اسلامک اسٹاک بروکنگ - ‫Islamic Stock Broking - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2007/11/12

اسلامک اسٹاک بروکنگ - ‫Islamic Stock Broking

گجرات (ہندوستان) کے ظفر سریش والا ، ہندوستان میں اسلامی فینانس کے ایک پہل کار ہیں۔ انہوں نے اسٹاک مارکٹ میں مسلمانوں کو سرمایہ کاری کی ترغیب دی ہے ، کیونکہ مذہبی تقاضوں کی بنا پر مسلمانوں کا اس شعبہ میں برائے نام حصہ ہے۔

ایک نئے بزنس کے آغاز کی تگ و دو میں ظفر سریش والا ، 1988ء میں گجرات سے ممبئی منتقل ہوئے تھے جہاں انہوں نے بمبئی اسٹاک اکسچینج میں ایک ٹریڈر کی حیثیت سے ملازمت شروع کی۔ وہ کہتے ہیں ‫:
‫"ایک مسلمان ہونے کے ناتے میں ہمیشہ یہ سوچتا رہا کہ کسی بھی ملک کی مالیاتی صحت کا پیمانہ اسٹاک اکسچینج ہی ہو سکتا ہے۔ لیکن اسٹاک اکسچینج میں درج شدہ 2500 سے زیادہ کمپنیوں میں صرف مٹھی بھر ایسی کمپنیاں ہیں جن کے مالکین مسلمان ہیں۔ جب میں ٹریڈر کی حیثیت سے کاؤنٹر پر جاتا تھا تو بمشکل کوئی مسلمان مجھے نظر آتا تھا۔ سارے اسٹاک اکسچینج کے اراکین میں صرف ایک یا دو مسلمان تھے۔ میں یہی سوچتا رہا کہ آخر ہم نے کیا غلطی ہو رہی ہے ۔۔۔‫"
پھر ظفر سریش والا نے طے کیا کہ وہ اسلامی فینانس کے شعبے کو فروغ دیں گے۔ ان کے آگے ایک بزنس ماڈل تھا اور وہ تھا : اسلامک اسٹاک بروکنگ۔
ان کی کمپنی نے ایک ایسا اسلامی ایکویٹی انڈیکس [‫islamic equity index] تشکیل دیا تھا جس کے تحت شریعت کی مطابقت رکھنے والے اسٹاکس کو ان اسٹاکس سے علیحدہ رکھا گیا تھا جن کی ممانعت شریعت کے تحت کی گئی ہے۔ یعنی ، شیئرس کو ایسی کمپنیوں میں مشغول نہیں کیا جاتا ہے جو الکوحل ، جوے بازی ، سٹے بازی ، کیسینوز یا پورنوگرافی کا کاروبار کرتی ہیں۔ انہوں نے اس ضمن میں کئی یوروپی کمپنیوں سے ربط پیدا کیا تھا لیکن کئی مہینوں کی کوشش کے بعد انہیں پتا چلا کہ ان کی جانب سے کوئی ردّعمل نہیں آیا ہے۔ کوئی معجزہ ہی انہیں اپنی کوششوں میں کامیاب کر سکتا تھا ‫!

پچھلے سال وہ معجزہ بھی ظہور پذیر ہو گیا۔ ایک جرمن سرمایہ کار اچانک ان کی سرگرمیوں میں دلچسپی لینے لگا۔ اس جرمن نے جس کا نام اوٹوباڈر تھا ، چند ہی منٹوں کی گفتگو کے بعد ان سے ملاقات پر رضامندی ظاہر کی۔ جب اس نے اپنے بارے میں تفصیلات ظفر سریش والا کو روانہ کیں تو وہ ششدر رہ گئے۔
اوٹو باڈر ، جرمنی کے بیڈر بنک کے چیرمین تھے اور میونخ اسٹاک اکسچینج کے صدر ! دو ہی ہفتوں بعد وہ احمدآباد آ گئے اور انہوں نے ایک ایسی پیش کش کی جسے ظفر سریش والا قبول کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اپنے اس طریقہ کار کو انہوں نے "پرسولی" کا نام دیا تھا۔ اس جرمن سرمایہ کار نے پرسولی میں شیئرس خریدنے میں رضامندی ظاہر کی۔
ظفر سریش والا کہتے ہیں : "یہ ایک معجزہ تھا۔ میں نے اپنے بھائی سے کہا کہ کیا ہم کسی پریوں کے دیس میں ہیں؟‫"
اس جرمن سرمایہ کار نے ظفر سریش والا کی کمپنی کے دس [10] فیصد شیئرس خریدے اور وہ ایک سال بعد ہی ان کی کمپنی کی کارکردگی سے اس حد تک متاثر ہوئے کہ انہوں نے سب سے زیادہ شیئرس خریدے لیکن کمپنیوں کا کنٹرول ظفر سریش والا کے ہاتھوں میں باقی رکھا۔

