tag:blogger.com,1999:blog-52783777073738573682024-03-13T05:10:36.399+05:30Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literatureباتاں نہیں کرتے ہم حیدرآبادی | میرا شہر لوگاں سے معمور کر | Mera shehar logan soon mamoor kar Rakhya joon toon darya mein min ya Sami | Oh God, fill up my city with people just as you have filled the river with fish.Syed Hyderabadihttp://www.blogger.com/profile/03933308297011650354noreply@blogger.comBlogger513125tag:blogger.com,1999:blog-5278377707373857368.post-91805818996372022302024-02-09T16:47:00.001+05:302024-02-09T16:47:13.129+05:30حیدرآباد اور سہ رنگ شعلے<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhWLPeh-2MP2oXSFZ29V6E_coHIEnBMkaQlrmzdFdSGb4KtUh334zO9AMoreAPArwEt_2Zt5bs4DOUjgF5ulStWhQnhKU8US6D3CnpLbMR8C-eKt1ZWq9iRb-FVACjIanuc0m6V224Dq0GGMeHWJ7nu5gv3zxwaI38k_dSIE5h1jGBTC5-feUhTl99QZKZ5/s1002/mandir-masjid-laldarwaza-hyderabad-oldcity.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="mandir-masjid-laldarwaza-hyderabad-oldcity" border="0" width="600" data-original-height="600" data-original-width="1002" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhWLPeh-2MP2oXSFZ29V6E_coHIEnBMkaQlrmzdFdSGb4KtUh334zO9AMoreAPArwEt_2Zt5bs4DOUjgF5ulStWhQnhKU8US6D3CnpLbMR8C-eKt1ZWq9iRb-FVACjIanuc0m6V224Dq0GGMeHWJ7nu5gv3zxwaI38k_dSIE5h1jGBTC5-feUhTl99QZKZ5/s600/mandir-masjid-laldarwaza-hyderabad-oldcity.jpg"/></a></div>
<p>
<b>© مکرم نیاز</b> (حیدرآباد)۔
<br />
9/فروری/2024ء
<br />
*****
</p><br />
<blockquote>
حیدرآباد اور سہ رنگ شعلے
<br />
The Three Musketeers of Hyderabad
</blockquote>
<br />
<p>
مالیاتی سال کا اختتام ہے لہذا حسب روایت دفتری مصروفیات کچھ ایسی سر پڑی ہیں کہ جو تھوڑا بہت وقت میسر بھی ہو تو بس گزارا لائق آن لائن مطالعے میں گزر جاتا ہے۔ مگر کل اتفاق سے ایک دو نہیں بلکہ تین چبھتی ہوئی ایسی چٹخارے دار حیدرآبادی تحریریں نظر سے گزریں جن سے محظوظ نہ ہونا کفرانِ نعمت قرار پاتا۔ متذکرہ تحریروں کا لنک تو کمنٹ میں دے دیا جائے گا لیکن لکھنے والوں کا کچھ تعارف اور کچھ اقتباسات بھی پیش ہیں تاکہ اچھے مطالعے کے شائقین انہیں فالو کر سکیں۔
</p><br />
<blockquote>
ڈاکٹر عابد معز
</blockquote>
<p>
یہ ہیں تو پیشۂ طب سے وابستہ ڈاکٹر صاحب، مگر اردو سے محبت اتنی ہے کہ اپنے مطب کا نام تک "اردو کلینک" سے موسوم کر رکھا ہے۔ ان کے زیادہ تعارف کی ضرورت بھی نہیں کہ یہ اردو کے عالمی منظرنامے پر طنز و مزاح کے ممتاز ادیب اور کثیرالتصانیف مصنف کی حیثیت سے مشہور و مقبول ہیں۔ ان کے مطب "اردو کلینک" پر بچارے مریض آتے ہوں گے تو قوی امکانات ہیں کہ چاروں دیواروں کی شوکیسوں میں دواؤں کے ڈبوں کے بجائے سلیقے سے جمی کتابوں کے انبار کو دیکھ کر مرعوب و پریشان ہو جاتے ہوں گے۔ مرعوب اس لیے کہ: ابا بابابا بڑا پڑھا لکھا ڈاکٹر لگتا ہے یارو۔ اور پریشان اس لیے کہ: کہیں ڈاکٹر صاحب دوا کی پڑیا دینے کے بجائے کوئی کتاب تھما کر یہ نہ کہہ دیں کہ فلاں صفحے کا فلاں پیراگراف علی الصبح نہار پیٹ اور ہر طعام سے قبل رٹ لیجیے، انشاءاللہ افاقہ ہوگا۔ ویسے آپس کی بات ہے۔۔۔ ان سے ملنے والے حیدرآبادی دوست احباب بخوبی جانتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب سے ان کی لائبریری کی کوئی کتاب مانگنا ایسا ہے جیسے اوکھلی میں سر دینا۔ کتاب وقت پر واپس نہ کی جائے تو سیدھے ہائیکورٹ کے کسی وکیل کی نوٹس اپنے نام وصول ہو جاتی ہے۔
<br />
خیر کل عابد معز نے ایک انشائیہ بعنوان "میں بھی حاضر تھا وہاں" اپنی ٹائم لائن پر جو پیش کیا وہ ایک جامعاتی ادبی سمینار کی مظلومانہ روداد تھی جہاں کسی پروفیسر صاحب نے انکشاف فرمایا کہ اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر قلی قطب شاہ نہیں بلکہ شاہجہاں کے دربار کا ایک فارسی/اردو کا شاعر چندر بھان برہمن ہے۔
<br />
اب اس موضوع پر جو خامہ فرسائی ڈاکٹر صاحب نے کی ہے، وہ بس پڑھنے کے لائق ہے، لہذا ان کی ٹائم لائن سے استفادہ فرمائیں۔ دو اقتباسات یہ رہے:
<br />
** شہ نشین پر اردو پروفیسروں کی ایک کہکشاں براجمان تھی۔ شرکاء محفل ادب و احترام سے سب کو سن کر تالیاں بجا رہے تھے اور واہ واہ کا ورد بھی جاری تھا۔
<br />
** یہ انکشاف سن کر ہمیں حیرت ہوئی لیکن تعجب اس لیے نہیں ہوا کہ پروفیسر موصوف کا تعلق وارانسی سے ہے۔ جلسہ کے بعد وقفہ کے دوران چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے مجھے پروفیسر مقبول فاروقی دکھائی دیے۔ میں ادبی معاملات پر ان کی رائے لیا کرتا ہوں اور وہ صحت کے مسائل پر مجھ سے مشورہ کر لیتے ہیں۔ خلوص کی شکل میں ہم اپنی اپنی مشورہ فیس وصول کر لیتے ہیں۔
</p><br />
<blockquote>
سردار سلیم
</blockquote>
<p>
ہمارے کالج کے زمانے میں نوجوان شاعر کہلائے جاتے تھے، بھولے سے پچھلے دنوں انہوں نے اپنی ٹائم لائن پر اپنے فرزند کی گریجویشن تکمیل پر ٹاپر میڈل حاصل ہونے والی تصویر لگا دی، لہذا اب نوجوان تو کیا جواں سال شاعر ہونے کا استحقاق بھی وہ کھو بیٹھے ہیں۔ آج سے کوئی بائیس تئیس سال قبل ان کے اولین شعری مجموعہ "راگ بدن" کی رسم اجرا تقریب میں تقریر کرتے ہوئے والد مرحوم رؤف خلش نے کہا تھا:
<br />
"سردار سلیم نے جب میدانِ شعر و ادب میں اپنا اشہبِ قلم دوڑایا تو خود شاعر کی زبان میں بعض لوگوں نے اس پر سرقاتِ شعری کی تہمتیں چسپاں کر دیں اس استدلال کے ساتھ کہ کسی متبدی میں ایسی ندرت اور فن پر ایسا عبور ہرگز نہیں ہو سکتا لیکن شاعر نے خود لکھا ہے کہ 'احقر نے بہتوں کو فی البدیہہ طبع آزمائی کے ذریعہ قائل کر دیا مگر بیشتر افراد اب بھی بدگمان ہیں'۔"
<br />
