ہم ہیں راہی پیار کے ، ہم کو کچھ نہ بولئے ۔۔۔۔۔۔ - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2010/06/06

ہم ہیں راہی پیار کے ، ہم کو کچھ نہ بولئے ۔۔۔۔۔۔

ہمارے بھائی پاشا لوگ بھی اچھا مسخرا پن کر لیتے ہیں۔
چین نہیں کسی طرح انہیں ۔۔۔۔ ابھی ابھی ایک ایمیل ہمارے قریبی دوست نے یوں فارورڈ کیا ہے ۔۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں :
(انگریزی سے اردو ترجمہ اس خاکسار کی طرف سے ہے)

ایک آدمی حیوانات کے ڈاکٹر کے پاس گیا اور بولا : ڈاکٹر ! میں یہاں ایک ماہ کی چھٹی پر آیا ہوں۔ تاکہ اس چھٹی کے دوران اپنا بھرپور علاج کروا سکوں۔
ڈاکٹر : میں سمجھتا ہوں کہ آپ غلط جگہ آ گئے ہیں۔ میرے کلینک کے مقابل جو کلینک ہے ، براہ مہربانی وہاں جائیں۔
آدمی : نہیں ڈاکٹر ! میں درست جگہ ہی آیا ہوں۔
ڈاکٹر : جناب عالی ، میں وٹرنری ڈاکٹر ہوں ، حیوانات کا علاج ہوتا ہے میرے پاس۔ میں انسانوں کا علاج نہیں کرتا۔
آدمی : میں اچھی طرح جانتا ہوں ڈاکٹر اور اسی لئے میں آپ کے پاس آیا ہوں۔
ڈاکٹر : نہیں جناب ! میں آپ کا علاج نہیں کر سکتا ، آپ تو میری طرح بولتے ہیں ، میری طرح سوچتے ہیں ، میری طرح سنتے ہیں ۔۔۔ جس کا مطلب ہے کہ آپ میری طرح "انسان" ہیں ، حیوان نہیں ہیں۔
آدمی : میں جانتا ہوں کہ میں "انسان" ہوں مگر براہ مہربانی میری شکایات تو سنیں ۔۔۔۔
ڈاکٹر : ٹھیک ہے ، آپ بتائیں ۔۔۔۔۔
آدمی :
میں ایک کتے کی طرح سوتا ہوں رات بھر اپنے کام کے بوجھ کے خیالات پریشان کرتے رہتے ہیں
میں ایک گھوڑے کی طرح صبح صبح اٹھ جاتا ہوں
پھر میں اپنے کام پر ایک ہرن کی طرح دوڑتا ہوا جاتا ہوں
میں سارا دن ایک گدھے کی طرح کام کرتا ہوں
میں ایک بیل کی طرح سال کے 11 مہینے بغیر کسی چھٹی کے کام کرتا ہوں
میں اپنے اعلیٰ عہدیداروں کے سامنے کتے کی طرح دُم ہلاتا ہوں
کچھ فرصت ملے تو میں بندر کی طرح ناچ کر اپنے بچوں کا دل بہلاتا ہوں
میں اپنی بیوی کے سامنے خرگوش بنا رہتا ہوں
۔۔۔۔۔
ڈاکٹر آدمی کو مزید کہنے سے روک کر پوچھتا ہے :
کیا آپ خلیجی ملک سے آئے ہیں؟
آدمی : جی ہاں !
ڈاکٹر : تو جناب ، اتنی لمبی کہانی سنانے کے بجائے اگر آپ پہلے ہی کہہ دیتے کہ آپ خلیجی ملک سے آئے ہیں تو مجھے آسانی ہو جاتی۔ آئیے آئیے ۔۔۔۔ آپ کا علاج مجھ سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا !!

پس تحریر :
اس پیغام کو خلیجی ممالک میں بسنے والے اپنے تمام دوست احباب تک پہنچائیں تاکہ وہ سب اپنی حقیقی زندگی کے متعلق جان سکیں

اب اس پر ہمارا ارسال کردہ جواب بھی دل تھام کر پڑھ لیجئے گا ۔۔۔۔

پیارے اچھن پاشا بھائی !
اگر یہ صرف ایک لطیفہ تھا ۔۔۔۔ تو بہت خوب تھا۔ سمجھو کہ میں بھی آپ کے ساتھ کھڑا قہقہے لگا رہا ہوں۔
لیکن ۔۔۔۔ اگر یہ لطیفہ نہیں تھا ، جیسا کہ پسِ تحریر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ : گلف میں مقیم لوگ اپنی حقیقی زندگی کے متعلق جان لیں ۔۔۔۔۔
تو بھیا ! ادب کے ساتھ عرض ہے کہ یہ ایک سراسر منفی سوچ ہے !
آدمی کو قنوطیت پسند نہیں بلکہ رجائیت پسند ہونا چاہئے۔
ہمیشہ اچھائی کی طرف دیکھیں ، مثبت سوچوں کو پالیں ، خود بھی خوش رہیں دوسروں کو بھی خوش رکھا کریں۔
چلئے ۔۔۔ ایک عام سی نظر یہاں سعودی عرب کے ماحول پر ڈال لیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔

  • کوئی فساد نہیں ، کوئی دھماکہ نہیں ، کوئی کرفیو نہیں ۔۔۔ ہر طرف امن !
  • کوئی احتجاج نہیں ، کوئی بند نہیں ، کوئی راستہ روکو مہم نہیں ۔۔۔ روزمرہ کی عام سادہ اور پرسکون روش !
  • کوئی غیر ضروری چھٹیاں نہیں ، لہذا روزانہ کی آمدنی پر منحصر افراد کو کوئی فاقہ نہیں !
  • کوئی پلو نہیں ڈھلکتا ، آنکھ نہں لڑتی ، آنکھوں کا "زنا" نہیں ہوتا ۔۔۔ ہر طرف عبایا !
  • کوئی سینما ہال ، تھیٹر نہیں ، کوئی پرہجوم بس اسٹاپ نہیں ، لڑکیوں یا خواتین سے کوئی چھیڑخانی نہیں !
  • کوئی فنکشن ہال نہیں ، تقاریب کی کوئی لہر نہیں ، کوئی مخلوط بیٹھکیں نہیں ۔۔۔ لڑکا-لڑکی کی عاشقی نہیں !
  • کوئی سیاست داں نہیں ، کوئی سیاسی جماعت نہیں ، کوئی سیاسی تنازعات نہیں ، کوئی انکاؤنٹر نہیں ۔۔۔ ہر طرف امن ہی امن !
  • مصروفیت کا کوئی بہانہ نہیں چلتا ، کام کے دوران وقتِ نماز آئے تو سب مسجد میں ۔۔۔۔ اللہ اکبر !

ایک عام آدمی کو مزید کیا چاہئے ؟ ایک سادہ اور پرسکون زندگی اور روزمرہ کا پُرامن ماحول۔
اگر پھر بھی کسی کو یہاں "امن و سکون" نظر نہیں آتا تو نہایت افسوس کی بات ہے۔
بہتر ہے کہ ایسا شخص سب سے پہلے "نفسیاتی ڈاکٹر" کے پاس جائے !
ایسے آدمی کو کہنا چاہئے کہ :
پہلے اپنے دماغ کا علاج کراؤ بھائی پاشا !!

پسِ تحریر :
یاد رکھیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کتا ، گھوڑا ، بندر ، گدھا وغیرہ وغیرہ ہیں ۔۔۔ تو ذرا پہلے اپنے آپ سے یہ تو پوچھیں کہ :
کس نے آپ کو یہاں آنے کہا تھا؟ کس نے آپ کو یہاں آنے کی دعوت دی تھی؟ کیا سعودی عرب کی حکومت یا یہاں کے باشندگان نے؟ کیا ان لوگوں نے آپ کے پاؤں پر گر کر درخواست کی تھی کہ بھائی جان ! یہاں آئیں اور کام کریں؟؟

اگر نہیں ۔۔۔۔ تو پھر
یا تو یہاں کے ماحول کو قبول کیجئے یا رخصت ہو جائیے۔
Either LIKE it or LEAVE it ‪!!

9 تبصرے:

  1. جناب آپ نے نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس جانے کا مشورہ دیاھے۔
    جانوروں کے ڈاکٹر اور نفسیاتی ڈاکٹر میں کوئی خاص فرق نہیں ھے۔
    وہ بھی الٹ پلٹ کے دیکھتا ھے اور یہ بھی الٹ پلٹ کر دیکھتا ھے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. اس معاملے میں حیدرآبادی بھائی میں آپ کے ساتھ ہوں!
    :)
    ہاں گدھوں کی طرح کام کرنے والی بات ان بے چاروں پر صادق آتی ہے جو صفائی اور مزدوری کے لیئے یہاں آتے ہیں اور ان کا استحصال بھی خوب کیا جاتا ہے!
    :(

