بےنظیر بھٹو کی ہلاکت اور برصغیر کی خون آلودہ سیاست - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2007/12/29

بےنظیر بھٹو کی ہلاکت اور برصغیر کی خون آلودہ سیاست

گذشتہ تین دہوں کے دوران ہندوستانی اور پاکستانی سیاست کی جملہ چھ اہم شخصیات کی غیر طبعی اموات ہماری نظروں سے گزری ہیں۔
ان سانحات میں سے آخری سانحہ محترمہ بےنظیر بھٹو کی غیر متوقع ہلاکت کا ہے جنہیں بروز جمعرات 27۔ڈسمبر 2007ء ، دہشت گردی نے ہلاک کر ڈالا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
اللہ تعالیٰ پسماندگان و متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ، آمین۔ اس غم انگیز موقع پر ہم اپنے پاکستانی دوست احباب کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔

غالباً تیس سال قبل کا واقعہ ہے جب ہم اسکول کی کسی چھوٹی جماعت میں زیرتعلیم تھے۔ لنچ کے بعد اچانک اسکول میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔ معلوم ہوا کہ ذوالفقار علی بھٹو (وفات: 4۔اپریل 1979ء) کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ اور اس خبر کی تصدیق کے بعد ، وقت سے تین گھنٹہ قبل اسکول کو تعطیل دے دی گئی۔ حیدرآباد (دکن) کے تقریباً ہر مسلم اسکول کی انتظامیہ نے ایسا ہی قدم اٹھایا تھا۔ اُس وقت ہمیں معلوم نہیں تھا کہ بھٹو کون ہے۔ اس کی کچھ تفصیل والد صاحب نے بتائی تھی پھر دوسرے دن کے اخبارات میں اٹک اٹک کر دلچسپی سے ہم نے چند خبریں پڑھی تھیں۔

سنجے گاندھی (وفات: 23۔جون 1980ء) اور (سابق) صدرِ پاکستان ضیاءالحق (وفات: 17۔اگست 1988ء) کی ہلاکت کے واقعات میں مماثلت یہ ہے کہ دونوں وقوعے فضاء میں پیش آئے۔ سنجے گاندھی کی وفات کے متعلق تو ہم نے اپنے اسکولی ہم جماعتوں سے سنا تھا کہ ایک ماں خود اپنے سگے بیٹے کی ہلاکت کی ذمہ دار ہے۔
البتہ ضیاءالحق کی وفات پر مختلف تاثرات سامنے آئے تھے۔ کچھ کا کہنا تھا کہ اس میں امریکہ کا ہاتھ ہے اور کچھ پاکستانی فوج کے دیگر عہدیداران کو اس "قتل" کا ذمہ دار قرار دے رہے تھے۔ اس بات پر بھی ہمارے دوستوں میں اختلاف رہا تھا کہ صدر ضیاءالحق کی موت سے پاکستان کا فائدہ ہوا ہے یا نقصان ؟ ہم بہرحال اُس زمانے میں سیاست کی باریکیوں سے ناواقف ہونے کے باوجود یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کو صحیح اسلامی ریاست بنانے میں ضیاءالحق کی کوششیں واقعتاً قابل تعریف رہیں۔

مورخہ 31۔اکٹوبر 1984ء کو اندرا گاندھی پر قاتلانہ حملہ اور 21۔مئی 1991ء کے دن راجیو گاندھی پر قاتلانہ حملہ ۔۔۔ یہ دو سانحے بھی ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں۔ فرق صرف اتنا رہا کہ اندرا گاندھی کا قتل سکھ انتہا پسندی کے زیراثر عمل میں آیا تو راجیو گاندھی کے وحشیانہ قتل میں تامل انتہا پسندی (ایل۔ٹی۔ٹی۔ای) کا ہاتھ بتایا گیا۔

برصغیر کی سیاست کے یہ تانے بانے کس رحجان کی عکاسی کرتے ہیں؟
دہشت گردی کی ظاہری مذمت بلاشبہ دنیا کے ہر گوشے سے کی جاتی ہے اور اِس دنیا کے قائم رہنے تک کی جاتی رہے گی بھی۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔۔
اقتدار یا سیاسی قوت کے نشے میں شرابور سربراہان یا قائیدین یا متعلقین کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ برصغیر کی سیاست کی اس وادیء خارزار میں انسانی لہو کی کوئی قیمت یا پہچان نہیں ہے۔ کسی معمولی سے مکان میں بم دھماکے کی شدت سے ہلاک ہونے والے ایک عام آدمی کا خون بھی وہی رنگ اور وہی معنی رکھتا ہے جو کسی ملک کی اہم شخصیت کے خون کا ہے ‫!!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں