ایسا کہاں سے لاؤں کہ ۔۔۔۔۔ - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2009/08/25

ایسا کہاں سے لاؤں کہ ۔۔۔۔۔

رمضان کریم کی نیک ساعتیں آپ تمام کو مبارک ہوں۔
ویسے تو سعودی عرب کا ہر علاقہ اس ماہِ مبارک میں پُر رونق ہو جاتا ہے مگر ہمارے علاقے "حارہ" کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ اکثر لوگوں کو "حارہ" نام کی وجہ تسمیہ کچھ سمجھ میں نہیں آتی۔ ہمارا اندازہ تو یہی ہے کہ کوئی بھلا حیدرآبادی ہوگا جس نے "حی الوزارات" جیسے لمبے نام کو مختصر کرنے ، جیسا کہ حیدرآبادی روایت میں شامل ہے ، "حارہ" کا nick کبھی ماضی میں دے دیا ہوگا۔
بالکل ویسے ہی جیسا کہ ہمارے حیدرآباد میں کسی کا نام "عبدالرب چاند پاشا قادری" ہو تو مختصراً ۔۔۔ ارے وہ اپنا "چندو" یار ۔۔۔ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔

عموماً اس ماہِ مبارک میں ہمارے اہل خانہ چھٹی پر حیدرآباد جاتے ہیں تو ہمیں کھانے کے لئے ہوٹل گردی کرنا پڑتی ہے۔ ویسے تو شارعِ غیبت پر کئی ایک حیدرآبادی ہوٹلیں نظر آ جاتی ہیں۔ ۔۔۔۔ اب آپ شائد "شارعِ غیبت" کی اصطلاح پر بھی بھویں اچکائیں ۔۔۔ تو بھائی پاشا ! حارہ کی یہ وہ معروف شارع ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ ، حیدرآباد میں بم پھوٹے تو وہاں والوں کو تو بعد میں معلوم ہوتا ہے ، سب سے پہلے نیوز "شارعِ غیبت" پر ریلیز ہوتی ہے۔

بہرحال ہم سحر اور افطار کے لئے ہوٹل کے انتخاب کی بات کر رہے تھے۔ بہت پہلے "دکن دربار" اور "انٹرنیشنل ہوٹل" کا نام نامی تھا۔ افسوس کہ دونوں ماضی کی باتیں ہو گئیں۔ ویسے دکن دربار اب شائد "پیراڈائز" کے نام سے جاری ہے مگر وہ بات کہاں جو مولوی مدن کی سی۔ "کھانا خزانہ" ، "نیاگرا" ، "عالی شان" اور "لذت" ، اس میں شک نہیں کہ اپنے اپنے گاہکوں کے لذتِ کام ودہن کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اسی طرح "الفا" ، "لِمرا" ، "عابڈز" اور "صفا" بھی حیدرآبادی ڈشز کے نت نئے ناموں کے ساتھ 'پرانی شراب نئے نام' کے گُر آزما رہے ہیں۔
بات صرف پکوان کی ہوتی تو کہیں بھی پیٹ پوجا کر لی جاتی مگر پاشا ! ہم جیسے حیدرآبادی روایت نواز نزاکت پسندوں کے نزدیک "سروس" بھی اہمیت رکھتی ہے۔
ہمارے ایک قریبی دوست حافظ صاحب ہیں۔ پچھلے چار سال سے جب بھی افطار کے بعد ملاقات کے لئے پوچھا تو فرمایا : اجی پاشا ، وہی اپنی ممتاز کے پاس ہوں !
ہم ہر بار یہی کہتے رہے کہ حافظ صاحب ، ممتاز کو تو اپنے کاکا (راجیش کھنہ) نے بہلا پھسلا کر چھوڑ دیا ، اب تم کیوں اس کے بڑھاپے میں اس کے پاس ہو؟ تو ایک زوردار ٹھاکے کے ساتھ جواب ملتا : ارے وہ والی نہیں پاشا ، اپنی والی ممتاز !

ایک ہوٹل تھی "رحمانیہ" ۔۔۔ اتنی بار منیجمنٹ تبدیل ہوا کہ گنتی یاد نہیں۔ لیکن اب کوئی چار سال سے "ممتاز ریسٹورنٹ" کے نام پر "پنچ ستارہ" بنی ہوئی ہے۔ پنچ ستارہ اس حساب سے کہنا پڑا کہ اس کا منیجمنٹ پانچ بھائیوں کے ہاتھ ہے۔ اور قابل تعریف بات یہ ہے کہ پچھلے چار سال سے برادرانِ ممتاز نے ہوٹل کو یوں ممتاز بنا رکھا ہے کہ اب لوگ بقول حافظ صاحب "اپنی ممتاز" کا لقب دیتے ہیں !
حافظ صاحب کا دعویٰ تو یہی ہے کہ سارے حارہ میں ممتاز سے بہتر پکوان کہیں نہیں ملتا مگر آپس کی بات ہے کہ ہمیں یہ دعویٰ کچھ "کمیشن" والا معاملہ لگتا ہے، کیونکہ اب تک حافظ صاحب کئی دوستوں کے کارڈ ممتاز ہوٹل میں کھلوا چکے ہیں۔
بات پکوان کی نہیں ، بات ہے سروس کی جسے آپ حسنِ خدمت یا حسنِ سلوک کہہ لیں۔ دوسری ہوٹلوں کی بہ نسبت ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ گاہکوں کے ساتھ منیجمنٹ کا سلوک کیسا رہا ہے۔ ایک ایک فرد کا خیال کرنا ، انہیں اہمیت دینا اور پیشانی پر بل لائے بغیر فرمائشوں کو پورا کرنا ، بڑا محنت طلب کام ہونے کے ساتھ دلی خلوص کا بھی تقاضا کرتا ہے۔ دل میں خلوص ہی نہ رہے تو پھر گاہک دکاندار والا خشک مادی رشتہ بن کر رہ جائے۔
بیروں کے ہوتے ہوئے کس نے ایسا عمل دیکھا ہے کہ ہوٹل مالکین خود بڑھ بڑھ کر آپ سے آپ کی خواہش پوچھ رہے ہوں ، پلیٹ ٹشو سے صاف کر کے آپ کے سامنے رکھتے ہوں ، پانی کے گلاس اور جگ کا خیال رکھتے ہوں ، سالن ٹھنڈا نکلے یا پسند نہ آئے تو کوئی دوسرا سالن آپ کو پیش کرتے ہوں ۔۔۔۔۔ بہرحال خدمتِ خلق کا جذبہ ۔۔۔ اور وہ بھی پانچوں بھائیوں میں ایک ساتھ ۔۔۔ ایسا تو خال خال نظر آتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

برادرانِ ممتاز ، ہم ان والدین کی تربیت کو سلام کرتے ہیں جن کے آپ پانچوں سپوت ہیں اور آپ سب نے مسلم تہذیب و ثقافت کے نمائیندہ ہونے کا بلاشبہ حق ادا کر دیا ہے کہ آپ کو دیکھ کر یقیناً وہ مصرع ہر کسی کو یاد آئے :
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے !!

پس نوشت :
قبلہ حافظ صاحب ہماری یہ تحریر پڑھ کر فرماتے ہیں کہ ۔۔۔۔ کیوں پاشا ، ہم کو "کمیشن" کا طعنہ دیتے رہے ، اب تو لگتا ہے اِس تحریر کے سہارے رمضان بھر کے مفت افطار کا اپنی "ممتاز" پر بندوبست کرا لیا ہے ۔۔۔ lolz ۔۔۔۔
لوگوں کا کیا ہے ، کچھ نہ کچھ کہتے ہی رہتے ہیں، آپ حافظ صاحب کی باتوں پر نہ جائیے !

3 تبصرے:

  1. حافظ صاحب کا کمیشن اور تمہاری مفت افطاری مبارک
    دبئی میں ایک ہوٹل کا نام شاید تاج حیدرآباد ہے، رمضان میں حلیم کھانے گئے تھے مگر اُسے حیدرآبادی حلیم کہنا ٹھیک نہیں ہاں دبئی حلیم کہہ سکتے ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  2. ہاہاہا۔ ارے نہیں بھائی ، کہاں کی مفت افطاری؟ ہم تو افطار گھر پر ہی کر لینا مناسب سمجھتے ہیں۔
    حیدرآبادی حلیم صرف حیدرآباد میں ہی ممکن ہے ، یہاں بھی کئی ہوٹل والوں نے اچھے خاصے محض نام کے دھوکے دے رکھے ہیں۔ اب عید سے کچھ دن پہلے جانا ہے تو ہم ان شاءاللہ حیدرآبادی حلیم سے حیدرآباد ہی میں "فیضیاب" ہوں گے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. مزیدار تحریر
    اور ایک اور لفظ کا میری ڈکشنری میں اضافہ
    "پس نوشت"۔
    :D
    کیا ہی اچھا ہو کہ آپ عنوان کے ساتھ ساتھ تحریر اور تبصروں کا خط بھی نستعلیق کر دیں

    جواب دیںحذف کریں