عنوان کتاب : کتاب الہند
مصنف : ابو ریحان البیرونی
پی۔ڈی۔ایف صفحات : 328
فائل سائز : قریب 7 میگا بائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک : کتاب و سنت لائبریری - کتاب الہند
پوری کتاب کا مطالعہ تو ممکن نہ ہو سکا۔ البتہ مختلف مفید باب اور صفحات کے مطالعے کے بعد یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ ، اگر کوئی قاری اس کتاب کے ذریعے موجودہ ہندوستان سے متعلق معلومات حاصل کرنے کا خواہشمند ہو تو اسے مایوسی ہی ہاتھ آئے گی۔
کتاب کا اندازِ تحریر بھی دور حاضر کی سلیس اردو میں نہیں بلکہ قدیم اردو سے متاثر ہے۔ ہندوؤں کے قدیم حالات اور عقائد کو گوکہ تفصیل سے ضرور بیان کیا گیا ہے مگر کتاب کے تبصرے میں مبصر کا یہ کہنا کہ ۔۔۔
اس کتاب کے مطالعے سے اس بات کو سمجھنے میں مدد ملے گی کہ ہندوؤں کو دعوت دین دینے کے حوالے سے کہاں کہاں خامیاں موجود ہیں اور کن ذرائع کو ملحوظ رکھ کر ہم ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مائل بہ اسلام کر سکتے ہیں۔یکسر مبالغہ آمیز لگتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ قریب ایک ہزار سالہ پرانے دور کے حالات کو آج کے حالات پر منطبق کر کے بھلا ہندوؤں کو مائل بہ اسلام کیسے کیا جا سکتا ہے؟
اور یہ کہنا بھی بہت مشکل ہے کہ آج کے ہندو کے حالات اور عقائد بعینہ وہی ہیں جو البیرونی کے زمانے میں پائے جاتے تھے۔ ہندوستان میں رہنے والے ہم جیسے عام مسلمان بھی اتنی بات ضرور جانتے ہیں کہ ہر دو دہے یا چوتھائی صدی کے دوران ہندوؤں کے سماج ، حالات اور طرزِ معاشرت میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں آ جاتی ہیں ونیز اس مذہب کے ماننے والے اتنے طبقوں اور اتنے خطوں میں بٹے ہوئے ہیں کہ شمالی ہند اور جنوبی ہند کے ہندوؤں کے رسم و رواج ، عبادت گاہیں ، زبان ، تہوار ، تہذیب میں تک نمایاں فرق محسوس ہوتا ہے۔ بت پرستی ضرور مشترک ہے لیکن ۔۔۔ ہر خطہ کا ہندو اپنے اپنے چہیتے "بھگوان" کی پرستش میں مصروف ہے۔ جیسا کہ
شمالی ہند : وشنو دیوی ، شیو / ہری
جنوبی ہند : شیوا ، جگناتھ ، وینکٹیشورا ، لکشمی
مغربی ہند : گنیش ، کرشنا ، ساوتری
مشرقی ہند : درگا ، سرسوتی
پھر زبان کی مثال لیں تو بہ مشکل چند فیصد ہندو (اور وہ بھی بزرگ طبقہ کی اکثریت) پورے انڈیا میں ایسے ہوں گے جنہیں سنسکرت زبان سے بخوبی واقفیت ہوگی۔ حالانکہ اس کتاب کے باب اول کے دوسرے پیراگراف میں لکھا ہے کہ :
ہمارے اور ہندوؤں کے درمیان مغائرت یعنی دوری ہے جس کے بہت سے اسباب ہیں۔ اس دوری کا پہلا سبب زبان کا اختلاف ہے ۔۔۔ اگر کوئی شخص اس مغائرت کو دور کرنے کے لیے یہ زبان (سنسکرت) سیکھنا بھی چاہے تو آسانی سے نہیں سیکھ سکتا۔
اول بات تو یہی ہے کہ آج کے جدید ہندوستان کا ماڈرن ہندو خود بھی یہ مشکل سنسکرت زبان سیکھنا نہیں چاہتا۔ کجا یہ کہ دوسروں کو سیکھنے کہا جائے۔ دوسری اہم بات یہ کہ ہندوستان اتنا بڑا ملک ہے کہ ہر خطے کا ہندو ایک ہی زبان (بطور مثال غیر سنسکرت آمیز آسان ہندی زبان سمجھ لیں) بولے گا ، یہ کہنا بھی مشکل ہے۔
شمالی ہند کے علاقہ جات میں عام فہم ہندی کے ساتھ اردو اور کسی حد تک آسامی اور پنجابی کا چلن ہے۔ جنوبی ہند کی زبانیں تو تلگو ، تامل ، کنڑا اور ملیالم ہیں۔ مشرق میں بنگالی ، میتھلی ، نیپالی اور اڑیا کا زور تو مغرب میں مراٹھی ، کونکنی ، گجراتی وغیرہ کا چلن ہے۔
آزادئ ہند کی تحریکوں کے دوران اور اسکے بعد کے جدید ہندو مت میں تبدیلیاں تو بنگال کے رام موہن رائے (1772-1833) کی تحریک سے پیدا ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ پھر رام کرشنا پرما ہنسا (1836-1886) ، بنکم چندرا چٹوپادھیائے (1894-1838) ، سوامی وویکانندا (1863-1902) ، لالہ لجپت رائے (1865-1928) ، بال گنگا دھر تلک (1856-1920) کی اصلاحی تحریکوں سے قدیم ہندو مت مخلتف کروٹیں لیتا رہا تو گاندھی اور امبیڈکر تک آتے آتے گویا ایک نیا مذہب اختیار کر گیا۔ اور موجودہ دور میں تو بی۔جے۔پی - آر۔ایس۔ایس گٹھ جوڑ کی "ہندو توا تہذیب" سے واقف ہوئے بغیر ہندو ازم کی تازہ ترین حالت و نوعیت کی جڑوں تک پہنچنا مشکل ہے۔
اب ان سب حقائق کے پیش نظر یہ کہنا بجا ہوگا کہ البیرونی کی کتاب کے اس اردو ترجمے سے قدیم ترین ہندو مت کی تاریخ ، تہذہب ، عقائد اور حالات و واقعات سے ضرور واقفیت حاصل ہو سکتی ہے لیکن اس کتاب کے سہارے موجودہ دور کے ہندوؤں کو اسلام کی طرف راغب کرنے کی کوششیں نہایت مشکل ہیں۔
یہ کتاب الہند ہے یا مقدمۃ الکتاب الہند۔ دونوں مختلف کتابیں ہیں۔
جواب دیںحذف کریںاحمر
جواب دیںحذف کریںاس اہم کتاب کا ربط اور اس پر جایزہ کا شکریہ
لیکن معذرت کے ساتھ اگر یہ جملہ
ہر خطہ کے ہندو نے اپنے اپنے "بھگوان" کو پکڑ رکھا ہے
ذرا تبدیل کر دیں تو مناسب ہوگا
مزید یہ کہ
کیا آپ ہندوستان کی لایبریریوں اور ناشروں کے ربط فراہم کر سکتے ہیں
جہاں کتابوں کی فہرست موجود ہو یا وہ وہ ای-میل پر فراہم کر سکیں
شکریہ
بارک اللہ فیک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریںمنیر عباسی بھائی ، آپ نے صحیح کہا۔ یہ اردو ترجمۂ "مقدمہ کتاب الہند" ہی ہوگا کیونکہ میرے ناقص علم کے مطابق تو البیرونی کی Indica ایک سے زائد جلدوں میں اور کئی ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔
جواب دیںحذف کریںاحمر صاحب ، شکریہ۔ جملے میں مناسب تدوین کر دی گئی ہے۔ آپ کے تقاضے کو پورا کرنے کیلئے تو کافی تحقیق درکار ہوگی۔ پھر بھی کچھ موقع ملتے ہی ایک علیحدہ پوسٹ اس تعلق سے ضرور لکھوں گا۔
کفایت اللہ بھائی جان۔ بلاگ پر خوش آمدید اور شکریہ۔
معلومات دینے کا شکریہ
جواب دیںحذف کریںکوشش کر کے جلد ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسے
جواب دیںحذف کریں