بہادر یار جنگ کے دو خط محمد علی جناح کے نام - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2011/07/06

بہادر یار جنگ کے دو خط محمد علی جناح کے نام

سابق ریاست حیدرآباد دکن کے نامور قائد بہادر یار جنگ (رحمۃ اللہ علیہ) کی حیات و کارناموں پر مبنی ویب سائیٹ کا قیام عمل میں آ چکا ہے۔ یہاں ملاحظہ فرمائیں :
غیر منقسم ہندوستان میں شائد ہی کوئی ایسا عاقل وبالغ شخص ہوگا جس نے بہادر یار جنگ کا نام نہ سنا ہو۔ وہ لوگ جو ان کے سیاسی خیالات سے متفق نہیں تھے وہ بھی ان کی شعلہ بیانی کے قائل اور عاشق تھے۔ اور اس لئے انہیں لسان الامت کے لقب سے بھی نوازا گیا تھا۔ علاوہ ازیں جناب محمد علی جناح کے دستِ راست ہونے کی وجہ سے انہیں قائد ملت اور ریاست حیدرآباد میں ان کی غیر معمولی شہرت اور اہمیت کے مد نظر کچھ لوگ انہیں آفتابِ دکن بھی کہتے اور سمجھتے تھے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کی نوجوان نسل بہادر یار جنگ کے نام اور کام سے بیشتر ناآشنا ہے۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ بہادر یار جنگ کا انتقال خاصی نوعمری میں ہو گیا اور آزاد ہندوستان یا پھر پاکستان میں ایک اہم رہنما کی حیثیت سے انہیں جو کردار نبھانا تھا وہ اس سے محروم رہ گئے۔ اور 1930ء سے لے کر نواب صاحب کے سال وفات 1944ء تک کوئی ایسی سیاسی سرگرمیاں نہیں تھیں جن کا تعلق مسلمانوں سے ہو اور نواب صاحب ان سے منسلک نہ ہوں۔ حیدرآباد دکن سے لے کر صوبہ سرحد تک کی بہت سی سیاسی گتھیوں کو سلجھانے میں بہادر یار جنگ پیش پیش رہے تھے۔

اسی ویب سائیٹ پر بہادر یار جنگ کے مشہور و مقبول خطوط کا ایک ضخیم مجموعہ بھی موجود ہے، جن کے ذریعے ایک دور ، ایک تہذیب اور ایک تاریخ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ ذیل میں خطوط کے اسی زخیرے سے دو خط ملاحظہ فرمائیں جو نواب صاحب نے قائد پاکستان محمد علی جناح کو تحریر کئے تھے۔

محترم قائد اعظم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
سب سے پہلے اس زبردست کامیابی کے لیے میری دلی مبارکباد قبول فرمائیے جو مجلس عاملہ کے گذشتہ اجلاس میں آپ کی بےمثل اور خداداد قیادت کی وجہ سے ہوئی ہے۔ نہ صرف آپ ملت اسلامیہ کو ایک تاریخی فتح عطا فرمانے کا باعث ہوئے بلکہ ایک ایسی شکست حکومتِ برطانیہ کو دی جس کی مثال گذشتہ سیاسی کشمکش میں نہیں ملتی۔ خدا آپ کو صحت و عافیت کے ساتھ مسلمانانِ ہند کی قیادت کے لیے دیر تک سلامت رکھے۔
آپ کا مخلص
محمد بہادر خاں

مسٹر محمد علی جناح باراٹ لا
لٹل گیس روڈ ، ملابار ہل ، بمبئی
مائی ڈیر مسٹر جناح
امید کہ آپ دہلی سے کامیابی کے ساتھ گھر لوٹے ہوں گے۔ ہندوستان کے طول و عرض میں مسلم لیگ کی کامیابی پر دلی مبارکباد قبول کیجئے۔ میری حالت ایک ایسے باز کی ہے جس کو بلبل کی طرح پنجرے میں بند کر دیا گیا ہو اور جس پر فضائے بسیط ممنوع کر دی گئی ہو۔ حیدرآباد کی تنگ زمین میرے طائر جذبات کے لیے فی الحقیقت ایک قفس سے کم نہیں ہے۔ جی میں آتی ہے کہ تیلیاں توڑ کر باہر نکل پڑوں لیکن حیدرآباد کے اتنے حقوق مجھ پر ہیں کہ وہاں کے مسلمانوں کو اس عالمِ کشمکش میں چھوڑ دینا احسان فراموشی سے کم نہ ہوگا۔ اس لیے مجبور ہوں اور کوشش کر رہا ہوں کہ وہی کام جو آپ کی قیادت میں براعظم ہند میں ہو رہا ہے میری ناچیز مساعی سے سرزمین دکن میں ہو۔ میری تمام دعائیں اور بہترین توقعات آپ کے ساتھ ہیں۔ خدا آپ کو اچھا رکھے اور مسلمانوں کو آپ کے پہچاننے کی توفیق عطا کرے۔
یہ خط میسور کے چار مسلم نوجوانوں کے ہاتھوں بھیج رہا ہوں جن کو ریاست میسور دنیا کی سیاحت کے لیے روانہ کر رہی ہے تاکہ وہاں کی صنعتی ترقیوں کا مطالعہ کریں اور میسور کی صنعتوں کو متعارف کریں۔ ان کو بڑی تمنا تھی کہ آپ سے نیاز کا شرف حاصل کریں۔ مجھے امید ہے کہ آپ ان سے مل کر خوش ہوں گے اور ان کی ہمت افزائی فرمائیں گے۔
آئنگار کمیٹی میں، جو حیدرآباد کی دستوری اصلاح کے لیے ہی بٹھائی گئی ہے مجلس اتحاد المسلمین کا بیان داخل ہو چکا ہے جس کو آپ کی ہدایت کے عین مطابق مرتب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہاں کی ہندو اسٹینڈنگ کمیٹی نے صدر اعظم سے ملازمتوں میں ہندوؤں کے حصے سے متعلق جو درخواست کی ہے وہ آپ کی نظر سے گزری ہوگی۔ ہماری حکومت کی موجودہ کمزور پالیسی نے ہندوؤں کے مطالبات کو زیادہ شدید کر دیا ہے اور آپ جانتے ہیں کہ وہ مطالبہ کرنے میں حقِ صداقت سے ہٹ جانے بلکہ نظرانداز کر دینے کو جائز سمجھتے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ حیدرآباد کے مستقبل کو کس طرح مسلمانوں کے لیے قابل اطمینان بنایا جا سکتا ہے۔
ایک فارسی شعر مع ترجمہ نیچے لکھ رہا ہوں۔
ہوا مخالف و شب تار وبحر طوفاں خیز
گستہ لنگر کشتی و ناخدا خفت است
(خدا حافظ)
4۔فبروری 1337ف
(مطابق 7 ۔ جنوری 1938ء)

2 تبصرے:

  1. زمین کھا گئی آسمان یسے کیسے۔

    خدا مغفرت کرے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔

    وہ کچھ اور لوگ تھے جنہیں اپنوں کا درد تھا۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. گمنام7/7/11 5:30 AM

    بہت محترم حیدر آبادی بھائی
    نواب صاحب مرحوم کے بارےمیں ویب سائٹ کی اطلاع دینے کا بے حد شکریہ۔ میرا تعلق قیام پاکستان کے بعد پیدا ہونے والی دوسری نسل سے ہے۔ میں نے کتابوں، رسالوں اور اخباروں میں برصغیر کے مسلمانوں کی تحریکِ آزادی کے عظیم قائدین کے بارے میں تھوڑا بہت پڑھا ہے اور ان سے بڑی عقیدت رکھتا ہوں (اگرچہ خود ایک بے عمل اور فضول سا بندہ ہوں)۔ ان قائدین میں نواب صاحب مرحوم کا نامِ نامی ، اسمِ گرامی سنہری حروف میں درج ہے۔ مجھے یقینِ کامل ہے کہ ملتِ اسلامیہ ہندیہ کی جو بے لوث خدمت حضرت نواب صاحب نے فرمائی، اس کے بدلے میں اللہ کریم انھیں آخرت میں سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدمینِ شریفین میں نہایت اعلیٰ مقام عطا فرمائیں گے۔ ایسا مقام ان جیسے عاشقانِ پاک طینت کو نہ ملا تو دورِ حاضر کے اور کس شخص کو ملے گا؟
    حضور نواب صاحب کے مفصل سوانح اور ان سے متعلقہ معلومات کی مجھے بڑے عرصے سے تلاش تھی۔ پاکستان میں ان پر بہت کم کام ہوا ہے۔ زیادہ تر ان کے یوم وفات پر مضامین ہی شائع ہوئے ہیں۔ اگر کوئی ٹھوس کام ہوا ہے تو مجھے اس کا علم نہیں۔ سنا ہے کہ کراچی میں انکے نام پر ایک اکیڈمی بھی قائم ہے۔ ایسے مشاہیر کے نام پر ہمارے ملکوں میں بننے والی اکیڈمیاں اکثرو بیشتر کچھ لوگوں کی روزی روٹی کا بندوبست کرنے سے زیادہ اور کچھ نہیں کر پاتیں۔ نواب صاحب کے بارے میں کسی ٹھوس کام کی اطلاع ملنے پر مجھے بہت خوشی ہو گی۔ اپنے دو نہایت محترم حیدر آبادی دوستوں سے بھی کچھ مواد چاہا تو وہ کوئی خاص مدد نہ کر پائے۔
    نذیر الدین احمد صاحب نے یہ ویب سائٹ بنا کر ایک بہت بڑی ملّی خدمت سرانجام دی ہے اور ایک دیرینہ ضرورت کو پورا کیا ہے۔ اللہ کریم انھیں اس نیکی پر اجرِ عظیم عطا فرمائیں اور اس ویب سائٹ کو دوام، مقبولیت اور ترقی بخشیں۔ اگر ہوسکے تو انھیں میری طرف سے بہت بہت مبارکباد اور شکریہ پہنچا دیجیے۔
    ایک بار پھر آپ کا بہت بہت شکریہ
    والسلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
    نواب صاحب کا ایک ادنیٰ عقیدت مند
    غلام مرتضیٰ علی

    جواب دیںحذف کریں