    جواب دیںحذف کریں
  3. جزاک اللہ
    زبردست پوسٹ ہے اور جواب تو اس سے بھی بہت خوب اور سچائی پر مبنی دیا ہے پاشا بھائی نے۔
    والسلام علیکم

    جواب دیںحذف کریں
  4. جو جواب دیا گیا ہے وہ بہت خوب اور بہت پیارا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. یاسر خوامخواہ جاپانی :
    بھیا ، ماہرین نفسیات سے ابھی ہمارا سابقہ تو نہیں پڑا لہذا معلوم نہیں کہ وہ کیا کیا الٹا پلٹا کر دیکھتے ہیں ;)

    Abdullah :
    نچلے درجے کے محنت کشوں کا استحصال تو دنیا میں تقریباً ہر جگہ کیا جا رہا ہے ، حالانکہ کم سے کم اسلامی ممالک میں ایسا نہیں ہونا چاہئے۔

    عتیق الرحمن ، احمد عرفان شفقت
    تحریر کی پسندیدگی کا شکریہ بھائیو

    جواب دیںحذف کریں
  6. گمنام7/6/10 8:17 PM

    کوئی پلو نہیں ڈھلکتا ، آنکھ نہں لڑتی ، آنکھوں کا "زنا" نہیں ہوتا ۔۔۔ ہر طرف عبایا
    sahi bole pasha hati ke dant khane ke aur dekhane ke aur

    جواب دیںحذف کریں
  7. [RIGHT] * کوئی فساد نہیں ، کوئی دھماکہ نہیں ، کوئی کرفیو نہیں ۔۔۔ ہر طرف امن !
    اللہ ایسی ہی ہر ملک کو کردے خاص کر وہاں جہاں پر غیر مسلموں کی اکثریت بے جا ظلم ڈھاتی ہے۔

    * کوئی احتجاج نہیں ، کوئی بند نہیں ، کوئی راستہ روکو مہم نہیں ۔۔۔ روزمرہ کی عام سادہ اور پرسکون روش !
    یہ تمام چیزیں اگر کوئی مائی کا لال چھوٹے سے چھوٹے پیمانے پر کرکے دکھا دے تو میں اسے مان جاوں، بالکل یہ بھی آپ نے پلس پوائنٹ ہی کوٹ کیا ہے ۔ لیکن اسمیں چھپی گھٹن کو آپ محسوس نہیں کر سکتے کیونکہ اپ یہاں رچ بس گئے ہیں۔ اور وہ کہتے ہیں نا کہ ساون کے اندھے کو سب ہرا ہرا ہی نظر آتا ہے۔

    * کوئی غیر ضروری چھٹیاں نہیں ، لہذا روزانہ کی آمدنی پر منحصر افراد کو کوئی فاقہ نہیں !
    پویزیٹیو اٹیٹیوڈ کی ایک اور مثال یہاں آپ نے کوٹ کی کیا آپ بتائیں گے کہ روزانہ کی آمدنی "آزاد" ویزے والی کی ہوتی ہے یا کفیل کے ویزے پر آئے ہوئے کی؟ آزاد ویزے والے ویسے بھی آزاد ہی ہوتے ہیں جناب لہذا مجال ہے کہ کفیل کے ویزے پر آیا ہوا انسان چھٹی کر لے، اگر مشکل سے کر بھی لیا تو بیس طرح کے سوال اور جھڑکیاں بطور ہدیہ ملتی ہیں۔ کبھی کبھی غیر ضروری چھٹیاں بھی ضروری ہوتی ہیں ان ہی کے وجہ سے مزدور ذرا آرام پا لیتا ہے، ورنہ کام لینے والے یہاں عید کو بھی نماز تک کی راحت دیتے ہیں۔ اب اپ یہ مت کہنا کہ "میں شرکہ کی بات کر رہا ہوں" ہر کوئی بڑی کمپنی میں تو نہیں آتا نا؟

    * کوئی پلو نہیں ڈھلکتا ، آنکھ نہیں لڑتی ، آنکھوں کا "زنا" نہیں ہوتا ۔۔۔ ہر طرف عبایا !
    اس کا جواب ایک بھائی نے دے دیا میں مزید کہوں تو سعودی پسندوں کو برا لگے گا۔

    * کوئی سینما ہال ، تھیٹر نہیں ، کوئی پرہجوم بس اسٹاپ نہیں ، لڑکیوں یا خواتین سے کوئی چھیڑخانی نہیں !
    میں نے موسیقی کے حال کی زندہ تصویر دیکھی ہے ہو سکتا ہے آپ کہہ دیں کہ کویت کی ہو باقی تو میں آپ سے متفق ہوں