خیر یہ تو چوتھائی صدی قبل کی داستاں ہے، ہم تو آج بس اتنا جانتے ہیں کہ حیدرآباد میں جو چند مستند و معتبر استاد شاعر باقی رہ گئے ہیں، اس فہرست میں سردار سلیم کو بھی ہم بلاجھجھک شمار کرتے ہیں۔ لحاظ خاطر رہے کہ یہ سند وہ مکرم نیاز دے رہا ہے جسے یہ کہتے ہوئے بھی جھجھک نہیں ہوئی کہ چچاجان یوسف روش (مرحوم) کے چار ہزار مشاعروں کا کلام چھانٹ لیا جائے تو کوئی چالیس غزلیں کام کی نکلیں گی۔ ویسے سردار سلیم کو صرف نظم نہیں بلکہ نثر پر بھی یکساں دسترس حاصل ہے۔ وہ اردو اکیڈیمی تلنگانہ کے بچوں کے رسالے کی ادارت نبھا چکے ہیں، ماضی میں روزنامہ 'اعتماد' کے ادبی صفحہ کو نہ صرف مرتب کرتے رہے بلکہ اپنا ایک مخصوص طنزیہ مزاحیہ کالم بھی تحریر کرتے رہے ہیں جس کے تحت لکھا گیا قلی قطب شاہ پر ایک قسط وار فکاہیہ سلسلہ خاصا مقبول ہو چکا ہے۔ تو انہی سردار سلیم نے میک اپ زدہ نسائی شاعری پر نکتہ چیں ہوتے ہوئے کل ایک طنزیہ شہ پارہ "ہم غزل نہیں کہتے۔۔۔؟" کے زیر عنوان سپردِ قلم کیا۔ دو اقتباسات یہ رہے:
<br />
** ایک دور تھا! جب موزوں طبع نوجوان محفل میں بزرگ شعراء کے سامنے اپنا کلامِ موزوں سناتے ہوئے جھجھکتے تھے ۔۔۔ اب دنیا بدل گئی ہے، نقلیوں کی خود اعتمادی اصلیوں پر سبقت لے جا چکی ہے ۔۔۔
<br />
** شاعر اپنی شاعری میں واردات قلبی کو نظماتا ہے اور اسے یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ میرے دل پر اثر ہوا تو میں نے یہ شعر کہا۔۔۔ اور میں پورے دعوے سے یہ کہہ رہا ہوں کہ جن کا مزاج غنائیت سے نا آشنا ہے اور وہ اپنی ناموزوں طبیعت کے زیر اثر پابند وزن شاعری کی بجائے نثری نظم پر اکتفا کرتے ہیں انہیں یہ کہنے کا قطعی حق نہیں کہ "ہم غزل نہیں کہتے"
<br />
انھیں یوں کہنا چاہیے کہ " ہم غزل نہیں کہہ سکتے"
</p><br />
<blockquote>
ڈاکٹر عمر بن حسن
</blockquote>
<p>
نام اتنا بردبار پروقار ہے کہ عام قاری خواہ مخواہ دھوکہ کھا جاتا ہے کہ شاید فرحت اللہ بیگ یا محققِ اعظم حمیداللہ بھٹ سے موصوف کا نسبی تعلق ہوگا، مگر نہیں صاحب، یہ حیدرآبادی بساطِ ادب پر نووارد جواں سال طنز و مزاح نگار ہیں جو پیشہ کے لحاظ سے میڈیکل ڈاکٹر اور سرجن ہیں۔ بڑے اہتمام و احترام سے خود کو ڈاکٹر عابد معز کا شاگردِ رشید قرار دیتے ہیں اور یہ دعویٰ خود ان کی نمکین و تیکھی تحریروں کے حوالے سے جچتا بھی ہے۔ یہ سوشل میڈیا اردو میمز کے منظرنامے پر ڈوین جانسن کے یادگار کارٹون کلپس کے ذریعے اردو کے نام نہاد مجاہدین و مپھکرین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے وائرل ہوئے ہیں۔ ان کارٹونوں میں زبان ایسی استعمال کرتے ہیں جسے حیدرآباد میں "میٹھی چھری" کہا جاتا ہے۔ اور سرجن صاحب کی یہ چھری بھی اتفاقاً دو دھاری ہوتی ہے، جس سے بچنا نہ اردو کے کسی سالخوردہ مجاور کے لیے ممکن ہے اور نہ مجھ جیسے ڈھونڈورچی کو اس چھری سے استثنیٰ حاصل ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل یہ چھری میری بھی تکہ بوٹی کر چکی ہے۔ اور تو اور بہت عرصہ پہلے کلکتہ والے میرے ایک عزیز قلمکار دوست نے عمری تنقید کی یلغار پر چیں بہ چیں ہو کر خارپشت لہجہ میں پوچھا تھا: ابے کون ہے یار یہ تنقیدی ڈاکٹر؟ ہمارے ایک اور مولانا دوست و ادب کے ڈاکٹر بھی تنقیدِ عمر پر پچھلے دنوں خواہ مخواہ ناراض ہو بیٹھے۔ حالانکہ اردو تنقید کے بابائے آدم کلیم الدین احمد، ایلیٹ کا مشہور و معروف فقرہ "تنقید ہماری زندگی کے لیے اتنی ہی ناگزیر ہے جتنی سانس" بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: "واقعہ یہ ہے کہ تنقید ایک فطری نعمت اور بیش بہا ودیعت ہے، اتنی ہی فطری اور بیش بہا جتنی کہ 'بینائی' یا 'گویائی' کی نعمت ہے بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ۔" تو صاحب لکھنے والے کو صرف تعریف پر چہکنا نہیں چاہیے بلکہ تنقید بھی اسی لَے میں جھیلنے کا سلیقہ آنا چاہیے۔ ویسے بھی جھیلنے کے لیے ہمارے پاس تو ایک عدد بڑی موزوں و مناسب سی وجہ بھی ہے جو کہ اردو طنز و مزاح میں قوسین کے بادشاہ کے لقب سے معروف یوسف ناظم کے ایک شاہکار فکاہیے کا عنوان بھی ہے: ہم بھی شوہر ہیں!
<br />
تو ہمارے یہ جواں سال نوواردِ بساطِ ادبِ ظریف ڈاکٹر عمر بن حسن نے کل ایک اردو اخبار کے ادبی ایڈیشن کو نشانے پر رکھ لیا یا حیدرآبادی زبان میں کہیں تو "ادبی ایڈیشن اور اس کے مرتب کو ہاتھ پہ لے لیا"۔ مکمل مضمون بعنوان "مُنصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے" تو ان کی وال پر پڑھیے ۔۔۔ فی الحال یہاں صرف دو اقتباسات ۔۔۔
<br />
** اب لوگوں کو کون سمجھائے کہ ادب کوئی " اِس ہاتھ دے اور اُس ہاتھ لے" قِسم کا کاروبار نہیں ہے ۔ اخبار کی پالیسی اور دیگر تحدیدات کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے ۔ ادبی صفحہ کا مدیر کسی سیاسی جماعت کے رکن اسمبلی جیسا نہیں ہوتا کہ صرف ذاتی مفاد اور اقرباء پروری کے لئے وقف ہو جائے ۔
<br />
** معترضین یہ کہہ سکتے ہیں کہ تمام صفحہ ہی جب پاکستانی، اماراتی اور شمالی ہند کے قلمکاروں کی نذر ہو گیا تو حیدرآبادیوں کے لیے کیا بچا۔ یہ سوال ہی غلط ہے۔ حیدرآباد سے منصف شائع ہوتا ہے تو ضروری نہیں کہ حیدرآبادی قلمکاروں کو بلا ضرورتِ شعری صفحہ کی زینت بنایا جائے ۔ میرے خیال میں دکن میں اچھی اردو لکھنے والے ٹنُڈے کے کٹے ہاتھ کی انگلیوں پر بہ آسانی گنے جا سکتے ہیں۔ اگلے زمانے میں اچھے ادباء و شعراء رہے ہوں گے لیکن اب تو ادیبوں کا کال پڑا ہے۔ جو ہیں وہ اصغر بھائی کے قائم کردہ اعلیٰ معیار پر پورے نہیں اترتے۔
</p><br />
<p>
نوٹ:
<br />
تصویر کا کوئی تعلق تحریر سے نہیں ہے۔ یہ تو پبلک کو مطالعہ کے لیے ورغلانے کا فیس بکی ٹوٹکا ہے۔ ویسے یہ تصویر راقم نے کندیکل گیٹ فلائی اوور (چھتری ناکہ/لال دروازہ، پرانا شہر حیدرآباد) سے گزرتے ہوئے آج صبح لی ہے۔ کئی برسوں سے پاس پاس موجود یہ دونوں مندر مسجد کس بات کی گواہی دیتے ہیں، یہ سوچنے کا کام میں قارئین پر چھوڑتا ہوں!
