا فلم اسکرپٹ کو اٹھائیں، آپ اسے اردو میں ہرگز نہیں پائیں گے، یہ سب دیوناگری میں ہوتے ہیں۔ وجہ ؟
وجہ صرف یہ ہے کہ ہم اپنی لاپرواہی اور بےتوجہی سے اپنا سارا سرمایہ ہندی والوں کی نذر کر رہے ہیں۔ ہم نہ تو خود اردو رسم الخط استعمال کر رہے ہیں اور نہ ہی اسے اپنے بچوں کو سکھا رہے ہیں۔ یاد رکھیں کسی بھی زبان کی شناخت اس کا رسم الخط ہوتا ہے۔ ہم نے اپنی لاپرواہی اور نادانی سے خود اپنی زبان کا بڑا نقصان کیا ہے۔ ہماری نئی نسل اب اردو نہیں جانتی ، اس کے ذمہ دار سب سے پہلے ہم خود ہیں!
اردو اب بڑے پیمانے پر خود اردو والوں کے یہاں سے نکالی جا چکی ہے۔ جب ہم خود ہی اسے نہیں پڑھیں گے تو دوسرا اسے کیوں پڑھے گا؟ اب اردو کی زندگی کی ضمانت صرف اس بات میں ہے کہ ہم لازماً اپنے بچوں کو اردو پڑھائیں۔ جب تک زیادہ سے زیادہ کسی زبان کو پڑھنے والے نہیں ہوں گے اس زبان کو ختم ہونے سے نہیں بچایا جا سکتا۔ اور یہی صورتحال اگر اردو کے ساتھ بھی رہی تو اردو کو بھی نہیں بچایا جا سکتا!
اردو کے بڑے بڑے ادارے کھول لینے سے ، اردو کے روز نئے نئے رسالے اور اخبارات نکال لینے سے ، اردو کی ڈھیروں کتابیں چھاپ لینے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ جب تک ان کتابوں کو پڑھنے والے نہیں ہوں گے ، یہ کتابیں قطعاً بیکار ہوں گی۔ یہ کاغذ کا زیاں ہی سمجھا جائے گا۔ آج اردو کا سب سے بڑا کل ہند ادارہ اردو کی ترقی و فروغ کے بجائے محض اشاعتی ادارہ بن کر رہ گیا ہے اور یہ اشاعتی ادارہ بھی عوامی نہیں بلکہ ذاتی ہو کر رہ گیا ہے۔ اسی طرح اردو کی ترقی کا دوسرا بڑا ادارہ کمپیوٹر ٹریننگ سنٹر بنا ہوا ہے جو جگہ جگہ کمپیوٹر سنٹر قائم کر رہا ہے۔ لیکن ان مراکز سے بھی اردو والوں کا کم ہی بھلا ہو رہا ہے بالفاظ دیگر اردو کا کوئی بھلا نہیں ہو رہا ہے پھر بھی ہمارا دعویٰ ہے کہ سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے!!
Author Details
Hyderabadi
میرے حیدرآبادی بھائی آپ ان دنوں یہ مضمون لکھ رہے ہیں جب حیدرآباد میں اردو اکیڈیمی آندھراپردیش کی جانب سے اردو زبان کے ادیبوں ‘ شاعروں ‘ صحافیوں اور اردو کے فروغ کے لئے کام کرنے والے افراد کو کارنامہ حیات ایوارڈ دیا جارہا ہے ۔
جواب دیںحذف کریںمیرے بھائی اردو مختلف زبانوں کی سنگم سے بنی ہے ہمیں اان باتوں کا برا نہیں ماننا چاہیے کہ کوئی فارسی کہے ترکی کہے سنسکرات کہے یا کچھ اور اب ہم اردو کی ترقی ترویج میں اپنا زیادہ سے زیادہ حصہ ڈالتے جائیں۔۔
کوثر بیگ ۔۔۔
جواب دیںحذف کریںلولزز۔۔ آپ بھول گئیں کہ میرا تعلق صحافت کے میدان سے ہے۔ اردو اکیڈمی کی یہ تگڑم بازی ہم ایک عرصے سے دیکھ رہے ہیں ۔۔۔ اور موجودہ سیکریٹری ڈائرکٹر صاحب سے تو اس وقت سے واقف ہیں جب وہ آرٹس کالج کی راہداریوں میں لکچررز ریڈرس کی جی حضوریوں میں لگے رہتے تھے۔ یہ کارنامہ حیات ایوارڈ دئے گئے یا بانٹے گئے؟ بس ہمارا منہ نہ کھلوائیں ۔۔۔ ایک ہفتہ پہلے ہی لسٹ مل چکی تھی کہ کس کس کو "بانٹے" جانے والے ہیں؟ خیر کم از کم چھ سات تو حقدار رہے ہیں۔
ویسے یہ خبر تعمیر نیوز پر آج ہی یہاں پڑھ لیں
اردو اکیڈمی آندھرا پردیش - 21 شخصیات کو کارنامہ حیات ایوارڈ