ہندوستان کا تقریباً ہر باشعور مسلمان جانتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے نریندر مودی اور شیوسینا کے بال ٹھاکرے کے نظریات میں کس قدر گہری مطابقت ہے؟ دونوں یکساں طور پر اقلیت دشمنی کے نظریات میں یقین رکھتے ہیں۔ اس بات کو اگر دیکھا جائے تو دونوں میں گہری دوستی ہونی چاہئے تھی۔ مگر نہیں ہے !
کہا جاتا ہے کہ نریندر مودی کے دل میں بڑی حسرت ہے کہ وہ ممبئی کے شیواجی پارک میں شہر کے عوام سے خطاب کریں مگر ابھی تک وہ وہاں نہیں جا سکے کیونکہ بال ٹھاکرے ممبئی شہر اور شیواجی پارک کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں !!
شواجی پارک کا سٹیلائیٹ منظر
بال ٹھاکرے آخر کیسے برداشت کر لیں کہ مودی جیسا لیڈر شیواجی پارک میں آ کر لیڈر ہونے کا دعویٰ کرے ؟
عام قاری کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ ہندوستان کا جو بھی بڑا لیڈر ۔۔۔ جواہرلال نہرو اور اندرا گاندھی سے لے کر شردپوار تک ۔۔۔ ممبئی آیا ہے ، اس نے شیواجی پارک میں آ کر اپنے فنِ خطابت کا مظاہرہ کرنا ضروری سمجھا ہے۔ اس مشہور و معروف پارک میں تقریر کرنے سے مقرر کو گویا "بڑا لیڈر" ہونے کی سند مل جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بال ٹھاکرے ، جو مہاراشٹرا کی ریاست اور ممبئی شہر کو اپنی ذاتی مملکت سمجھتے ہیں ، یہ برداشت نہیں کرتے کہ کوئی باہر کا سیاستداں ممبئی آ کر شیواجی پارک میں اپنی لیڈری کا سکہ چلائے۔
بال ٹھاکرے نے لاکھ کوشش کی کہ مہاراشٹرا اور خاص طور پر ممبئی کی سیاست پر ان کا غلبہ رہے ۔۔۔ مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو کا ایک مشہور محاورہ ہے کہ گھر کا بھیدی ہی لنکا کو ڈھانے کے لیے آتا ہے !
بال ٹھاکرے صاحب بھول گئے کہ شہرت حاصل کرنے کے لیے جو ہتھکنڈے انہوں نے ماضی میں اپنی جوانی کے دور میں آزمائے تھے ، ان کے اپنے ہی گھر سے کوئی دوسرا بھی اپنا سکتا ہے۔
ٹھاکرے سینئر نے چالیس سال قبل سیاست میں اپنی دھاک بٹھانے کے لیے جنوبی ہند سے آنے والوں کو نشانہ بنایا تھا اور اب اپنے ضعیف العمر چچا کی روایت پر عمل کرتے ہوئے ٹھاکرے جونئر (راج ٹھاکرے) نے اپنا نزلہ ان لوگوں پر گرانا شروع کیا ہے جو شمالی ہند سے روزگار کی تلاش میں ممبئی آئے ہیں۔
حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ ممبئی شہر کسی ایک لسانی برادری کا نہیں ہے بلکہ یہاں ہندوستان کے ہر حصے سے آنے والے لوگ رہتے ہیں۔ اور چونکہ یہ شہر فلمی صنعت کا مرکز ہے لہذا یہاں ملک کے مشہور فلمی ستارے بھی رہتے ہیں۔
ہندوستان میں اب بیشتر سیاسی پارٹیاں سیاسی نظریات کے بجائے ذاتی وفاداریوں کی بنیاد پر قائم ہونے لگی ہیں۔ اگر سیاست میں دوستیاں اور گٹھ جوڑ صرف صرف "نظریات" کی بنا پر ہونے لگیں تو ملک میں سیاسی پارٹیوں کی تعداد حیران کن حد تک گھٹ جائے گی۔ مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا۔
"جنتا دل " ۔۔۔ ذاتی وفاداریوں کی سب سے بڑی مثال ہے۔ اس پارٹی کے جتنے بھی ٹکڑے ہوئے ہیں اگر ان کا حساب لگایا جائے تو ٹیلیفون ڈائرکٹری جتنی ضخیم کتاب تیار ہو جائے۔ لہذا بال ٹھاکرے کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان کے بھتیجے نے جو راہ اختیار کی ہے اس کے نتیجہ میں شیوسینا کا بھی وہی حشر ہونے والا ہے جو "جنتا دل " کا ہو چکا ہے !!
معروف صحافی سوم آنند کے ایک تجزئے سے ردّ و بدل کے ساتھ استفادہ
(بحوالہ : روزنامہ سیاست ، حیدرآباد ، اتوار ایڈیشن ، 10۔ فبروری 08ء )
Author Details
Hyderabadi
بال ٹھاکرے آخر کیسے برداشت کر لیں کہ مودی جیسا لیڈر شیواجی پارک میں آ کر لیڈر ہونے کا دعویٰ کرے ؟
جواب دیںحذف کریںaap ne aage baja farmaaya keh thackeray apne ilaawah kisi aor ko kaise taqreer karne dena chaahega! lekin mody jaise leedar ko rokne ka uska koi khaas iraada naheen lagta, kisi aor ke saath bhi yahi hoga.
Shahre-bambai (musalmaanoN ke nazdeek Mumbai likhna farze-ain hai) darasl ghair mulki, shumaali hindi aor gujraati logoN ke kaarobar se parwaan chaRha hai.