</p><br />
<div style="direction: ltr; text-align: left;">
The Three Musketeers of Hyderabad, Dr. Abid Moiz, Sardar Saleem and Dr. Omar Bin Hasan
</div>
TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5278377707373857368.post-88251651464199893432024-01-16T13:20:00.002+05:302024-01-16T13:20:29.325+05:30حلف - حیدرآباد لٹریری فورم ادبی تنظیم کی رپورٹس پر مشتمل کتابچہ<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhtRcjo7oktNQ4pWZn9w0otD7jgxqq3-1tzrI2aOvvL3vjx-bSh42_u1omR1q1iAFGm9foEJVYqsp0c2PbY4hiBP98SqRVUtX1fguvQK4GONytKpdhNAfpOKGCPKAydUHy0U8Rsh4uExCIZMx7hRZExx8qnsZdPBqIvg5aXd2R3nwO2dWERiljp2uWo9nDS/s1200/khabarnama-HLF.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="" border="0" height="400" data-original-height="1200" data-original-width="800" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhtRcjo7oktNQ4pWZn9w0otD7jgxqq3-1tzrI2aOvvL3vjx-bSh42_u1omR1q1iAFGm9foEJVYqsp0c2PbY4hiBP98SqRVUtX1fguvQK4GONytKpdhNAfpOKGCPKAydUHy0U8Rsh4uExCIZMx7hRZExx8qnsZdPBqIvg5aXd2R3nwO2dWERiljp2uWo9nDS/s400/khabarnama-HLF.jpg"/></a></div>
<p>
<b>© مکرم نیاز</b> (حیدرآباد)۔
<br />
16/جنوری/2024ء
<br />
*****
</p><br />
<p style="text-align:center; font-weight:bold;">
بڑی شاعری کی تخلیق کے لیے جزوقتی شاعری کرنے سے کام نہیں چل سکتا۔ اس کام کے لیے آدمی کو پوری طرح شاعر ہونا چاہیے : ضیاء الدین شکیب۔
</p><br />
<p>
"حلف" یعنی: 'حیدرآباد لٹریری فورم' شہر حیدرآباد دکن کی ایک نمایاں، معروف و معتبر ادبی تنظیم رہی ہے جو اردو ادب میں جدیدیت کی تحریک کی علمبردار رہی۔ 1975ء میں جب اس کا قیام عمل میں آیا تب اس کے بانی اراکین میں والد ماجد رؤف خلش (مرحوم) کے علاوہ پھوپھا مرحوم غیاث متین، حسن فرخ، اعظم راہی، احمد جلیس، رفعت صدیقی، رؤف خیر وغیرہ شامل رہے۔ تقریباً چار دہائیوں تک اس کے ادبی اجلاس اپنی آب و تاب کے ساتھ منعقد ہوکر شہر حیدرآباد میں علم و ادب کی راہیں روشن کرتے رہے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ 'حلف' کے ادبی اجلاس کی رپورٹیں ریاست (سابقہ متحدہ) آندھرا پردیش و بیرون ریاست کے اخبار و رسائل میں بڑے اہتمام سے شائع ہوا کرتی تھیں۔ کچھ عرصہ قبل والد مرحوم کی کتب کے انبار میں ایسا ہی ایک کتابچہ نظر آیا، جو 'حلف' کے پانچ اجلاسوں کی روئداد پر مشتمل تھا (جولائی 1985ء تا ستمبر 1985ء) اور جسے ممتاز شاعر علی ظہیر نے مرتب کیا تھا۔ میں نے اسے حیدرآباد کی ادبی تاریخ کا ایک اہم حصہ سمجھ کر تعمیر پبلی کیشنز کے زیراہتمام ستمبر 2023ء میں، <a href="https://www.amazon.com/dp/9358725419/" target="_blank">اس کی اشاعت بین الاقوامی سطح پر</a> عمل میں لائی اور جب اس کے چند نسخے بیرون ممالک کی لائبریریوں نے خریدے تو خوشی ہوئی کہ: علاقائی سطح پر اردو کی ترقی و ترویج میں مشغول اداروں/تنظیموں کی تاریخ دنیا کے مختلف ممالک میں کتابی شکل میں محفوظ کی جا رہی ہے۔
<br />
دسمبر/جنوری کے مہینوں میں امریکی و یورپین ممالک میں کتابوں کی خریداری عروج پر ہوتی ہے اور ابھی کل ہی جب پتا چلا کہ اسی کتابچے (صفحات: 32) کے مزید پانچ نسخے اسی ہفتے فروخت ہوئے ہیں تو مزید خوشی ہوئی۔
</p><br />
<p>
ماہرِ دکنیات و اقبالیات ڈاکٹر ضیاء الدین احمد شکیب (پیدائش: اکتوبر 1933ء ، وفات: 20/جنوری 2021ء) شہر حیدرآباد کی ایک علمی و ادبی شخصیت ہونے کے علاوہ شعر و شاعری کے میدان میں بھی ایک منفرد مقام کے حامل تھے۔ وہ تاریخ داں کی حیثیت سے بھی خاصے معروف تھے کہ قلمی نسخوں کی شناخت میں انہیں کمال حاصل تھا۔ سابقہ متحدہ ریاست آندھرا پردیش کے محکمہ آثار قدیمہ میں کچھ مدت تک خدمات انجام دینے کے بعد وہ لندن منتقل ہو گئے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔ ماہ جولائی 1985ء میں جب ایک مختصر دورہ پر ان کی حیدرآباد میں آمد ہوئی تھی تب 'حلف' نے ان کے اعزاز میں ایک خصوصی ادبی نشست ('حلف' کا 24 واں اجلاس) کا اہتمام کیا تھا جس کی رپورٹ بھی متذکرہ کتابچے میں شامل ہے۔ اسی اجلاس کی رپورٹ سے ماخوذ شکیب صاحب مرحوم کی تقریر کے چند دلچسپ اقتباسات ذیل میں ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔
</p><br />
<blockquote>
(بمقام ہنری مارٹن انسٹی ٹیوٹ، نامپلی اسٹیشن روڈ، حیدرآباد لٹریری فورم کا چوبیسواں اجلاس 28/جولائی 1985ء شام سات بجے جناب مضطر مجاز کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اس جلسہ میں لندن سے آئے ہوئے محقق اور دانشور ڈاکٹر ضیا الدین شکیب نے اردو کی جدید شاعری پر تقریر کی۔)
</blockquote>
<p>
ضیا الدین شکیب نے کہا:
<br />
"بڑی شاعری کی تخلیق کے لیے جزوقتی شاعری کرنے سے کام نہیں چل سکتا۔ اس کام کے لیے آدمی کو پوری طرح شاعر ہونا چاہیے۔ انگریزی زبان کے شعرا میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ اکثر جدید انگریزی شاعر محض شاعری کے لیے اپنے آپ کو وقف کر چکے ہیں۔ شاید یہ بات اس لیے بھی ممکن ہے کہ وہاں کا معاشرہ فن کی قدر کرتا ہے۔
<br />
لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر شعر کہتے اور پڑھتے ہیں۔ میں شعر تاریخ کے نقطۂ نظر سے پڑھتا ہوں۔ اس لیے میں یہ دیکھتا ہوں کہ شاعر نے زبان کو، سوسائٹی کو اور ادب کو کیا دیا؟"
</p><br />
<p>
ضیا الدین شکیب نے جہاں ہندوستانی اور پاکستانی شعرا کے مابین ماحول اور حالات کے فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے تفریق کی نشاندہی کی وہیں یہ بھی کہا کہ انگلستان کے ماحول کے فرق کی بنا پر لندن میں لکھنے والوں اور برصغیر کے لکھنے والوں کے مابین فرق واضح ہے، اسی لیے برصغیر کے شعرا کو مغربی ادبی تحریکات سے وابستہ ہو کر ان کی نقالی نہیں کرنی چاہیے۔
<br />
ضیا الدین شکیب نے بتایا کہ لندن میں اردو بولنے والوں میں زیادہ تر شعرا کا تعلق پاکستان سے ہے۔ ہرچند کہ لندن میں ہندوستان اور پاکستان کے لکھنے والوں کی اکثر تخلیقات پڑھنے کو مل جاتی ہیں لیکن شہر حیدرآباد کے لکھنے والوں کی چیزیں وہاں بہت مشکل سے ملتی ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حیدرآبادی شعرا سے لندن میں لوگ واقف نہیں ہیں۔ پھر انہوں نے 'حلف' کے بعض شعرا کے نام گنواتے ہوئے بتایا کہ یہ لوگ لندن میں بخوبی جانے جاتے ہیں۔
</p><br />
<p>
ضیا الدین شکیب نے شاعری میں فکری عناصر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جتنا حیدرآبادی شعرا میں فکری عنصر انہیں نظر آتا ہے وہ ہندوستان کے اور جگہوں سے تعلق رکھنے والے شعرا کے ہاں نظر نہیں آتا۔ اسی طرح مغرب اور مشرق کی شاعری میں جس قدر مثبت عناصر ہم کو مشرق میں ملتے ہیں، مغرب میں نظر نہیں آتے۔ کیونکہ وہاں مستقبل سے مایوسی ہے جبکہ ہماری تہذیب ترقی پذیری کے عمل سے گزر رہی ہے اس لیے ہم کو مستقبل سے ابھی ویسی مایوسی نہیں ہے اور چونکہ مستقبل بجائے خود ایک تخلیقی عمل ہے اسی لیے جو مستقبل سے وابستہ ہوگا اس کے پاس تخلیقی اظہار بھی بیشتر ہونا چاہیے۔ برصغیر کی شاعری میں مایوسی کا پایا جانا غیرفطری ہے۔
</p>
<div style="direction: ltr; text-align: left;">
A booklet on reports of literary meetings by Hyderabad Literary Forum.