احمدآباد سے لے کر مرادآباد اور کشمیر تک ظفر سریش والا مسلسل مذہبی علماء سے ربط میں ہیں اور وہ ان پر زور دیتے رہتے ہیں کہ : وہ عام مسلمانوں کو یہ بتائیں کہ وہ کئی اسٹاکس میں سرمایہ مشغول کر سکتے ہیں جو مذہبی تقاضوں کے خلاف نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں : اس نظریے نے مسلمانوں کے علاوہ غیرمسلموں کو بھی متوجہ کیا ہے۔ درحقیقت بیس [20] فیصد سے زیادہ گاہک غیرمسلم ہی ہیں۔
اب ظفر سریش والا نے یوروپ میں مالیاتی خدمات پر مبنی اپنی ایک کمپنی کھولی ہے جس کے ذریعے وہ مغربی یوروپ میں رہنے والے پندرہ [15] ملین مسلمانوں کو اپنی سرگرمیوں کا حصہ دار بنانا چاہتے ہیں۔

آج سینکڑوں مسلمان ہندوستان کے مختلف شہروں میں ان کی سرگرمیوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اور ان میں سے بعض ان کے دفتر پر بھی حاضری دیتے ہیں۔ جہاں ایک زبردست حیرت سے انہیں دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ان کی کمپنی کا چیف آپریٹنگ آفیسر ، جو قرآن مجید کے بارے میں وسیع معلومات رکھتا ہے ، ان کا استقبال کرتا ہے اور ۔۔۔۔۔
اور وہ شخص ایک ہندو ہے ‫!!

--------
مضمون : آج کا مسلمان ۔ نئی فکر ، نیا خیال
مضمون نگار = نیلیش مصرا
مترجم = رفعت صدیقی
(اقتباس بحوالہ : روزنامہ اعتماد ، حیدرآباد ، اتوار ایڈیشن ، 28۔ اکتوبر 07ء )

1 تبصرہ:

  1. ہمارے خیال میں تو دنیا میں ایسا کوئی سٹاک نہیں ہے جو اسلام کے معیار پر پورا اترتا ہو اب یہ سٹاک بروکر ہی ہیں جو چکر چلا کر مسلمانوں کو قائل کرتے ہیں کہ ان کا فنڈ اسلامی ہے۔
    دنیا میں ایسی کوئی کمپنی نہیں جو سود پر کاروبار نہ کرتی ہو اس اصول کی بنا پر شاید ہی کوئی اسٹاک اسلامی تقاضوں کو پورا کرتا ہو۔
    یہ بات درست ہے کہ موجودہ معاشی نظام اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ وہ اسلام کے اصولوں کی نفی کرتا ہے اور خطرناک بات یہ ہے کہ مسلمان سوداگروں اور حکومتوں نے جان بوجھ کر اس طرف نہ غور کیا ہے اور نہ پلاننگ۔
    یہ بات درست ہے کہ مسلمانوں کے غیرترقی یافتہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلمان نہ تو موجودہ نظام کو قبول کرتے ہیں اور نہ اسلامی معاشی سسٹم سیٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
    ہندوستان میں جب انگریزوں نے حکومت شروع کی تو اس وقت بھی مسلمانوں کو پسماندہ رکھنے کیلیے انگریزی سیکھنا حرام قرار دیا گیا اور ہندو اسی وجہ سے مسلمانوں کو پیچھے چھوڑ گئے کہ ان کے نزدیک انگریزی کی تعلیم گوروں کی غلامی نہیں تھی بلکہ ترقی کا ایک زینہ تھا جس پر چڑھ کر وہ انگریزوں سے ایک دن جان چھڑا سکیں اور بعد میں ہم نے دیکھا کہ انہوں نے جان چھڑائی
    اب بھی وقت ہے مسلمان اور ان کی حکومتیں ملکر کوئی لائحہ عمل طے کریں تاکہ اسلامی اصولوں پر معاشی نظام ترتیب دیا جاسکے۔ لگتا ہے اس دفعہ بھی مسلمانوں کو جان بوجھ کر غیرترقی یافتہ رکھنے کی سازش ہورہی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں