- Quantitative Methods in Economics and Business
- Economic Development in India and East Asia
شائد ہندوستانی جمہوری سیاست میں ایسے متنازعہ بیانات کے لئے جگہ نکل آتی ہے مگر افسوس کہ ملک کے باپر پروفیسر سوامی کے ایسے متنازعہ بیانات یا خیالات کے لئے کوئی جگہ نکل نہیں پائی۔ ہارورڈ یونیورسٹی نے اسی بنیاد پر انہیں اپنے ادارے سے نکال باہر کرنا مناسب سمجھا۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر سوامی کے متذکرہ متنازعہ مضمون پر اعتراضات کے باوجود یونیورسٹی نے اظہار رائے کی آزادی کا فائدہ دیتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کو درس کیلئے مدعو کرنا چاہا تھا مگر 400 سے زائد طلبا نے پروفیسر سوامی کو ہٹائے جانے کی درخواست دائر کر دی۔ یونیورسٹی فیکلٹیز نے اجلاس میں بحث کے بعد فیصلہ کیا کہ ڈاکٹر سوامی کا مضمون ایک مذہبی فرقے کے خلاف منفی تشہیر اور مقدس مقامات کے خلاف تشدد کا اعلان کرتا ہے۔ لہذا ہارورڈ یونیورسٹی کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خود کو ایسے شخص کے ساتھ وابستہ نہ کرے جو کسی اقلیتی طبقے کے خلاف نفرت کا احساس ظاہر کرتا ہے۔
ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے 1965ء میں ہارورڈ یونیورسٹی سے ہی معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی تھی۔ لیکن ہندوستانی عوام انہیں معاشیات کے پروفیسر سے زیادہ ایسے سیاستداں کے طور پر جانتے ہیں جو آئے دن اپنے متنازعہ بیانات کے سبب زیربحث ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر سوامی نے یونیورسٹی کے فیصلے پر اپنا احتجاج درج کرواتے ہوئے کہا ہے کہ یونیورسٹی نے اس سلسلے میں ان سے کوئی بات نہیں کی اور اچانک فیصلہ لے لیا ہے۔ حالانکہ اصولی طور پر دیکھا جائے تو ہر یونیورسٹی کا یہ نجی معاملہ ہوتا ہے کہ وہ کسے استاد کے طور پر رکھے اور کسے نہیں؟ ہر تعلیمی ادارے کو مکمل حق حاصل ہے کہ اپنی شہرت اور عزت کے موافق وہ کوئی فیصلہ لے۔ اس پس منظر میں ڈاکٹر سوامی کا احتجاج بےجا ہے۔
ڈاکٹر سوامی اور ان جیسی سوچ کے حامل افراد کو جاننا چاہئے کہ بین الاقوامی برادری میں ہندوستان کی شبیہ ایک ایسے ہمہ مذہبی ملک کی ہے جہاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی کئی مثالیں قائم ہوئی ہیں۔ گو کہ ایودھیا ، گجرات جیسے واقعات سے کچھ وقت کے لئے ملک عدم استحکام سے لرز جاتا ہے لیکن پھر اتحاد کی مضبوط ڈور تن جاتی ہے۔ تعصب کے دائرے میں مقید سیاستدانوں کو اپنے محدود نظریات کی ترسیل سے قبل ملک کی شبیہ کی فکر کرنا چاہئے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کا قابل تحسین فیصلہ نہ صرف پروفیسر سوامی کو اپنی روش بدلنے کا موقع فراہم کرتا ہے بلکہ دنیا کی تمام فرقہ پرست تنظیموں اور افراد کے لئے بھی ایک سبق ہے۔
(استفادہ از مضمون : ابوجاسم ، روزنامہ منصف ، 11/دسمبر/2011)
متعلقہ خبریں :
BBC : Harvard drops Indian MP Subramanian Swamy's courses
NDTV : Harvard University removes courses taught by Subramanian Swamy
مجھے تو 1947ء کا اچھی طرح ياد ہے کہ ہندو دوست درپردہ جانی دشمن بن گئے تھے اور ہميں دھودہ ميں زہر ملا کر ہلاک کرنے کی کوشش بھی کی گئی تھی
جواب دیںحذف کریںہارورڈ یونیورسٹی کا یہ عمل قابل تحسین ہے اور فرقہ پرستوں کے منہ پر ایک تمانچہ ہے ۔ ۔۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریںit happens only in india
جواب دیںحذف کریں