</div>
TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5278377707373857368.post-41486165097341216552024-01-14T16:34:00.002+05:302024-01-14T16:34:46.903+05:30پیرنٹنگ (Parenting) - اولاد کی خبرگیری و تربیت<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEglJQTWfhx9zgjr0SNEmW3ttz0Snv3zN-Zvn0E2Jw6bJS0_btHyCloZYf3qW7A0ve2RCgq2JU5PZ2u0YBXx6Jex5edsLcUnjKhpjj44KIEnYonCdbDjvG53z46jIB6icnFguXOjXv8uNStlLvAiPGg_sbB-FzbYDwhang0Glgudk2O-E5v1kdfQ5DR5B3rW/s1600/parenting-smn-2.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="parenting issues" border="0" data-original-height="255" data-original-width="500" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEglJQTWfhx9zgjr0SNEmW3ttz0Snv3zN-Zvn0E2Jw6bJS0_btHyCloZYf3qW7A0ve2RCgq2JU5PZ2u0YBXx6Jex5edsLcUnjKhpjj44KIEnYonCdbDjvG53z46jIB6icnFguXOjXv8uNStlLvAiPGg_sbB-FzbYDwhang0Glgudk2O-E5v1kdfQ5DR5B3rW/s1600/parenting-smn-2.jpg"/></a></div>
<p>
<b>© مکرم نیاز</b> (حیدرآباد)۔
<br />
14/جنوری/2024ء
<br />
*****
</p><br />
<p>
ابھی کچھ دن پہلے کسی کی پوسٹ پر بچے کی ویکسین کے حوالے سے پڑھ رہا تھا اور حسب روایت اس موضوع پر نصف بہتر سے تبادلہ خیال کے دوران بات سے بات یوں نکلی کہ مجھ سے عرض کیا گیا: آپ نے اس موضوع پر کبھی کچھ لکھا ہی نہیں!
<br />
سچ بات تو یہی ہے کہ ہم اس قدیم جاگیردارانہ حیدرآبادی نظام کی پیداوار ہیں جب بچے ماؤں کی گود کے علاوہ (بلکہ زیادہ) جوائنٹ فیملی میں موجود موسی، بوا، مالن بی، پھوپھو، خالہ، نانی، دادی کی گودوں میں پلتے کھیلتے بڑے ہو جایا کرتے تھے مگر پھر۔۔۔ ع
<br />
بدلا زمانہ ایسا کہ حالات نے کہا الگ گھر بسائیے!
<br />
اور تو اور خلیج میں روزگار کے در کھلے تو ہماری قوم کا ایک معتد بہ حصہ وہیں سدھار گیا۔۔۔ پھر چند سال میں پٹرو ڈالر کمائی والے نوجوان کی شادی ہوئی، بچے ہوئے لیکن والدین کو اپنی اولاد کے ہمراہ رہنا تو اکیلا ہی تھا، کیسی پھپھو کیسی خالہ کہاں چاچی کہاں ممانی؟
<br />
بچے کو خود نہلائیں دھلائیں کھلائیں پلائیں، اس پر ہر دم نظر رکھیں، اس کے ساتھ کھیلیں، وقت گزاریں، اسے گھر سے باہر لے کر گھومیں، دھوپ دلائیں، حرارت چیک کریں، اس کی ویکسین کے ایام کا خیال رکھیں، پیمپر، نیڈو/گین دودھ کے ڈبے، سیریلاک، کپڑے لتے، شیمپو صابن وغیرہ وغیرہ۔
</p><br />
<p>
اگر کوئی مردِ دانا یہ سمجھتا ہے کہ اس گلوبل پدرشاہی سماج میں اس کی ذمہ داری بس یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر بیٹھے ممالک کے مسائل اور ان کے حکمرانوں کے طرز عمل پر غوروفکر کرے، انہیں اپنے نادر و مفید مشوروں سے نوازے، شعر و ادب و کتب کی گل فشانیوں میں مصروف بہ کار رہے، زبان کی باریکیوں نزاکتوں رسم الخط کی نکتہ آفرینی چھیڑے، سیاسی ریشہ دوانیوں کی لن ترانیاں ہانکے، مذہبی پوسٹرز، اخلاقی اقوال زریں، لذت کام و دہن کی تصویریں چھلکائے، مذہب مسلک طبقہ فرقہ واری تقسیم کے خلاف زبانی کلامی مہم چلانے کی اداکاری کرے۔۔۔
<br />
مگر جسے یہ نہ معلوم ہو کہ اپنے بچے کا پیمپر کیسے بدلنا ہے، بوتل میں دودھ پاؤڈر کتنا اور گرم پانی کی مقدار کتنی ملانی ہے، بدن کی حرارت کیسے جانچنی ہے، بچے کے درد کا اصل مقام کیسے معلوم کرنا ہے، کندھے پہ ٹکا کے بچہ کی ڈکار نکلنے تک کیسے ٹہلانا ہے۔۔۔
<br />
تو بھائی میرے، ایسا شخص کوئی مردِ دانا نہیں بلکہ اس حقیر پرتقصیر کی رائے میں بےدال کا بودم ہے۔
<br />
<br />
ایک باپ خون پسینہ ٹپکا کے، کرنسی کے انبار جمع کرکے اچھے سے اچھے اسکول/کالج میں اپنے بچوں کو بےشک اعلیٰ و معیاری تعلیم دلا سکتا ہے مگر۔۔۔ ماں کے پیٹ سے نکلے جگرگوشوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام کے، سینے سے لگا کے، پھر اسے رینگنے سے، کھڑنے ہونے چلنے دوڑنے بھاگنے کے مرحلے تک پہنچانے میں اپنا وقت اور اپنی محبت نہ لگائے تو شاید کوئی کمال نہ کیا۔
<br />
اچھا خیر سے دوسرا کمال تو یہ ہوا کہ ادھر کسی بات پر زوجین میں چخ پخ ہو ادھر بات بند اور بچی کھڑی بیچ میں منہ بسورتے ہوئے۔ معلوم ہوا کہ "نمبر ٹو" ہو چکا اور اماں نے کہا کہ جاؤ ابو سے دھلوا لو۔ پاجامہ اتاریے، حمام میں لے جائیے، بچی کو کہیں کہ دونوں ہاتھ دیوار پر ٹکا کر پیر پھیلا کر کھڑی رہے، خبردار جو ذرا ہلنے کی کوشش کی۔۔۔ ابھی نل سے بکٹ میں پانی بھرنا شروع کیا ہی نہیں کہ خوفناک بیگماتی آواز میں تنبیہ ملتی ہے: "گرم پانی سے دھلوائیے"!
