اَن داتا آپ سب کے ۔۔۔ یہ فقط میرا ‫!! - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2008/05/09

اَن داتا آپ سب کے ۔۔۔ یہ فقط میرا ‫!!

فرمان روائے دکن آصف جاہ سادس نواب میر محبوب علی خان کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ حیدرآباد کے ایک بزرگ دانشور صحافی علامہ اعجاز فرخ یوں بیان کرتے ہیں ‫:

مولوی محمد علی صاحب نے جو ایک قلندر مزاج بزرگ تھے ، میرے والد کے ہم عمر رہے ہوں گے ، انہوں نے اپنے والد کے حوالے سے یہ روایت مجھے سے بیان کی تھی۔

محبوب علی پاشاہ ، جو اکثر شب میں اپنی رعایا کا حال پوچھنے سادہ لباس میں شہر گشت کیا کرتے تھے ، پنچ محلہ کے قریب دیکھا کہ ایک بھڑبھونجہ ، کوئی چوبیس پچیس برس کا توانا تندرست ، چنے مرمرے بھون رہا ہے۔
بازو میں اس کی بیوی بھونے ہوئے چنے سے خستہ الگ کر رہی ہے۔ روشن آگ سے چہرہ گلنار جیسے شاخ سے ابھی ٹوٹا ہوا قندھار کا انار۔ رنگت کے سانولے پن میں وہ کیفیت جیسے تپے ہوئے سونے میں ذرا سے تانبے کی آمیزش ، وحشی ہرنی جیسی آنکھیں۔ سخت محنت سے بازو سڈول ، بدن کے قوس و خم ایسے کہ گوشت پوست نہیں پتھر میں ترشے ہوں، ستواں ناک میں کِیل ، آگ کی روشنی میں دمک دمک جائے، ماتھے پر محنت کے پسینے کی بوندیں جن سے حیدرآباد موتیوں کا شہر کہلائے۔
محبوب علی پاشاہ وہاں رکے۔ بھڑ بھونجہ آپ کو پہچان گیا۔ دونوں ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا اور وہ کمبخت کبھی یک ٹک اپنے شوہر کو دیکھے اور ایک ٹک بادشاہ کو، پر پہیلی نہ بوجھ پائے۔

اس نے معصومیت سے بادشاہ سے پوچھا : کیا چاہئے ؟
بادشاہ نے کہا : چنے ‫!
اور رومال بڑھا دیا۔
اس نے پوچھا : کتنے کے؟
انہوں نے کہا : ایک پیسے کے۔
اس نے دونوں ہاتھوں سے خستہ چنے رومال میں ڈال کر مٹھی بھر اور ڈال دئے تو شوہر نے ٹہوکا دے کر کہا ‫:
‫"کھڑی ہو جا ! کیا بک بک کر رہی ہے۔ یہ بادشاہ سلامت ہیں"۔
وہ گھبرا کر کھڑی ہو گئی، آنچل سر پر ڈال پرنام کر کے کہا ‫:
‫"سرکار ! ہم کو ماپھی دے دو، ہم نے بھگوان کے اوتار کو نہیں پہچانا"۔

محبوب علی پاشاہ کچھ دیر اسے دیکھتے رہے، پھر اس کے شوہر کی طرف اشارہ کر کے پوچھا :
‫"‬اچھا ، یہ بتلا کہ : یہ اچھا کہ میں اچھا؟‫"
وہ باؤلی نہ سوچی نہ سمجھی ، جھٹ سے کہہ بیٹھی ‫:
‫" اَن داتا آپ سب کے ، یہ فقط میرا "۔

نہ جانے محبوب علی پاشاہ پر کیا گزری ، اس کے آنچل میں مٹھیوں سے اشرفیاں ڈال کر لوٹے تو شاہانہ مسہری پر رات گزارنے والے بادشاہ نے بورئیے پر یوں بےآرام رات گزاری کہ چٹائی کے نشان پیٹھ پر اتر آئے ، اور رات یہی کہتے گزری ‫:

سب کا ہونا اور ہے ، صرف ایک کا ہونا اور ‫!!

--------
مضمون : خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
مضمون نگار = علامہ اعجاز فرخ
(اقتباس بحوالہ : روزنامہ سیاست ، حیدرآباد ، اتوار ایڈیشن ، 13۔ اپریل 08ء )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں