ہندوستانی پرچم (Indian Flag) کو ہندی زبان میں "ترنگا" کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے " تین رنگوں والا"۔
22۔جولائی 1947ء کو "ترنگا" ، ہندوستانی قومی پرچم کے طور پر انڈین نیشنل کانگریس کی جانب سے منظور کیا گیا تھا۔ اس پرچم کے ڈیزائن کی بنیاد وہی رکھی گئی جو 1931ء میں انڈین نیشنل کانگریس نے پیش کی تھی۔
ہندوستانی پرچم تین مساوی افقی دھاریوں پر مشتمل ہے۔ پہلی دھاری کا رنگ زعفرانی ، درمیان والی سفید اور نیچے والی دھاری کا رنگ سبز ہے۔ سفید دھاری کے درمیان میں نیلے رنگ کا ایک گول نقش ہے جسے "اشوک چکر" کہا جاتا ہے۔ اشوک چکر ، 24 کانٹوں پر مشتمل وہ پہیہ ہے جسے "میزانِ قانون" کہا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ہندوستانی راجہ اشوک کی یادگار ہے۔
سن 1931ء میں جب ہندوستانی پرچم متحدہ ہندوستان میں متعارف کرایا گیا تھا تو اس کے دو رنگوں کی شناخت اس وقت کے ہندوستان کی دو بڑی قومیتوں کے طور پر کی جاتی رہی۔ زعفرانی رنگ ہندو قومیت کی نشانی کے طور پر تو سبز رنگ مسلمانوں کی شناخت کے طور پر اور بیچ والا سفید رنگ اس "امن اور سچائی" کی نشانی بتایا گیا جو انہی دو قومیتوں کے درمیان موجود رہا تھا۔
دورِ حاضر کے انڈیا میں ان رنگوں کا مطلب حکومتی سطح پر اب یوں بیان کیا جاتا ہے :
زعفرانی = شجاعت اور ایثار
سفید = پاکیزگی اور سچائی
سبز = وفاداری ، حکمت عملی اور اولالعزمی
قانون کے پہیے (Wheel of Law) کے چوبیس عدد کانٹے ، کہا جاتا ہے کہ دن کے چوبیس گھنٹوں کی شناخت کے ساتھ ساتھ لامحدود دائرۂ زندگی کی نشانی ہیں۔
ہندوستانی قانون کے مطابق ہندوستانی شہریوں کو ہندوستانی پرچم لہرانے کی اجازت صرف یومِ آزادی (15۔اگست) اور یومِ جمہوریہ(26۔جنوری) کے دن دی گئی تھی۔ لیکن 15۔جنوری 2002ء کو دہلی ہائی کورٹ نے ایک قانون پاس کیا کہ اب ہندوستانی شہری سال بھر میں کسی بھی دن قومی پرچم لہرا سکتے ہیں جو دراصل انہیں حاصل آزادیء اظہارِ رائے کے مترادف ہے۔
22۔جولائی 1947ء کو "ترنگا" ، ہندوستانی قومی پرچم کے طور پر انڈین نیشنل کانگریس کی جانب سے منظور کیا گیا تھا۔ اس پرچم کے ڈیزائن کی بنیاد وہی رکھی گئی جو 1931ء میں انڈین نیشنل کانگریس نے پیش کی تھی۔
ہندوستانی پرچم تین مساوی افقی دھاریوں پر مشتمل ہے۔ پہلی دھاری کا رنگ زعفرانی ، درمیان والی سفید اور نیچے والی دھاری کا رنگ سبز ہے۔ سفید دھاری کے درمیان میں نیلے رنگ کا ایک گول نقش ہے جسے "اشوک چکر" کہا جاتا ہے۔ اشوک چکر ، 24 کانٹوں پر مشتمل وہ پہیہ ہے جسے "میزانِ قانون" کہا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ہندوستانی راجہ اشوک کی یادگار ہے۔
سن 1931ء میں جب ہندوستانی پرچم متحدہ ہندوستان میں متعارف کرایا گیا تھا تو اس کے دو رنگوں کی شناخت اس وقت کے ہندوستان کی دو بڑی قومیتوں کے طور پر کی جاتی رہی۔ زعفرانی رنگ ہندو قومیت کی نشانی کے طور پر تو سبز رنگ مسلمانوں کی شناخت کے طور پر اور بیچ والا سفید رنگ اس "امن اور سچائی" کی نشانی بتایا گیا جو انہی دو قومیتوں کے درمیان موجود رہا تھا۔
دورِ حاضر کے انڈیا میں ان رنگوں کا مطلب حکومتی سطح پر اب یوں بیان کیا جاتا ہے :
زعفرانی = شجاعت اور ایثار
سفید = پاکیزگی اور سچائی
سبز = وفاداری ، حکمت عملی اور اولالعزمی
قانون کے پہیے (Wheel of Law) کے چوبیس عدد کانٹے ، کہا جاتا ہے کہ دن کے چوبیس گھنٹوں کی شناخت کے ساتھ ساتھ لامحدود دائرۂ زندگی کی نشانی ہیں۔
ہندوستانی قانون کے مطابق ہندوستانی شہریوں کو ہندوستانی پرچم لہرانے کی اجازت صرف یومِ آزادی (15۔اگست) اور یومِ جمہوریہ(26۔جنوری) کے دن دی گئی تھی۔ لیکن 15۔جنوری 2002ء کو دہلی ہائی کورٹ نے ایک قانون پاس کیا کہ اب ہندوستانی شہری سال بھر میں کسی بھی دن قومی پرچم لہرا سکتے ہیں جو دراصل انہیں حاصل آزادیء اظہارِ رائے کے مترادف ہے۔
Ghaliban, parcham-e-sah-rang par pahli Nazm, shaaer-e-shahar-e-nigaaraaN Majaaz ne kahi thi.
جواب دیںحذف کریںYaum-e-Jamhooriya par aapki post ke liye Mubarakbaad. Bohat khuub.
tiranga urdu meiN bhi khoob istemaal hota hai, to aap is lafz ho hindi makhsoos kyun karrahe haiN? tiranga ho ya tipaaee yeh alfaaz urdu hi haiN, haan yeh zaroor hai keh yeh arabi ya faarsi se naheeN aae.
جواب دیںحذف کریں