شکیل بدایونی - خدا کی قسم لاجواب تھے - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2008/04/24

شکیل بدایونی - خدا کی قسم لاجواب تھے

‫20۔ اپریل 1967ء
کو ہندوستانی فلم انڈسٹری کے نغمہ نگار شہنشاہ کی وفات کے ساتھ ہی سدا بہار نغموں کا وہ ناقابلِ فراموش سلسلہ بھی ختم ہوا جس کی ابتداء فلم "درد" کے ان نغموں سے ہوئی تھی ‫:
بےتاب ہے دل دردِ محبت کے اثر سے :: جس دن سے میرا چاند چھپا میری نظر سے
افسانہ لکھ رہی ہوں دلِ بیقرار کا :: آنکھوں میں رنگ بھر کے ترے انتظار کا


‫3۔ اگست 1916ء کو عربی ، فارسی ، اردو اور ہندی کے استاد مولانا جمیل احمد قادری کے گھر پیدا ہونے والے اپنے دور کے مشہور شاعر اور کامیاب نغمہ نگار کا نام تھا ‫:
شکیل بدایونی ‫!!

‫1936ء میں جب شکیل نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو اسی دور کے مشاعروں میں اپنے کلام کو عوام کے سامنے پیش کیا۔ وہ ترقی پسند شعراء کے عروج کا دور تھا جو شکیل کو مجاز، جذبی ، جاں نثار اختر اور مسعود اختر جمال جیسے شاعروں کا ساتھ ملا۔

‫1942ء میں جگر مرادآبادی نے ایک مشاعرے میں شکیل کی ملاقات موسیقار نوشاد سے کروائی اور یوں 1947ء میں شکیل کے نغموں سے سجی کاردار کی فلم "درد" منظرِ عام پر آئی تو فلم کے نغموں نے دھوم مچا دی۔
پھر شکیل بدایونی اور نوشاد کی جوڑی نے فلمی موسیقی میں گویا ایک طوفان برپا کر دیا ‫:
گائے جا گیت ملن کے ۔۔۔ (میلہ‫)
سہانی رات ڈھل چکی ۔۔۔ (دلاری‫)
ہوئے ہم جن کے لئے برباد ۔۔۔ (دیدار‫)
او دور کے مسافر ۔۔۔ (اڑن کھٹولہ‫)
او دنیا کے رکھوالے ۔۔۔ (بیجو باورا‫)


نوشاد اور شکیل کی اس رفاقت کا ایک دلچسپ واقعہ بڑا مشہور ہے ۔۔۔۔۔
شام ڈھلتے ہی نوشاد نے اپنے بنگلے کے ایک کمرے میں شکیل کو قید کر لیا تھا۔ نوشاد ہارمونیم پر نغمے کی دھن دہراتے اور شکیل اس دھن پر مختلف مکھڑے تحریر کرتے۔ سینکڑوں اشعار لکھے گئے ، لاتعداد مکھڑے ضبطِ تحریر میں لائے گئے لیکن دونوں ہی مطمئن نہ ہو سکے۔ کمرے کے ایک کونے میں کاغذ کے ٹکڑوں کا ڈھیر لگ چکا تھا ، پان کی ڈبیا خالی ہو چکی تھی ۔۔۔ بالآخر شکیل نے پورا نغمہ صفحہ قرطاس پر بکھیر دیا اور جب نوشاد نے کمرے کا دروازہ کھولا تو دوسرے دن کی صبح ہو چکی تھی اور اسی صبح نے "مغل اعظم" کے اس عظیم اور یادگار گیت کا انکشاف کیا ‫:
جب پیار کیا تو ڈرنا کیا :: چھپ چھپ آہیں بھرنا کیا

پچاس سے ساٹھ کی دہائی تک دیگر نغمہ نگاروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ گیت شکیل نے لکھے تھے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی سب سے زیادہ فلمی گیت لکھنے والے نغمہ نگار شکیل بدایونی ہی رہے تھے۔
سب سے پہلا فلم فئر ایوارڈ شکیل کو "چودھویں کا چاند" کے ٹائیٹل گیت پر 1961ء میں ملا تھا ، پھر 1962ء میں فلم "گھرانہ" کے نغمے "حسن والے تیرا جواب نہیں" پر اور 1963ء میں بطور ہیٹ ٹرک فلم "بیس سال بعد" کے نغمے "کہیں دیپ جلے کہیں دل" پر تیسرا فلم فئر ایوارڈ حاصل کیا تھا۔

فلمی گیتوں کے علاوہ بھی شکیل بدایونی کا کلام ادب دوستوں اور ادب نوازوں میں کافی مقبول ہوا ۔۔۔۔۔۔
بہرحال شکیل کی 41 ویں برسی پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ‫:
اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا

2 تبصرے:

  1. گمنام24/4/08 4:18 PM

    السلام علیکم
    معذرت خواہ ہوں کے موضوع سے ہٹ کر اپنی ہانک رہا ہوں ۔ آپ اُردو کے مُحِب ہیں اس لئے آپ کے پاس درخواست لے کر آیا ہوں ۔ مندرجہ ذیل دونوں جگہوں پر ایک ہی مضمون ہے ۔ موضوع ہے تعلیم ۔ انگریزی اور ترقی لیکن بات اُردو کی ہو رہی ہے ۔

    از راہ کرم اپنا قیمتی وقت لگا کر دونوں جگہوں پر اپنی قیمتی رائے کا اظہار فرمائیے ۔ ممنونِ احسان ہوں گا ۔

    الداعی الخیر

    جواب دیںحذف کریں
  2. گمنام24/4/08 4:26 PM

    معافی چاہتا ہوں میں یو آر ایل لکھنا بھول گیا تھا

    http://iftikharajmal.urdutech.com/?p=1208

    http://www.alqamar.info/blog/2008/04/24/%d8%aa%d8%b9%d9%84%db%8c%d9%85-%db%94-%d8%a7%d9%86%da%af%d8%b1%db%8c%d8%b2%db%8c-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%aa%d8%b1%d9%82%db%8c-%d9%be%d8%b1-%d9%86%d8%b8%d8%b1%d9%90-%d8%ab%d8%a7%d9%86%db%8c/

    جواب دیںحذف کریں