خواہ مخواہ حیدرآبادی
کے چند منتخب اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔***
خواہ مخواہ جو ہر محفل کی جان تھا
ایک عرصہ ہوا بیوی کو پیارا ہو گیا
بیوی کو سوت دے یا مجھے موت دے خدا
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ میرے اِس دعا کے بعد
عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار بال
دو آرزو میں جھڑ گئے دو انتظار میں
میرے گھر میں آسودگی اس لئے ہے
کوئی چیز ضرورت سے زیادہ نہیں ہے
بہتر ہے موت خواہ مخواہ ، دیتی تو ہے کفن
گر زندگی کا بس چلے ، کپڑے اُتار لے
محبت میں مرتے تو ہیں خواہ مخواہ سب
جنازہ کسی کا نہ دیکھا نکلتے ہوئے
معشوق ہو حسیں یہ ضروری نہیں ، مگر
عاشق کو چاہئے کہ وہ اندھا ضرور ہو
حیدرآبادی زبان میں:
بزدل ہے وہ جو جیتے جی مرنے سے ڈر گیاایک مئیچ تھا جو کام ہی کچھ اور کر گیا
جب موت آکو میرے کو کرنے لگی سلام
میں وعلیکم سلام بولا اور مر گیا !!
===
مئیچ = میں ہی
آکو = آ کر
میرے کو = مجھے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں