خانوادہ نوح ناروی کے اس سپوت کی اُٹھان بڑی خوش آئیند تھی !
عین اسی زمانے میں ، جبکہ "طغرل فرغان" کے طنزیہ و مزاحیہ شہ پارے بھی قبولیتِ عام کی سند پا رہے تھے کہ اچانک یہ دونوں نام (اسرار ناروی اور طغرل فرغان) دنیائے ادب سے ناپید ہو گئے۔
یہ ہندوستان پر سے برطانوی اقتدار ختم ہونے سے کچھ دنوں پہلے کی بات ہے۔ مندرجہ بالا دونوں نام ختم ہو جانے کے بعد ایک تیسرا نام ابھر کر سامنے آیا :
ابن صفی (بی۔اے)
جو جاسوسی کہانیوں کے سلسلے میں بڑا مشہور ہو رہا ہے۔ یہ تینوں نام : اسرار ناروی ، طغرل فرغان اور ابن صفی ۔۔۔ دراصل ایک ہی شخص "اسرار احمد" کے قلمی بہروپ تھے۔
پہلے دو ناموں کو اسی شخص کا تیسرا قدآور نام "ابن صفی" نگل گیا۔ صرف "ابن صفی" ہی کہنا کافی نہیں ، "بی۔اے" کا دُم چھلا بھی ساتھ لگا ہوا ہے جو ایک طرح کا تخلص ہو کر رہ گیا ہے۔ جس طرح ابن صفی کے ساتھ بی۔اے چپک کر رہ گیا ہے اسی طرح جاسوسی ادب کے ساتھ ابن صفی کا نام ایسا لازم و ملزوم ہو گیا ہے کہ یہ نام لئے بغیر اردو میں جاسوسی ادب کا کوئی تذکرہ مکمل ہی نہیں ہو سکتا۔
ابن صفی کا پُراسرار نام اختیار کرنے میں اسرار احمد صاحب کی انفرادیت پسند افتاد طبع کو بھی خاصا دخل رہا ہے۔ وہ تنوع کے شائق ہیں اس لئے جدت طرازیاں فرماتے رہتے ہیں۔
شعر و ادب کے دبستان سے ازخود جِلا وطنی اختیار کرنے کا بھی کچھ یہی سبب رہا ہے۔ اپنے لئے علیحدہ راہ نکالنے کے شوق نے سرّی ادب کے خارزار میں آبلہ پائی کرائی۔ انہوں نے ایک ایسے زمانے میں سرّی ادب کے شعبہ میں قدم رکھا جب چند منشی قسم افراد کے غیرمعیاری تراجم و طبع زاد ناولوں کے گھٹیا پن کی وجہ سے اس صنف کو خارج از ادب سمجھا جاتا تھا۔
اس زمانے میں جاسوسی ناولوں کے نام بمع عرفیت ہوا کرتے تھے مثلاً : فومانچو کی بیٹی عرف سنہری جوتا۔
اسی بنا پر اسرار احمد صاحب نے "ابن صفی۔ بی اے" کا قلمی نام اختیار کیا تاکہ نام کی معقولیت اور تعلیم کی سند سے قارئین کو ناول کے معیاری ہونے کا احساس ہو۔ اس کے ساتھ ہی ان کے ذہن میں یہ خیال بھی موجود تھا کہ اگر یہ تجربہ ناکام ہو جائے تو اس کی زد میں صرف "ابن صفی" آئے ، اسرار احمد ، طغرل فرغان اور اسرار ناروی محفوظ رہیں۔
لیکن ہوا یہ کہ تجربہ نہ صرف کامیاب رہا بلکہ "ابن صفی۔ بی اے" ایسا مقبول ہوا کہ بقیہ تمام ناموں پر غالب آ گیا۔
ابن صفی نے اپنے لئے ایک نئی راہ ڈھونڈی اور اس شعبہ (سرّی ادب) کے اجارہ دار منشیوں کی اجارہ داری ختم کر کے سری ادب کی اہمیت اور مقام کو تسلیم کروا لیا۔
(افتخار جمیل کے مضمون سے اقتباس)
واقعی آپ نے تو ابنِ صفی کی جاسوسی کرڈالی۔ فی الحال میرے سامنے ان کی "خطرناک مجرم" ہے۔
جواب دیںحذف کریںمیں نے کہیں بھی ان کے نام کے ساتھ بی-اے نہیں پایا، کیا وہ اپنے جاسوسی مصنف ہونے کے ابتدائی دور میں ایسا لکھا کرتے تھے؟
ابن صفی نے سن انیس سو پچھتّر کے بعد سے شائع ہونے والی ناولوں میں اپنے نام سے بی۔اے کا لاحقہ ہٹا دیا تھا۔۔۔ یہ وہ سال تھا جب ان کی بڑی صاحبزادی نے کراچی یونیورسٹی سے بی اے میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن لی تھی۔۔۔
جواب دیںحذف کریںاحمد صفی بھائی ، بلاگ پر تشریف آوری کا بےحد شکریہ۔
جواب دیںحذف کریںآپ کی فراہم کردہ اطلاع میرے لئے بھی نئی ہے۔