    * کوئی فنکشن ہال نہیں ، تقاریب کی کوئی لہر نہیں ، کوئی مخلوط بیٹھکیں نہیں ۔۔۔ لڑکا-لڑکی کی عاشقی نہیں !
    فنکشن حال ہے، تقاریب کی بیٹھکیں استراحہ میں ہوتی ہیں (خارجی افورڈ ہی نہین کرسکتے اس لیے شاید آپ کو معلوم نہیں) لڑکا لڑکی کی عاشقی خارجیوں میں نہیں کیونکہ اکثر کمانے کے چکر میں آتے ہیں ان کو اپناٹارگیٹ ہی دکھتا ہے تھوڑی بہت سائڈ انکم اگر ہو جاتی ہے تو پردیس فون کرکے مندرجہ بالا شوق پوری کرتے ہیں (؛ ہاں ! یہ بات اپ سعودی لڑکوں کے بارے میں نہ کہیں تو بہتر ہوگا اگر اندازہ کرنا ہی ہے تو بدھ کے روز ہائپر مارکیٹس کی سیر کریں۔

    * کوئی سیاست داں نہیں ، کوئی سیاسی جماعت نہیں ، کوئی سیاسی تنازعات نہیں ، کوئی انکاؤنٹر نہیں ۔۔۔ ہر طرف امن ہی امن !
    اللہ کا شکر ہے یہ بات قابل داد ہے ویسے انڈیا میں بھی اب انکاونٹر زیادہ نہیں ہوتا۔

    * مصروفیت کا کوئی بہانہ نہیں چلتا ، کام کے دوران وقتِ نماز آئے تو سب مسجد میں ۔۔۔۔ اللہ اکبر !
    اللہ اکبر آپ کی آفس تو بہت اچھی ہے بھائی کسی اور کو کام پر رکھنا ہوگا تو مجھے کہنا میں آپ کی آفس کی ان تعریفوں کے ساتھ اسے بھیجوں گا۔
    ہنہ! غنیمت کہہ لو
    جی ہاں غنیمت ہے کہ انڈیا کی طرح یہاں نہیں ہے اور نماز پڑھنے کو مل جاتی ہے۔ اللہ کا شکرہے کہ مطوعہ نامی لوگ یہاں ہیں اورمیں دل سے چاہتا ہوں کہ یہ لوگ مزید سختی کریں ورنہ یہ خود نمازو ں سے بیزار لگتے ہیں۔ آفسوں میں" مصلیٰ " نامی جگہ بنی ہے جس کے رہتے مسجد میں آپ نہیں جاسکتے ، گر گئے تو بیس سوال ، اس مصلیٰ پر نماز "مصروفیت کے بہانے" کو مدنظر رکتھے ہوئے ہوتی ہے اور کبھی قضا بھی۔[/RIGHT]

    جواب دیںحذف کریں
  8. محترم حیدرابادی بھائی
    آپ نے جومیل کوٹ کیا اور جوبھی جواب دیا میں اس سے کامل طور پر متفق نہیں
    کیا آپ کے بچوں میں کبھی کسی کو (خدا ناخواستہ) ایسی تکلیف ہوئی ہے کہ وہ رات بھر درد میں مبتلا رہا
    کیا اس وقت آپ کع بھی اتنی ہی تڑپ محسوس ہوئی جتنا کہ آپ کی اپنی اولاد کو
    وہ تو رات بھر روتا رہا کیا آپ اسی طرح روئے؟؟؟
    نہیں ان سب کا جواب نہیں ہے کیونکہ جسے درد ہوتا ہے اسے ہی اس کااصل اندازہ ہوتا ہے
    آپ نے تو بری بے دردی سے یہ کہہ کر دھتکار دیا کہ "آپ کو کس نے کہا یہاں آنے کے لیے" کون کس کو آنے کے لیے یہاں مسکا لگاتا ہے"
    بے شک نہیں ! کوئی کسی کو یہ نہیں کہتا کہ بھائی تم چلو ہمارے یہاں، سیم تھنگ ہم بھی تو نہیں کہتے آو چار مینار گھوم جاو! اب اگر کوئی آئے اور اس کا پرس وغیرہ کوئی مار لےیا آئے دن کے کسی سڑک حادثے میں اسے کوئی ضرب پہنچے پھر اس نے وایلا شروع کردیا ہوکہ اندیا بری جگہ ہے یہاں نہیں آنا چاہیے تھا تو آپ اسے یہ کہیں گے کہ "کیوں بے! تجھے یہاں آنے کس نے کہا تھا؟" کیا ایسا کہنا درست ہوگا؟؟ کیا یہی انسانیت ہے ؟؟؟ کیا وہ ہمدردی کا طالب نہیں ہوا ؟؟؟؟
    جی بالکل ہوگا اور اگر آپ نا کہیں تو یہ آپ کے ظالمانہ روئیے کی ایک اور مثال ہوگی
    توآج اس سے زیادہ ہمارے بھائی اس ہمدردی کے محتاج ہیں