<br />
<br />
پیمپر بدلتے بدلتے ٹھیک ڈھنگ سے باندھنے کا طریقہ تو باپ سیکھ ہی لے گا کسی دن، مگر سو ڈالر کا سوال یہ ہے کہ کیا رات دن بچہ پیمپر باندھے گھر میں دوڑے گا اچھلے گا کودے گا؟ پھر معصوم سی تشریف شریف پر اِسکن ریشز پیدا ہو جائیں تو جانسن لوشن اور نووا ویسلین لگاتے بیٹھیے۔ سو بہتر ہے کہ صرف رات میں ہی پیپمر باندھنے کی زحمت اٹھائی جائے۔۔۔ دن میں نظر رکھنا ماں کا کام، شام میں دفتر سے واپسی پر باپ کی ذمہ داری۔ اب چاہے آپ کمپیوٹر پر کام کرتے ہوئے گود میں لے کے بیٹھیں اور کچھ ہی دیر بعد پتا چلے کہ بھئی یہ گھر کے اندر ایسی کیسی برسات برس رہی ہے کہ نہ سر بھیگ رہا ہے اور نہ بدن بس گیلا جو ہو رہا ہے تو وہ خود کا پاجامہ! یوں اچانک انکشاف ہوتا ہے کہ کچن میں ڈنر تیار کر رہی بیگم کو آواز دے کر خطرہ مولا نہیں جا سکتا بلکہ بچی کا پیشاب دھلانا اور کپڑے بدلوانا باپ کا فریضہ ہے!
<br />
<br />
وہ کون سے باپ ہوتے ہیں بھئی کہ جنہیں پتا نہیں ہوتا کہ بوتل میں دودھ پاؤڈر کے ساتھ گرم پانی ملایا جاتا ہے ٹھنڈا نہیں۔۔۔ ہاں پانی بہت زیادہ گرم ہو تو تھوڑا سا نارمل حرارت والا پانی مکس کرنے میں مضائقہ نہیں۔ سو جانو/جانم ٹائپ گذشتہ اسفار کے دوران تھرماس فلاسک میں چائے/کافی ساتھ لے جاتے رہے تو اب بچوں والے باپ کے ہاتھ میں تھمے تھرماس میں صرف گرم پانی ملے گا کوئی دیگر مشروب نہیں۔ ایک مرتبہ شمس آباد ائرپورٹ پر حیدرآباد سے ریاض لوٹتے ہوئے بیگج چیکنگ اسٹاف نے ہاتھ میں پکڑے تھرماس فلاسک کو روک لیا۔ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ پر چھوٹے بچے کو منتقل کرتے ہوئے سمجھایا بھی کہ یہ اس بچے کے دودھ کا گرم پانی ہے جناب۔۔۔ مگر اصرار ہوا کہ نہیں حضور، آپ پہلے چکھ کر بتائیے۔ جھلاہٹ میں یاد نہ رہا کہ فلاسک میں پانی گرماگرم ہی ہوتا ہے، کھولا اور پانی منہ میں انڈیل لیا۔۔۔ پھر زبان اور حلق کا جو حشر نشر ہونا تھا، ہوا! کوئی مہینہ ڈیڑھ مہینہ لگا بچارے حلق کو سمجھانے کہ بس یار غلطی ہو گئی معافی دے دو!
</p><br />
<p>
آج کے دور میں بچوں کے لیے ویکسین کے کئی سالہ پروگرام پر پابندی سے عمل آوری لازم ہے۔ اس میں شک نہیں کہ کئی دقیانوسی خاندان کے بڑے بزرگ ایسے ہیں جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ہم کو بس سیدھے ہاتھ پر ایک ٹیکہ لگا تھا چکن پاکس کا چھٹی/ساتویں دہائی میں، ہم مر گئے کیا، آج بھی سلمان خان جیسی باڈی رکھتے ہیں دیکھو الحمدللہ۔ اچھا تو بھائی جان، پھر کووڈ دور میں گھر میں چھپ چھپا کر کیوں بیٹھے تھے؟ اسپتالوں میں انسانیت کی بھلائی کے لیے مردانہ وار اپنی رضاکارانہ خدمات پیش کرنا تھا ناں!
<br />
ہم نے تو ایک نہیں پانچ بچوں کے ویکسین کے سلسلہ وار پروگرام کا بہ پابندی خیال رکھا تھا۔ پانچ بچوں کی پانچ سالگرہیں تو سال کے پانچ مہینوں میں آتیں مگر مہینہ دو مہینہ نہیں گزرتا کہ میڈیکل کارڈ کی تاریخ سامنے آ جاتی کہ فلاں بچہ کا فلاں ویکسین ہے کل۔ خلیج بالعموم اور سعودی عرب بالخصوص میں برسرروزگار برصغیری افراد کو ان خلیجی ممالک کا احسان مند ہونا چاہیے کہ جہاں بچوں کے لیے مفت ویکسین کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ ورنہ برصغیر کے کارپوریٹ اسپتالوں میں 'بہتر صحت کی ضمانت' کے نام پر جو لوٹ مار مچی ہے اسے صرف وہ طبقہ جھیل سکتا ہے جسے اپنی کمپنی سے فیملی میڈیکل انشورنس کارڈ جاری ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ریاستی حکومتوں کے سرکاری اسپتالوں میں بھی ایسی مفت سہولت فراہم کی گئی ہے مگر جو معیار روا رکھا گیا ہے، اس کا نقص سب ہی جانتے ہیں۔ ہرچند کہ سعودی عرب میں بھی ہر نوکری پیشہ یا لیبر کو میڈیکل انشورنس کارڈ دیا جاتا ہے لیکن پھر بھی گھر سے قریب والے بعض اسپتال جب پالیسی وجوہات کے ناتے کارڈ قبول نہ کریں تو بندہ ایک ویکسین پر کئی سو ریال خرچ کرے یا سرکاری اسپتالوں کی مفت معیاری سہولیات سے استفادہ کرے جہاں صرف شناختی کارڈ دکھانے کی شرط لاگو ہوتی ہے؟
</p><br />
<p>
خیر چلیے جانے دیجیے، کسی اور وقت کچھ اور باتیں سہی۔ مگر کہنا اتنا ہے کہ یہ بھی اردو زبان کا ایک موضوع ہے۔ مگر اس کی طرف توجہ دلانے کا مقصد یہ نہیں کہ سب اس پر بھی لکھیں، کیونکہ بیشتر قلمکاروں کے موضوعات کے میدان مخصوص ہوتے ہیں اور ایسی تخصیص ان کا حق ہے۔ جو لکھنے والے مختلٖف موضوعات پر طبع آزمائی کرتے ہیں انہیں توجہ دلانا مقصود ہے کہ زبان کے موضوعات کے دامن کو کشادہ کیجیے، زبان کی دنیا صرف ادبی، سیاسی، مذہبی و تفریحی موضوعات تک محدود نہیں ہے۔ مگر ظاہر ہے مشورہ دینے والے کو بھی کچھ عمل کرکے دکھانا چاہیے سو یہ مختصر تحریر پڑھنے والوں کی نذر ہے ؎
</p><br />
<p>
ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا
<br />
اب جس کے جی میں آئے وہی بانٹے روشنی
</p>
<div style="direction: ltr; text-align: left;">
Parenting issues and the responsibilities of a father
</div>
TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5278377707373857368.post-68314071995363887132024-01-12T17:15:00.004+05:302024-01-12T17:28:12.004+05:30پھر سوئے حرم لے چل۔۔۔<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><tbody><tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhBMxKCObAyoAJGfcwsuvjntDY9NZ0CLu0-jWEtcQGSEy2hOPiLgTkZx6N-TXzj0xumit9OTZMOKIj7PtkMB8OV1HTXb6Hq6PE9Nd2DW9p9h4P6prvK_H5gR00kvZZ4PpULh2T3GxF1Y7FqkPacIQ2iLyuEGk1NwXaREYaUCrTeZ7jc-5ypb8I0fc0Feq7g/s2048/baqee-madina.jpg" style="display: block; margin-left: auto; margin-right: auto; padding: 1em 0px; text-align: center;"><img alt="jannatul baqee" border="0" data-original-height="1152" data-original-width="2048" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhBMxKCObAyoAJGfcwsuvjntDY9NZ0CLu0-jWEtcQGSEy2hOPiLgTkZx6N-TXzj0xumit9OTZMOKIj7PtkMB8OV1HTXb6Hq6PE9Nd2DW9p9h4P6prvK_H5gR00kvZZ4PpULh2T3GxF1Y7FqkPacIQ2iLyuEGk1NwXaREYaUCrTeZ7jc-5ypb8I0fc0Feq7g/s600/baqee-madina.jpg" width="600" /></a></td></tr><tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;">بقیع الغرقد : جنت البقیع قبرستان</td></tr></tbody></table>
<p>
<b>© مکرم نیاز</b> (حیدرآباد)۔
<br />
12/جنوری/2024ء
<br />
*****
</p><br />
<p style="font-weight: bold; text-align: center;">
چلو چلیں عمرہ و زیارتِ مدینہ ۔۔۔
</p><br />
<p>
بدھ کی دوپہر لنچ کے کچھ دیر بعد کوئی دفتری ساتھی جلدی جلدی کام نپٹا کر سسٹم بند کرتے ہوئے گھر واپسی کی تیاری میں نظر آئے تو دیگر ساتھی سمجھ جایا کرتے:
<br />
"کیوں بھائی، نکل رئیں کیا عمرہ و زیارت کو، دعاؤں میں یاد رکھنا"۔
<br />
"ہَو یارو، ضرور ضرور۔ آپ کو تو معلوم اِچ ہے چار بجے رہنا اسپاٹ پر"
</p><br />
<p>
یہ ذکر ہے سعودی عرب کے دارالحکومت شہر ریاض کے ایک محلہ "حئ الوزارات" کا۔ کہا جاتا ہے کہ بیسویں صدی کی ساتویں دہائی کے اواخر میں ہند و پاک و بنگلہ دیش کے باشندگان روزگار کی خاطر سعودی عرب کا رخ کرنے لگے تو ریاض پہنچنے والی اکثریت نے اس محلے میں سکونت اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ اور جیسا کہ لمبے نام کو مختصر کرنے والی برصغیری ذہنیت ہے تو یہ محلہ "حارہ" کہلانے لگ گیا، پھر یو۔پی بہار حیدرآباد کے سبز شملہ پوشوں نے مزید آگے بڑھ کر اسے "حارہ شریف" جیسا مہذب و متبرک لقب عطا کر دیا۔ گوکہ ریاض میں برصغیر کے باشندگان کی اکثریت ایک اور محلہ "بطحاء" میں بھی قیام پذیر ہے مگر جو مقبولیت "حارہ شریف" کو حاصل ہوئی اس درجہ تک کوئی دوسرا محلہ شاید ہی پہنچ پایا ہو۔ ایسا ہی شرف، جدہ میں بلد، باب مکہ، باب شریف، عزیزیہ جیسے محلوں کے مقابل "شرفیہ" کو حاصل رہا ہے۔
</p><br />
<p>
یہاں ذکر ہے عمرہ و زیارتِ مدینہ والی پرائیویٹ ٹورسٹ بسوں کا۔
<br />
کچھ مخیر سعودی اداروں و اشخاص کی جانب سے زائرین کو پرائیویٹ ٹورسٹ ایجنسیوں کے ذریعے انتہائی ارزاں قیمت میں سفر و قیام کی سہولت فراہم کی جاتی رہی ہے۔ شاید یہ سلسلہ اب بھی جاری و ساری ہو۔ راقم الحروف کا ورود مسعود ریاض میں 1995 کے اواخر میں ہوا تھا۔ اس وقت ان بسوں کا کرایہ محض 50 ریال تھا یعنی ریاض-مکہ-ریاض سفر مع ہوٹل میں چند گھنٹے کا قیام۔ جمعرات کو بعد عصر چار اور پانچ بجے کے درمیان "حارہ شریف" سے بس نکلتی، جمعہ فجر کے وقت مکہ پہنچتی اور عصر سے قبل ڈھائی تین بجے دوپہر کے قریب مکہ سے روانہ ہو کر رات ایک یا دو بجے تک واپس حارہ شریف پہنچ جاتی۔ یعنی ایک بندہ محض 50 ریال میں 'عمرہ' جیسی عبادت سے مستفید ہو جاتا۔ اور اگر زیارتِ مدینہ کا بھی قصد ہو تو بس بدھ کی شام بعد عصر "حارہ شریف" سے نکلتی، جمعرات فجر کے وقت مدینہ پہنچاتی اور مدینہ سے بعد ظہر جو نکلتی تو عشاء سے پہلے یا بعد مکہ پہنچا دیتی۔ ہوٹل میں ایک رات قیام کی بھی ٹورسٹ ایجنسی کی طرف سے سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ اور واپسی وہی جمعہ کی نماز کے بعد۔
<br />
تو حارہ شریف کے دو یا تین کھلے میدانوں میں سینکڑوں بسوں اور زائرین کا مجمع ہر ہفتہ کچھ اوقات جمع ہوتا رہا ہے۔ مکہ/مدینہ کو روانگی کے موقع پر، بدھ اور جمعرات کو بعد عصر کے وقت اور ہفتہ کی علی الصبح (یعنی جمعہ کی رات) ایک سے تین بجے کے دوران ریاض واپسی کے موقع پر۔
<br />
برصغیر کے سینکڑوں گھرانوں کے لیے یہ سفر گویا ٹو اِن وَن ثابت ہوتا، ایک شہر سے دوسرے شہر کی تفریح اور عمرہ و زیارت سے استفادہ۔ اس سفر میں ہر عمر کے انسان کی شمولیت ہوتی، گود کا نومولود بھی اور اسی نوے سال کے بزرگ بھی۔ جو نورانی ذوق و شوق بچوں بڑوں بوڑھوں کے چہروں سے جھلکتا دیکھا ہے وہ یادداشت کے نہاں خانوں میں اب بھی تازہ ہے۔
</p><br />
<p>
بس کے سفر کا یہ کرایہ وقت کے ساتھ ساتھ تھوڑا بہت جو بڑھا بھی تو زیادہ سے زیادہ 150 ریال تک پہنچا۔ یہ میں اپنے آخری عمرہ/زیارت سفر کا ذکر کر رہا ہوں یعنی فروری/مارچ 2016ء کا۔ ہرچند کہ سعودی قومی ٹرانسپورٹ سروس (سابتکو) کی بسیں بھی نہایت آرام دہ اور محفوظ سفر کی ضامن ہوتی ہیں۔ مگر ان کا یکطرفہ کرایہ ہی کوئی 150 ریال ہوتا رہا ہے اور پھر مکہ/مدینہ میں قیام کی کوئی سہولت بھی فراہم نہیں کی جاتی۔ اسی طرح ریاض سے مکہ/مدینہ فلائیٹ کا یکطرفہ کرایہ بھی اُس دور (2010 سے 2016) میں 200 سے 300 ریال رہا ہے۔
</p>
<table align="center" cellpadding="0" cellspacing="0" class="tr-caption-container" style="margin-left: auto; margin-right: auto;"><tbody><tr><td style="text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi-i3i4IG8V7cnud2xnk-vOlmDjyyXWdLyiRTO3TZhHCkR-oAS1uZazv_O-De1PhVIf4lBLe2MW-sa6Dl0H8hUnSdiwnEnPF5ODLNo8fUHf3ZMTgoEVw3WToZfovOwyoY-HXEDoPCfWvFcQMGDncm4i_rjErjpelXfdIhAyuTM5RXXFwW78mqSLTVS6FLyf/s2048/allah-names-exhibition-at-madina.jpg" style="display: block; margin-left: auto; margin-right: auto; padding: 1em 0px; text-align: center;"><img alt="Allah names exhibition at Madina" border="0" data-original-height="1152" data-original-width="2048" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi-i3i4IG8V7cnud2xnk-vOlmDjyyXWdLyiRTO3TZhHCkR-oAS1uZazv_O-De1PhVIf4lBLe2MW-sa6Dl0H8hUnSdiwnEnPF5ODLNo8fUHf3ZMTgoEVw3WToZfovOwyoY-HXEDoPCfWvFcQMGDncm4i_rjErjpelXfdIhAyuTM5RXXFwW78mqSLTVS6FLyf/s600/allah-names-exhibition-at-madina.jpg" width="600" /></a></td></tr><tr><td class="tr-caption" style="text-align: center;">اسمائے الحسنیٰ نمائش گاہ (مدینہ منورہ)</td></tr></tbody></table>
