بی۔بی۔سی اردو نے یہاں خبر لگائی تھی کہ ہندوستانی ریاست آندھرا پردیش کے ایک ضلع میں چھ مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا جن میں تین نوعمر بچے بھی شامل تھے۔ (معصوم بچوں کی تصویر نیچے ملاحظہ فرمائیں)۔
اس وقت ہم اپنی ریاست میں ہی موجود تھے۔ ہمارے علم کے مطابق صرف اردو اخبارات (بالخصوص اعتماد ، سیاست ، منصف ، رہنمائے دکن اور اردو راشٹریہ سہارا) نے ہی اس اندوہناک واقعے کی مکمل عکاسی کی تھی اور تمام متعلقہ سرکاری اور انسانی حقوق کے اداروں کو اس جانب متوجہ کیا۔ مگر افسوس کہ خونِ مسلم کی ارزانی ہو چکی ہے۔ اس المناک واقعے کو متعصب ہندوستانی میڈیا نے اپنے دامن میں جگہ نہیں دی۔
عالمی سطح پر یہ ضرور بتایا جاتا ہے کہ سارہ پالن کیا کر رہی ہیں یا امیتابھ بچن کے مزاج شریف کا کیا حال ہے؟ یا پھر عیسائی قوم پر حملے ہوں تو عالمی سطح پر ہندوستان کی مذمت کی جاتی ہے اور وزیر اعظم من موہن سنگھ کو کہنا پڑتا ہے کہ : اُن کا سر شرم سے جھک گیا !
لیکن یہی من موہن سنگھ اس واقعہ پر دو لفظ ہمدردی کے اپنی زبان سے نہیں نکالتے۔
ایک شقی القلب کو بھی رلا دینے والے اس واقعے کی رپورٹنگ متعصب انگریزی میڈیا نے ویسی بالکل بھی نہیں کی جیسے ۔۔۔۔
چند دن پہلے کسی کا دو سالہ لڑکا بورویل میں گر گیا تو ٹی وی چینلز اور اخبارات نے اس واقعہ کی ایک ایک لمحہ کی رپورٹنگ کو انسانیت کا فرضِ اولین جانا۔ ٹی وی کا کوئی چینل ایسا نہیں تھا جہاں لمحہ بہ لمحہ اس معصوم کو بچائے جانے کی کوششوں کی آیڈیو ویڈیو خبریں جاری نہ کر رہا ہو ۔۔۔۔۔
مگر آہ ۔۔۔۔
6 انسانی جانوں کا زیاں ہو گیا اور وہ بھی ظالموں نے انہیں انسانیت کی آنکھوں کے سامنے موت کے منہ میں دھکیلا ۔۔۔۔ وہ کسی کو نظر نہیں آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
Author Details
Hyderabadi
وہاں ہندو یہ کام کر رہے ہیں آپ شکوہ کر سکتے ہیں۔ جہاں مسلمان ہی یہ سب کر رہے ہیں وہ کس کے پاس فریاد لے کر جائیں؟ کس کے حق میں بد دعا کریں؟ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک جگہ کے مسلمان باقی مسلمانوں کی بھی ڈھال بنتے پر ذلت ہے کہ چھاتی جا رہی ہے اور ہم ہیں کہ جہالت کی چادر تان کر سوئے پڑے ہیں
جواب دیںحذف کریںGovt of India should take action of this accident.
جواب دیںحذف کریں