    آپ نے تو بری بے دردی سے یہ کہہ کر دھتکار دیا کہ "آپ کو کس نے کہا یہاں آنے کے لیے" کون کس کو آنے کے لیے یہاں مسکا لگاتا ہے، ہے نا"
    بے شک نہیں ! کوئی کسی کو یہ نہیں کہتا کہ فلاں جگہ چلے جاو بلکہ جو لوگ گاوں سے یا شہر سے اپنا سب کچھ بیچ کر سعودی پہنچتے ہیں وہ خود اتنے محتاج ہوتے ہیں کہ ان کو کچھ بھی کہہ دو تو کرتے ہیں۔ جی ہاں کچھ بھی ، دوسرا کون کرتا ہے
    اچھا مان لیتے ہیں کہ آپ نے کہا واپس جاو کون بلاتا ہے تم کو تو پھر اسی آسانی واپس کیوں نہیِں جانے دیتے یہ لوگ؟
    کیوں طرح طرح کے ظلم کرتے ہیں ؟ واپس جانے کا نام بھی لینا یعنی ٹارچر کو دعوت دینا ہے

    ان کا ویزہ انہیں واپس مل جائے گا یہ کسی دوسرے بندے کو بلا لیں گے
    پھر بھی یہ کیوں ایسا کرتے ہیں
    بھائی فسادات اور دیگر برائیوں سے بچ کر جو شخص یہاں یہ سوچ کر آتا ہے کہ "اپنے مسلمان بھائی" ہیں وہ ان کے روئے سے کچھ ہی دنوں میں اتنا نالاں ہو جاتا ہے کہ وہی غیر مسلم اسے پیارے لگنے لگتے ہیں۔ کم از کم وہ انہیں "غیر مسلم" کہہ کر اپنے جذبات تو ٹھنڈے کر لیتا ہے
    آپ شاید میری باتوں کو بہت ریوڈ سمجھیں مگر آپ کا بیان بھی بے رخی کی مثال ہے۔
    بالکل یہ اتفاق کرتا ہوں کہ یہاں بے حیائی کھلی طور پر نہیں مگر یہ بھی ہے کہ جو ڈھکی ہوئی ہوتی ہے وہ بھی نہاں نہیں
    ارض سعودی اور اہل سعودی دو الگ الگ چیزیں ہیں ، آپ کے ساتھ اچھا ہوا اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب کے ساتھ اچھا ہی ہوتا ہوگا
    ارض سعودی کو ہمیشہ سلام اور اللہ سے دعا اور تمام نیک خواہشات کے ساتھ اس کے لیے دعا گو ہوں مگر اہل سعودی کو میں ایسا کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ میں خود بہت کچھ دیکھ چکا ہوں۔ مجھے ایک اثر ہلکہ ہلکہ یاد آ رہا ہے کہ کسی شخص نے ایک صحابی(غالبا عبداللہ بن عمر)سے کہا کہ آپ قابل تعظیم شہر (مدینۃالنبیّ) کے رہنے والے ہیں اس پر اس صحابی نے کہا اس زمیں کو وہاں کے رہنے والے قابل تعظیم بناتے ہیں (اصل عبارت یاد نہیں اس لیے اس پر میں اصرار بھی نہیں کرتا) لیکن بات صحیح معلوم ہوتی ہے کہ جہاں کے لوگ اچھے ہوں اس شہر اس ملک کا بیان لوگ اچھے الفاظ میں ہی کریں گے۔
    الحمدللہ، اللہ کا شکر ہر حال میں ادا کرنا چاہیے
    لیکن جہاں برا ہو اسے کیا برا بھی نہ کہا جائے ؟
    یہ ایمان کا کون سا درجہ ہوگا؟

    جواب دیںحذف کریں
  9. گمنام4/7/10 5:57 PM

    اچہا سوال اور بہتررین جواب۔ امن و امان کے حوالے سے دیکہیے تہ بات صحیح ھے۔

    جواب دیںحذف کریں