<p>
مجھے یاد نہیں کہ 2006ء سے 2016ء کے درمیان کتنی دفعہ اہل و عیال کے ہمراہ ان پرائیویٹ عمرہ بسوں کے ذریعے عمرہ کی سعادت حاصل کی۔ البتہ مدینہ کی زیارت صرف تین بار ممکن ہو سکی۔ مجھ سمیت سینکڑوں برصغیری گھرانوں کے لیے واقعی یہ ایک نادر تجربہ رہا ہے کہ گیارہ/بارہ گھنٹے کا طویل بس سفر جاتے اور آتے وقت طے کیا جائے۔ بچوں اور بزرگوں کا اس سفر کے دوران خیال رکھنا بھی ایک اہم ذمہ داری ہوا کرتی۔ رمضان کے دوران تو بڑا ہی روح پرور ماحول قائم ہو جاتا۔۔۔ بچوں والے گھرانوں کی پوری کوشش یہی ہوتی کہ رمضان کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں عمرہ کی فراغت حاصل کی جائے۔ جبکہ متعدد بیچلرز یا میاں/بیوی جوڑے ایامِ اعتکاف کی مناسبت سے آخری عشرے کو ترجیح دیتے۔ کچھ فیملیز تو پانچ روزہ ایسے عمرہ پیکیج سے فائدہ اٹھایا کرتے جو عید سے دو یا تین دن قبل مکہ/مدینہ کو بس لے جاتی اور عید کے دوسرے دن واپس ریاض لے آتی۔ مجھے اپنا ایک پاکستانی دوست ایسا بھی یاد ہے جس نے ایک دفعہ پتا نہیں اپنی کس نیت کو پورا کرنے رمضان کا ہر جمعہ مکہ میں عمرہ کر کے یوں گزارا تھا کہ ۔۔۔۔
</p><br />
<p>
بھٹکے ہوئے آہُو کو پھر سُوئے حرم لے چل
<br />
پھر شوقِ تماشا دے، پھر ذوقِ تقاضا دے
<br />
جو قلب کو گرما دے، جو رُوح کو تڑپا دے
<br />
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اَوروں کو بھی دِکھلا دے!!
</p>
<div style="direction: ltr; text-align: left;">
Umrah or Madina visit by Saudi Private tour operator's lowest price ticket bus services
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5278377707373857368.post-4436252520770639652024-01-04T13:19:00.003+05:302024-01-04T13:19:38.930+05:30رؤف خلش کی 83 ویں سالگرہ اور چوتھی برسی پر<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjoZHTwIGuFwsCgE-wiDvWM-vy9ExFnlWb6EVzlHO9aItnyAUNw-1-I-3DejNah2JB9LvLW6f0ijliXAPkyNkEbPPnsDEQHFBhFXG74t7trqP5btsD3u5iri3De2VIbl_yTgy1hZ01rGLNV6sPv1HKPVwXIMi_hHfza2MMFGqbZS4h89JCgesSYztAVLcqh/s1600/raoof-khalish-all-letters.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="raoof-khalish-all-letters" border="0" data-original-height="325" data-original-width="621" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjoZHTwIGuFwsCgE-wiDvWM-vy9ExFnlWb6EVzlHO9aItnyAUNw-1-I-3DejNah2JB9LvLW6f0ijliXAPkyNkEbPPnsDEQHFBhFXG74t7trqP5btsD3u5iri3De2VIbl_yTgy1hZ01rGLNV6sPv1HKPVwXIMi_hHfza2MMFGqbZS4h89JCgesSYztAVLcqh/s1600/raoof-khalish-all-letters.jpg"/></a></div>
<p>
<b>© مکرم نیاز</b> (حیدرآباد)۔
<br />
4/جنوری/2024ء
<br />
*****
</p><br />
<p>
رؤف خلش کی 83 ویں سالگرہ اور چوتھی برسی پر۔۔۔ کچھ باتیں کچھ یادیں کچھ خطوط۔
</p><br />
<p>
والد ماجد رؤف خلش (پیدائش: 4/جنوری 1941، وفات: 2/جنوری 2020) کا سعودی عرب میں بغرض ملازمت تقریباً پندرہ سال (1981 تا 1996) قیام رہا۔۔۔ اور وہ سوشل میڈیا تو دور انٹرنیٹ اور موبائل فون کا بھی زمانہ نہیں تھا۔ روابط کے ذرائع خط و کتابت سے ہی زیادہ منسلک تھے۔ ایک باپ دور رہتے ہوئے بھی اپنی اولاد کی تربیت کا فریضہ کس طرح نبھا سکتا ہے، یہ چار خطوط اس کی ایک چھوٹی سی مثال سمجھے جا سکتے ہیں، جو ہم چار بہن/بھائی کو 1980ء کی دہائی کے مختلف ایام میں لکھے گئے تھے۔
<br />
اخلاقی و مذہبی اصلاح ہو یا زبان و ادب کی رہنمائی یا سماجی/سیاسی ماحول سے آگاہی دینا ہو۔۔۔ ایک قلمکار باپ کی ذمہ داری کو آج کی انسٹنٹ مسیجنگ جنریشن شاید ہی محسوس کر سکے۔ آج وقت بدل گیا ہے، تربیت کا معیار اور پیمانے بھی بدل گئے ہیں مگر طریقے چاہے مختلف ہوں، مثبت اقدار سے جڑے رہنا یا جوڑے رکھنا ہر دور کی نسل کا فریضہ ہے۔
<br />
سہی/صحیح یا صفحہ/ورق یا عصرانہ/عشائیہ جیسی زبان کی تصحیح یا سبحان اللہ، الحمدللہ، جزاک اللہ یا استغفراللہ جیسے کلمات کا ورد، یا زبان/بولی کی خصوصیات کا ذکر ہو یا اخلاقیات کی تعلیم ہو ۔۔۔ درج ذیل خطوط کے اقتباسات یقیناً ہر دور میں کارآمد سمجھے جا سکتے ہیں۔
</p><br />
<blockquote>
خط:1
</blockquote>
<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjqMrYc3o4gzspiiK93f_jdxA3if39mZW0Q_m90tmovZeuH_IeM1BoB5r4oVjYEuP978VSJTcqWM66oczoh2p32OnHctyowF_u6XauMcyc08MtwNM6NB79j30RUEgh6g1b1Foe4fAGFpUBqza8tAPE049ghPTkrqH2BLzIo413A9uMiaeG1P8qHUGrgvDca/s1500/raoofkhalish-ltr-1.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="" border="0" height="600" data-original-height="1500" data-original-width="1000" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjqMrYc3o4gzspiiK93f_jdxA3if39mZW0Q_m90tmovZeuH_IeM1BoB5r4oVjYEuP978VSJTcqWM66oczoh2p32OnHctyowF_u6XauMcyc08MtwNM6NB79j30RUEgh6g1b1Foe4fAGFpUBqza8tAPE049ghPTkrqH2BLzIo413A9uMiaeG1P8qHUGrgvDca/s600/raoofkhalish-ltr-1.jpg"/></a></div>
<p>
تم نے لکھا ہے ووٹ ڈالنے کی "سہی" عمر تو 18 سال ہی ہے۔ بالکل درست ہے۔ لیکن تم نے لفظ "صحیح" کو "سہی" لکھ دیا۔ "سہی" کا لفظ دوسرے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جیسے یوں ہی سہی، ایسا ہی سہی وغیرہ۔
