کسی سنگ دل کے در پہ مرا سر نہ جھک سکے گا - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2011/10/12

کسی سنگ دل کے در پہ مرا سر نہ جھک سکے گا

اردو دنیا کے مشہور انقلابی شاعر حبیب جالب (پاکستان) نے اپنے وقت کے ڈکٹیٹر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا :
کسی سنگ دل کے در پہ مرا سر نہ جھک سکے گا
مرا سر نہیں رہے گا ، مجھے اس کا غم نہیں ہے !

اور اسی شعر کی تفسیر آج کل ہندوستان میں گجرات حکومت اور بالخصوص نریندر مودی کے خلاف "سنجیو بھٹ" بنے ہوئے ہیں۔

مودی کو روانہ کردہ اپنے بےباکانہ خط کے آخر میں سنجیو بھٹ نے بھوشن سونم کی نظم کا یہ بند نقل کیا تھا :
میرے پاس اصول ہیں ، اقتدار نہیں
تمہارے پاس اقتدار ہے، اصول نہیں
تم تم ہو اور میں میں ہوں
مصالحت ممکن نہیں
اس لئے ہو جائے جنگ کا آغاز

سنجیو بھٹ (Sanjiv Bhatt) کون ہیں؟
اپنے فیس بک پروفائل کے تعارف میں انہوں نے لکھا ہے :
صرف ہنگامہ کھڑا کرنا میرا مقصد نہیں
ساری کوشش ہے کہ یہ صورت بدلنی چاہئے
میرے سینے میں نہیں تو ترے سینے میں سہی
ہو کہیں بھی آگ لیکن آگ جلنی چاہئے !

یہ وہ آگ نہیں جو گجرات فسادات کی طرح انسان کو صرف اسلئے جلا کر بھسم کر ڈالتی ہے اس کا نام "مسلمان" ہوتا ہے ۔۔۔ بلکہ یہ وہ آگ ہے جس کی تپش کے سہارے انسان عدل و انصاف کی طلب میں مسلسل سرگرم ہوتا ہے۔

47 سالہ سنجیو بھٹ ، احمدآباد (گجرات) کے رہائشی ، ممبئی آئی۔آئی۔ٹی کے پوسٹ گریجویٹ اور 1988ء بیچ کے آئی۔پی۔ایس (انڈین پولیس سروس) آفیسر ہیں۔
سنجیو بھٹ ان افسران میں شامل ہیں جنہوں نے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے ظلم و جبر اور استبداد کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ انہوں نے ظلم و جبر کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے ببانگ دہل انکار کر دیا ہے اور اصولوں کی لڑائی لڑنے کا پختہ ارادرہ کر چکے ہیں۔
گذشتہ دنوں جب احمدآباد کے پرنسپل ڈسٹرکٹ جچ نے سنجیو بھٹ کے سامنے جب یہ تجویز رکھی کہ اگر وہ صرف تین چار گھنٹے کے لئے پولیس کی تحویل میں جانے پر رضامند ہو جائیں تو اسی شام انہیں ضمانت پر رہا کیا جا سکتا ہے۔ اس تجویز کے جواب میں سنجیو بھٹ نے کہا کہ وہ جیل میں رہنا پسند کریں گے لیکن ضمانت کے لئے سرکاری دلالوں کی شرطیں منظور نہیں کریں گے۔

واضح رہے کہ 14/اپریل/2011 کو سنجیو بھٹ نے سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کرتے ہوئے گجرات کی مودی انتظامیہ کے خلاف ٹھوس ثبوت پیش کئے تھے۔ سنجیو بھٹ کے مطابق 2002ء میں گودھرا سانحہ کے بعد گجرات میں مسلمانوں کا جو قتل عام کیا گیا ، اسے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی مکمل حمایت اور سرپرستی حاصل تھی۔
سنجیو بھٹ لکھتے ہیں کہ :
گودھرا سانحہ کے بعد 27/فبروری 2002ء کو وزیر اعلیٰ مودی کی طرف سے طلب کی گئی ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں مودی نے انتظامیہ اور پولیس افسران سے کہا تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف فسادیوں کے انتقام کی آگ سرد ہونے دیں اور کوئی مداخلت نہ کریں۔
جس میٹنگ میں مودی نے یہ بات کہی تھی اس میں سنجیو بھٹ محکمہ خفیہ کے ایک اعلیٰ افسر کے طور پر از خود موجود تھے۔ حالانکہ بعد میں مودی کے دلالوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ سنجیو بھٹ اس میٹنگ میں موجود ہی نہیں تھے۔ جس پر سنجیو بھٹ نے اپنے ایک ماتحت کانسٹبل ڈی۔کے۔پنت کی گواہی بھی بطور ثبوت سپریم کورٹ میں جمع کروائی۔
سنجیو بھٹ کا مکمل حلف نامہ تہلکہ ڈاٹ کام نے اپنی ویب سائیٹ پر پیش کر دیا ہے ، جس کی پی۔ڈی۔ایف فائل یہاں سے ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہے:
Text of Sanjiv Bhatt's affidavit in the Supreme Court regarding involvement of Modi in Godhra

بعد ازاں گجرات حکومت نے اپنے مکروہ منصوبے کے تحت مذکورہ کانسٹبل ڈی۔کے۔پنت کو اپنے زیراثر کرتے ہوئے اس کے ذریعہ ایک ایف۔آئی۔آر درج کروائی کہ سنجیو بھٹ نے دھمکیوں کے سہارے ایک "غلط" حلف نامے پر اس کی دستخط حاصل کی ہے۔ اور پھر اسی ایف۔آئی۔آر کی بنیاد پر ایک فرض شناس اور حق پرست افسر کو گرفتار کر لیا گیا اور جو تادم تحریر مودی حکومت کے زیرحراست ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سنجیو بھٹ کے خلاف کاروائی مودی حکومت کو خاصی مہنگی پڑ رہی ہے جبکہ سنجیو بھٹ کی تائید میں ملک کے انصاف پسند ، حق نواز اور سنجیدہ طبقہ کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

ہم سنجیو بھٹ کی ہمت و جراءت کو سلام کرتے ہیں۔

معصوم مرادآبادی کے سیاسی تجزیے سے خاطر خواہ استفادہ کیساتھ۔ (روزنامہ 'اعتماد' 9/اکتوبر/2011)

3 تبصرے:

  1. جزاک اللہ

    اللہ کرے کہ اسی طرح مودی کے کالے کارنامے دنیا کے سامنے آتے جائیں اور وہ ذلت کی گہرائیوں میں گرتا جائے

    جواب دیںحذف کریں
  2. حیدر آبادی صاحب . . . اس بندے نے بھی اپنا ایک ٹوٹا پھوٹا بلا بنایا ہے . آپ کا بلاگ بہت پسند آیا امید ہے کہ آپ سے ( اردو) بلاگنک کے متعلق بہت کچھ سیکھنے ملے گا . . آپ کو ذاتی میسیج کرنا ہو تو کس ایڈریس پر کرنا ہوگا .. .

    والسلام : نورمحمد بن بشیر http://noon-meem.blogspot.com/

    جواب دیںحذف کریں
  3. For Modi , Imran Khan is best choice. He is dealing with him as if he is a member of some opposition party.
    Arshad Faroo
    Editor: www.chichawatninews.com

    جواب دیںحذف کریں