رہی بات انسان کا اپنے آپ کو اچھا سمجھنے کی۔ تو یہ بھی اس کے نفس کی بدولت ہے۔ آئینہ سچ بولتا اور سچ دکھاتا ہے مگر یہ سچ اپنے سے متعلق ہو تو کڑوا ہونے کے باوجود ہمیں امرت لگتا ہے۔ ہم اپنے آپ کو دوسروں سے اچھا سمجھتے ہیں۔ اسلئے کہ بقول کسی مفکر کے ، دوسروں کی آنکھوں کا تنکا تو نظر آ جاتا ہے مگر خود کی آنکھوں کا شہتیر نظر نہیں آتا۔ ہم ہمیشہ دوسروں کا جائزہ لیتے رہتے ہیں اور خود اپنے محاسبے کی عادت نہیں ہے۔ جس دن محاسبہ کرنے لگیں گے اس دن سے ہم اپنی اصلیت کو جان جائیں گے اور ہلاکت سے بچ جائیں گے۔
جب انسان خود کو اچھا سمجھنے لگتا ہے تو دوسروں کو خود سے کمتر جاننے لگتا ہے۔ احساس برتری میں مبتلا ہو کر دوسروں کی توہین و تضحیک کرنے لگتا ہے۔ دوسروں سے متعلق اس کا رویہ ناقدانہ اور ناصحانہ ہو جاتا ہے۔ وہ خود کو خدائی فوجدار سمجھنے لگتا ہے۔ جب وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو یہ اس کی تباہی اور زوال کا نقطہ آغاز ہو جاتا ہے۔ بس یہی اس کی ہلاکت ہے۔
مذہب سے دوری ، اخلاقی تعلیمات کی کمی ، دولت کی فراوانی ، خوشامد پسندوں کا ساتھ ، اسے اس مقام تک پہنچا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خوشامد پسندوں سے دور رہنے کی تاکید کی گئی ، سامنے تعریف کرنے والے کے لئے قتل کی سزا رکھی گئی ہے۔ منہ پر تعریف کرنے والے کے منہ میں خاک کہا گیا۔
افسوس اس بات کا ہے کہ ہم اس قسم کے لوگوں میں رہنا پسند کرتے ہیں جو ہماری تعریف کر کے ہمیں ہلاکت میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ کہ ہم یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ہم تعریف سے خوش نہیں ہوتے ، مگر یہ حقیقت ہے کہ سچ کہنے والوں ، ہمیں اپنی اصل حقیقت دکھانے والوں کے ساتھ رہنا ہم گوارہ نہیں کرتے۔ صحت مند تنقید کرنے والوں کو ہم حاسد سمجھتے ہیں۔ اور اپنے مفادات کے لئے جھوٹی تعریف کرنے والوں کو اپنا دوست اور ہمدرد۔
جب یہی ہمدرد پوری طرح سے تباہی کے دلدل میں پہنچا دیتے ہیں تو ہوش آتا ہے مگر اس وقت تک کافی دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
**
اقتباس بشکریہ : اداریہ ہفت روزہ "گواہ" (25/نومبر/2011) - فاضل حسین پرویز
ہر انسان فطری طور پر خوشامد پسند واقع ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ خوشامد پسندمیں خوشامدیوں کے ہر لحاظ سے وارے نیارے ہو تے ہیں
جواب دیںحذف کریںلکھا سب درست ہے مگر ميں اديب نہيں لوہار ہوں ۔ ميں نے ديکھا ہے کہ آئينہ بھی وہی دکھاتا ہے جو اس ميں ديکھنے والا چاہتا ہے ۔ اور جب آئينے پر ترچھی نگاہ ڈالی جائے تو جو کچھ نظر آتا ہے وہ ديکھنے والے کی انا کی تسکين کيلئے کافی ہوتا ہے ۔ ذرا غور کيجئے کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی نے کيا فرمايا ہے " ۔ ۔ ۔ اُن کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہے ۔ ۔ ۔ "۔
جواب دیںحذف کریںنفس پر قابو پا لینا ہر کسی کے نصیب میں نہیں۔
جواب دیںحذف کریںبہت عمدہ تحریر ہے ۔ جزاک اللہ۔
جواب دیںحذف کریںانسان نفت پرستی میں اتنا مشغول ہوچکا ہے کہ اُس کو یہ اندازہ ہی نہیں رہا کہ اس دنیا کے بعد بھی ایک دن آباد ہونے والا ہے جس میں تمام خواہشات کی تسکین ممکن ہے اگر وہ اس دنیا میں اپنی نفس پرستی کو چھوڑ دے۔
ثاقب شاہ
colourislam.blogspot.com