ہارورڈ یونیورسٹی سے پروفیسر سبرامنیم سوامی کا اخراج - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2011/12/17

ہارورڈ یونیورسٹی سے پروفیسر سبرامنیم سوامی کا اخراج

375 سالہ قدیم ہارورڈ یونیورسٹی (کیمبرج ، امریکہ) نے بالآخر پروفیسر ڈاکٹر سبرامنیم سوامی (رکن پارلیمنٹ ہندوستان) کو اپنے موقر تعلیمی ادارے سے خارج کر دیا ہے۔ اسی کے ساتھ درج ذیل دو نصاب بھی یونیورسٹی سے خارج کر دئے گئے ہیں جس کی تعلیم کے لئے ڈاکٹر صاحب یونیورسٹی میں بحیثیت پروفیسر فائز رہے تھے :
  • Quantitative Methods in Economics and Business
  • Economic Development in India and East Asia
سال رواں جولائی میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے ایک کالم میں مذہبی تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ہندوستان میں صرف انہی مسلمانوں کو ووٹ کا حق ملنا چاہئے جو اس بات کا اعتراف کریں کہ ان کے آبا و اجداد ہندو تھے۔ ونیز پروفیسر موصوف نے ہندوستان کی سینکڑوں مساجد کو ڈھانے کی بھی وکالت کی تھی۔
شائد ہندوستانی جمہوری سیاست میں ایسے متنازعہ بیانات کے لئے جگہ نکل آتی ہے مگر افسوس کہ ملک کے باپر پروفیسر سوامی کے ایسے متنازعہ بیانات یا خیالات کے لئے کوئی جگہ نکل نہیں پائی۔ ہارورڈ یونیورسٹی نے اسی بنیاد پر انہیں اپنے ادارے سے نکال باہر کرنا مناسب سمجھا۔

واضح رہے کہ ڈاکٹر سوامی کے متذکرہ متنازعہ مضمون پر اعتراضات کے باوجود یونیورسٹی نے اظہار رائے کی آزادی کا فائدہ دیتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کو درس کیلئے مدعو کرنا چاہا تھا مگر 400 سے زائد طلبا نے پروفیسر سوامی کو ہٹائے جانے کی درخواست دائر کر دی۔ یونیورسٹی فیکلٹیز نے اجلاس میں بحث کے بعد فیصلہ کیا کہ ڈاکٹر سوامی کا مضمون ایک مذہبی فرقے کے خلاف منفی تشہیر اور مقدس مقامات کے خلاف تشدد کا اعلان کرتا ہے۔ لہذا ہارورڈ یونیورسٹی کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خود کو ایسے شخص کے ساتھ وابستہ نہ کرے جو کسی اقلیتی طبقے کے خلاف نفرت کا احساس ظاہر کرتا ہے۔

ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے 1965ء میں ہارورڈ یونیورسٹی سے ہی معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی تھی۔ لیکن ہندوستانی عوام انہیں معاشیات کے پروفیسر سے زیادہ ایسے سیاستداں کے طور پر جانتے ہیں جو آئے دن اپنے متنازعہ بیانات کے سبب زیربحث ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر سوامی نے یونیورسٹی کے فیصلے پر اپنا احتجاج درج کرواتے ہوئے کہا ہے کہ یونیورسٹی نے اس سلسلے میں ان سے کوئی بات نہیں کی اور اچانک فیصلہ لے لیا ہے۔ حالانکہ اصولی طور پر دیکھا جائے تو ہر یونیورسٹی کا یہ نجی معاملہ ہوتا ہے کہ وہ کسے استاد کے طور پر رکھے اور کسے نہیں؟ ہر تعلیمی ادارے کو مکمل حق حاصل ہے کہ اپنی شہرت اور عزت کے موافق وہ کوئی فیصلہ لے۔ اس پس منظر میں ڈاکٹر سوامی کا احتجاج بےجا ہے۔

ڈاکٹر سوامی اور ان جیسی سوچ کے حامل افراد کو جاننا چاہئے کہ بین الاقوامی برادری میں ہندوستان کی شبیہ ایک ایسے ہمہ مذہبی ملک کی ہے جہاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی کئی مثالیں قائم ہوئی ہیں۔ گو کہ ایودھیا ، گجرات جیسے واقعات سے کچھ وقت کے لئے ملک عدم استحکام سے لرز جاتا ہے لیکن پھر اتحاد کی مضبوط ڈور تن جاتی ہے۔ تعصب کے دائرے میں مقید سیاستدانوں کو اپنے محدود نظریات کی ترسیل سے قبل ملک کی شبیہ کی فکر کرنا چاہئے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کا قابل تحسین فیصلہ نہ صرف پروفیسر سوامی کو اپنی روش بدلنے کا موقع فراہم کرتا ہے بلکہ دنیا کی تمام فرقہ پرست تنظیموں اور افراد کے لئے بھی ایک سبق ہے۔

(استفادہ از مضمون : ابوجاسم ، روزنامہ منصف ، 11/دسمبر/2011)

متعلقہ خبریں :
BBC : Harvard drops Indian MP Subramanian Swamy's courses
NDTV : Harvard University removes courses taught by Subramanian Swamy

3 تبصرے:

  1. مجھے تو 1947ء کا اچھی طرح ياد ہے کہ ہندو دوست درپردہ جانی دشمن بن گئے تھے اور ہميں دھودہ ميں زہر ملا کر ہلاک کرنے کی کوشش بھی کی گئی تھی

    جواب دیںحذف کریں
  2. ہارورڈ یونیورسٹی کا یہ عمل قابل تحسین ہے اور فرقہ پرستوں کے منہ پر ایک تمانچہ ہے ۔ ۔۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں