آوارہ مجاز { مجاز لکھنؤی ‫} - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2009/05/26

آوارہ مجاز { مجاز لکھنؤی ‫}

مراٹھی کے ایک قلمکار پروفیسر مادھو ماہولکر اپنی کتاب "گیت یاتری" میں لکھتے ہیں :

جب میں نے پہلی بار یہ مصرعہ سنا :
اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں
تو گلوکار طلعت محمود کی آواز سیدھے دل کے تار چھیڑ گئی اور مجاز کے الفاظ ہمیشہ کے لئے دل پر رقم ہو گئے۔
اُس وقت 1953ء میں ، مَیں کالج میں تھا جب شمی کپور اور شیاما کی فلم "ٹھوکر" ریلیز ہوئی جس کی موسیقی سردار ملک نے ترتیب دی تھی۔
پھر میں نے شمی کپور کو دیکھا جو گلیوں میں درد بھرا لہجہ گنگناتا جا رہا تھا :
اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں ؟؟

مجاز کی شاعری کا سوز وگداز اور میرا جواں دل ۔۔۔۔ میں تڑپ اٹھا۔
میرے ایک دوست نے بعد میں جب مجھے مجاز کا مجموعہ کلام دیا تب مجھے پتا چلا کہ یہ دراصل مجاز کی ایک طویل نظم "آوارہ" ہے جو اس نے ممبئی کے ماحول کو اپنے درد میں سمو کر پیش کیا تھا۔
پھر جب میں نے پہلی بار ممبئی دیکھا اور ریگل سینما کے بالمقابل مجسٹک ہوٹل میں قیام کے دوران ، راتوں میں سڑکوں کی آوارہ گردی کی تب نریمان پوائینٹ سے میرین ڈرائیو تا چوپاٹی کے ایک ایک قدم نے مجھے احساس کرایا کہ مجاز نے کس صورتحال میں وہ شہرۂ آفاق نظم لکھی ہوگی ؟ اپنی جدوجہد کے دَور میں مجاز نے سڑکوں پر جو بےمعنی آوارہ گردی کی تھی ، یہ نظم اس کی بہترین عکاس ہے۔

*****
آوارہ

شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارہ پھروں
جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
غیر کی بستی ہے کب تلک دربدر مارا پھروں
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں

جھلملاتے قمقموں کی راہ میں زنجیر سی
رات کے ہاتھوں میں دن کی موہنی تصویر سی
میرے سینے پر مگر چلتی ہوئی شمشیر سی
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں

یہ رُو پھیلی چھاؤں یہ آکاش پر تاروں کا جال
جیسے صُوفی کا تصوّر جیسے عاشق کا خیال
آہ لیکن کون جانے کون سمجھے جی کا حال
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں

پھر وہ ٹوٹا اک ستارا پھر وہ چھوٹی پھلجھڑی
جانے کس کی گود میں آئے یہ موتی کی لڑی
ہوک سی سینے میں اٹھی چوٹ سی دل پر پڑی
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں

رات ہنس ہنس کر یہ کہتی ہے کہ مے خانے میں چل
پھر کسی شہنازِ لالہ رُخ کے کاشانے میں چل
یہ نہیں ممکِن تو پھر اے دوست ویرانے میں چل
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں

ہر طرف بکھری ہوئی ، رنگینیاں ، رعنائیاں
ہر قدم پر عشرتیں لیتی ہوئی انگڑایئاں
بڑھ رہی ہیں گود پھیلائے ہوئے رسوایئاں
اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں

راستے میں رُک کے دَم لے لوں میری عادت نہیں
لوٹ کر واپس چلا جاؤں ، میری فطرت نہیں
اور کوئی ہم نوا مل جائے یہ قسمت نہیں
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں

منتظر ہے ایک طوفانِ بلا میرے لئے
اب بھی جانے کتنے دروازے ہیں وا میرے لئے
پر مصیبت ہے، مرا عہدِ وفا میرے لئے
اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں

جی میں آتا ہے کہ اب عہدِ وفا بھی توڑ دوں
اُن کو پا سکتا ہوں یہ آسرا بھی چھوڑ دوں
ہاں مناسب ہے یہ زنجیرِ ہوا بھی توڑ دوں
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں

اک محل کی آڑ سے نکلا وہ پیلا ماہتاب
جیسے مُلا کا عمامہ جیسے بنئے کی کتاب
جیسے مُفلس کی جوانی جیسے بیوہ کا شباب
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں

دل میں اک شعلہ بھڑک اٹھا ہے آخر کیا کروں
میرا پیمانہ چھلک اٹھا ہے آخر کیا کروں
زخم سینے کا مہک اٹھا ہے آخر کیا کروں
اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں

مُفلسی اور یہ مظاہر ہیں نظر کے سامنے
سینکڑوں چنگیز و نادر ہیں نظر کے سامنے
سینکڑوں سُلطان و جابر ہیں نظر کے سامنے
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں

لے کے ہر چنگیز کے ہاتھوں سے خنجر توڑ دوں
تاج پر اس کے دمکتا ہے جو پتھر توڑ دوں
کوئی توڑے یا نہ توڑے، میں ہی بڑھ کر توڑ دوں
اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں

بڑھ کے اس اِندر سبھا کا سازوساماں پھونک دوں
اِس کا گلشن پھونک دوں اُس کا شبستاں پھونک دوں
تختِ سُلطاں کیا میں ساراقصرِ سُلطاں پھونک دوں
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں

جی میں آتا ہے، یہ مردہ چاند تارے نوچ لوں
اس کنارے نوچ لوں اور اُس کنارے نوچ لوں
ایک دو کا ذکر کیا ، سارے کے سارے نوچ لوں
اے غمِ دل کیا کروں، اے وحشتِ دل کیا کروں

4 تبصرے:

  1. السلام علیکم حیدر آبادی صاحب،

    آپ سے رابطہ کرنا چاہ رہی تھی، اور آپ کا ای میل ایڈریس چاہیے تھا۔ پلیز منظر نامہ کے ای میل ایڈریس پر اپنا رابطہ ای میل ایڈریس بھیج دیں گے?
    منظر نامہ کا ای میل ایڈریس آپ کو اس لنک پر مل جائے گا۔
    http://www.manzarnamah.com/contact/

    شکریہ۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. اردو کی لازوال اور شاہکار نظم ہے یہ، واہ واہ کیا بات ہے۔
    اور آج بہت دنوں کے بعد آپ کے بلاگ تک پہنچ ہی گیا۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. شکریہ وارث صاحب۔
    میرا خیال ہے کہ بلاگ پر کسی اسکرپٹ کی گڑبڑ تھی۔ میں نے کچھ چیزیں نکالی تو ہیں پھر بھی کبھی دوبارہ ایرر آئے تو براہ مہربانی ایمیل کیجئے گا۔ ایمیل پتا میں نے اب صفحۂ اول پر درج کر دیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. گمنام15/6/09 2:44 PM

    آخری حصہ خاصا باغیانہ ہے، میرا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔

    جواب دیںحذف کریں