6-ڈسمبر-1992ء کے سیاہ دن ایودھیا میں بابری مسجد شہید کئے جانے کے ایک ہفتہ بعد اس شہادت کی تحقیقات کے لئے جو کمیشن جسٹس لبراہن کی سرکردگی میں قائم کیا گیا ، اسے "لبراہن کمیشن" کا نام دیا گیا تھا۔
تقریباً 17 سال کی طویل تحقیقات کے بعد 30-جون-2009ء کو (ریٹائیڑڈ) جسٹس لبراہن نے لبراہن کمیشن رپورٹ ، وزیر داخلہ پی۔چدمبرم کے ساتھ وزیر اعظم من موہن سنگھ کو پیش کر دی ہے۔
رپورٹ کی پیش کشی کے بعد جسٹس لبراہن نے کہا :
آج میں آزاد ہو گیا ہوں۔
17 سال کی طویل مدت اور 48 مرتبہ توسیع کی ضرورت پیش آنے کی بنیادی وجہ انہوں نے بعض افراد کے عدم تعاون اور گواہوں کے پیش ہونے میں پس و پیش کا نتیجہ قرار دیا۔
لبراہن کمیشن کی رپورٹ کو پارلیمنٹ کے حالیہ بجٹ سیشن کے دوران کاروائی رپورٹ کے ساتھ پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا اور اس کے بعد ہی اس رپورٹ پر مباحث ممکن ہوں گے۔
ابھی اس مشہور و معروف کمیشن کی رپورٹ کا اصل مواد منظر عام پر نہیں آیا ہے حالانکہ آئی-بی-این ٹی-وی چینل نے دعویٰ کیا ہے کہ اس رپورٹ کے اقتباسات اسے حاصل ہو گئے ہیں۔
رپورٹ سے متعلق کچھ جھلکیاں :
** ایل کے ایڈوانی کی رتھ یاترا پر تنقید تو کی گئی لیکن کلیدی قصوروار کی حیثیت سے رپورٹ میں ان کا نام نہیں لیا گیا۔
** سابق وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ پر مسجد کے انہدام کو روکنے کے لئے مناسب اقدامات نہ کرنے پر رپورٹ میں ان پر تنقید کی گئی۔
** مرلی منوہر جوشی ، اوما بھارتی اور ونئے کٹیار کو رپورٹ میں اس سانحے کا قصور وار قرار دیا گیا۔
** بی-جے-پی کیمپ میں ہلچل مچ گئی ہے۔ اوما بھارتی نے انہدام کی ذمہ داری قبول کرنے کے ساتھ ساتھ پھانسی کی سزا قبول کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے۔
** یو-پی-اے نے اس مسئلہ پر بی-جے-پی کو پارلیمنٹ میں الگ تھلگ کر دینے کی کوشش کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
** سینئر کانگریسی لیڈر ڈگ وجئے سنگھ نے شہادت کے موقع پر برپا کئے جانے والے بی-جے-پی قائیدین کا نعرہ "ایک دھکہ اور دو" اور اس جیسے دیگر نعروں کی یاد دلاتے ہوئے بی-جے-پی قائیدین پر نکتہ چینی کا آغاز کر دیا ہے۔
** کُل ہند بابری مسجد ایکشن کمیٹی نے رپورٹ کا خیرمقدم کیا ہے۔ چئرمین جاوید حبیب نے بیان دیا کہ مسلمانوں کو اس رپورٹ کا عرصہ دراز سے انتظار رہا ہے۔ شہادت کے مجرموں کے خلاف مقدمہ چلانے فاسٹ ٹریک عدالتیں قائم کرنے کا انہوں نے پُرزور مطالبہ بھی کیا ہے۔
** بی-جے-پی نے کانگریس پر سازش کا الزام لگاتے ہوئے کانگریس کو چیلنج دیا کہ وہ متنازعہ مقام پر مسجد تعمیر کرنے کے اپنے وعدہ کو پورا کرے۔
** کانگریس کے ترجمان منیش تیواری نے کہا کہ حکومت رپورٹ کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعد اس پر مناسب قدم اٹھائے گی۔ ایک اور ترجمان شکیل احمد نے کہا کہ جب حکومت اگلا قدم اٹھائے تب ملک کو مسجد کی شہادت کے واقعے کے پس پردہ سچائی کو جاننے کا موقع ملے گا۔
Author Details
Hyderabadi
تو اس سے کیا ہو جائے گا؟
جواب دیںحذف کریںحیدرآبادی صاحب، میرے خیال میں تو یہ سیاست کی ایک اور چال ہے اور بس۔
مسجد تو اب دوبارہ بننے سے رہی چلیں شاید اس رپورٹ سے مسجد کے انہدام کے ذمہ داروں کا تعین ہو جائے گا۔ اگر سترہ سال میں کوئی کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکا تو اب کیا بگاڑ لے گا۔ بنگش صاحب کی بات سے ہم اتفاق کرتے ہیں کہ یہ سیاسی شوشے کے سوا کچھ نہیں۔
جواب دیںحذف کریںHyderabadi Sahib, thank you for your visit to and comment on Khahish-E Sang. I will definitely consider your suggestion of an Urdu Unicode blog.
جواب دیںحذف کریں