<br />
تمہارا خیال بالکل درست ہے کہ مجلس مسلمانوں کی واحد پارٹی ہے جو اسمبلی میں مسلمانوں کے مسائل پیش کر سکتی ہے لیکن امیدواروں کے انتخاب میں احتیاط برتنا چاہیے تھا۔ "ک۔۔۔ س" کا ریکارڈ انتہائی خراب ہے۔ ہندو کو ہی لینا تھا تو کسی اچھے امیدوار کا انتخاب ہو سکتا تھا۔ ویسے آج کل سیاست بالکل گندی ہو گئی ہے، مرکز میں کانگریس نے اپنی چند کوتاہیوں کی بنا پر عوام کا اعتماد کھو دیا۔ جب کہ جنوبی ہند کی ریاستوں میں اس نے شاندار کامیابی حاصل کی۔
<br />
تم نے کالج کے پروگرام کے سلسلہ میں 4 بجے سے شام 5 بجے تک دئے جانے والے کھانے کو "عشائیہ" لکھا ہے۔ اس وقت "عصرانہ" دیا جاتا ہے، شاید عجلت میں لکھ دیا۔ ایک اور ہلکی سی بھول کی طرف توجہ دلاؤں، میں نے "قافلہ" کا ڈائری سے انتخاب کے عنوان سے "صفحہ" نہیں بلکہ ورق بھیجا ہے۔ صفحہ ایک طرف کے حصہ کو کہتے ہیں۔ انگریزی میں PAGE کہلاتا ہے۔ ورق دونوں طرف کے حصوں کو کہا جاتا ہے، انگریزی میں جسے LEAF کہا جاتا ہے۔
</p><br />
<blockquote>
خط:2
</blockquote>
<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjMY6ayfalTTrFymw_qwP_wbO02wH7NumJ8BG0XhsAEen-rvBSc1H7ha_ZQEtTGUMk2aJkRJwJGvXdXeSpdhXQj5PaclQltpF9IHrkG3R1gr1_N-uLEEkcm7sFa0Ygc-SyjqLk6cHXYVhxb2SIZofJAzkLUgM8Q3xnzjI5SxqiUJLFNxdMKG8noh-kgnQyP/s1300/raoofkhalish-ltr-2.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="" border="0" height="600" data-original-height="1300" data-original-width="1000" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjMY6ayfalTTrFymw_qwP_wbO02wH7NumJ8BG0XhsAEen-rvBSc1H7ha_ZQEtTGUMk2aJkRJwJGvXdXeSpdhXQj5PaclQltpF9IHrkG3R1gr1_N-uLEEkcm7sFa0Ygc-SyjqLk6cHXYVhxb2SIZofJAzkLUgM8Q3xnzjI5SxqiUJLFNxdMKG8noh-kgnQyP/s600/raoofkhalish-ltr-2.jpg"/></a></div>
<p>
۔۔۔ انسان کو نفسانی خواہشوں کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہیے بلکہ اس شیطان کو ہمیشہ قابو میں رکھنا چاہیے۔ یہی شیطان انسان کو غصہ میں لاتا ہے۔ بڑوں کی نافرمانی سکھاتا ہے۔ گناہ میں مبتلا کر دیتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک دوسری صلاحیت بھی دی ہے اور وہ ہے اللہ کی بڑائی کا اعتراف، یہ جو پانچ وقت ہم نماز پڑھتے ہیں وہ دراصل اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے ہیں۔ ہمیشہ سبحان اللہ، جزاک اللہ، استغفراللہ، جیسے کلمات اپنی زبان سے ادا کرتے رہنا چاہیے۔
<br />
سبحان اللہ کا مطلب ہے ساری پاکیزگیاں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں، جزاک اللہ کا مطلب ہے اللہ تمہارے ہر عمل کی جزا دے یعنی انعام دے۔ استغفراللہ کا مطلب ہے اللہ میری مغفرت کرے یعنی میرے گناہ معاف کرے۔
<br />
سبحان اللہ یا الحمدللہ اس وقت کہتے ہیں جب کوئی اچھی چیز نظر آئے یا محسوس ہو۔ جزاک اللہ اس وقت کہتے ہیں جب کوئی تمہارے ساتھ نیک سلوک کرے۔ استغفراللہ اس وقت کہتے ہیں جب کوئی غلطی ہو جائے، کوئی بری چیز نظر آئے یا جماہی آئے۔ جماہی آئے تو منہ پر ہاتھ رکھ لینا چاہیے کیونکہ شیطان منہ میں گھس جاتا ہے۔ چھینک اچھی علامت ہے الحمدللہ کہنا چاہیے۔
</p><br />
<blockquote>
خط:3
</blockquote>
<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhsDWHs120E-POxlEbM4V4AqfZmHOqL1AqQsafhPMkJGkh8sYVAcabaLYNy84BQoYQaU-e87rE07EckyjcbivjWwwtPpOIUOVj7HEvSZdRzO6vT8fHjUuG0vbat9i0lIiItlaVP3gQxJRO2z2Tj2oNhdjTK6Ynkaz7BEBqE3E7WWJb90FN4mDeyHAKudpUY/s1000/raoofkhalish-ltr-3.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="" border="0" width="600" data-original-height="495" data-original-width="1000" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhsDWHs120E-POxlEbM4V4AqfZmHOqL1AqQsafhPMkJGkh8sYVAcabaLYNy84BQoYQaU-e87rE07EckyjcbivjWwwtPpOIUOVj7HEvSZdRzO6vT8fHjUuG0vbat9i0lIiItlaVP3gQxJRO2z2Tj2oNhdjTK6Ynkaz7BEBqE3E7WWJb90FN4mDeyHAKudpUY/s600/raoofkhalish-ltr-3.jpg"/></a></div>
<p>
اس میں شک نہیں کہ "السلام علیکم" کے معنی ہیں تم تمام کو سلام اور "السلام علیک" کے معنی ہیں تجھ ایک کو سلام لیکن عموماً ایک آدمی کو بھی "السلام علیکم" ہی کہا جاتا ہے۔ یہاں سعودی عرب میں بھی عرب لوگ یہی کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نہ صرف تجھ ایک کو سلام بلکہ تیرے تمام متعلقین کو سلام یا ادب و عزت و احترام کے طور پر ہر شخص کو عرفِ عام میں "السلام علیکم" ہی کہا جاتا ہے۔ جس کے معنی یہ بھی نکلتے ہیں کہ آپ کی خدمت میں سلام۔ لہذا ایک فرد ہو یا بہت سے لوگ ہوں "السلام علیکم" کہنا صحیح و درست ہے۔
<br />
قواعد کے اعتبار سے جو معنی نکلتے ہیں، ضروری نہیں کہ بول چال یا لکھتے پڑھتے وقت بھی وہی الفاظ استعمال کیے جائیں۔ یہ ہر زبان کی خصوصیت ہے۔ اس لیے وہی زبان استعمال میں رہتی ہے جسے اس زبان کے بولنے والے رواج دینے لگیں۔ ویسے مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ تم نے زبانِ دوم کے طور پر عربی لی۔ یہ یقیناً بہت اچھی، میٹھی اور سائنٹفک زبان ہے۔ صرف ایک ایک حرف بدلنے سے فعل کی ضمیر بدلتی ہے۔ مثال کے طور پر "ی" لگانے سے میرے کے معنی ہو جاتے ہیں۔ یعنی رب کو ربّی کرو مطلب ہوا میرا رب۔ "ک" لگانے سے تیرے کے معنی ہوتے ہیں۔ یعنی رب کو ربّک کرو مطلب ہوا تیرا رب۔ بہرحال عربی کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ اسی زبان میں قرآن نازل ہوا۔ یعنی اللہ نے اپنے رسول پر عربی میں کلام کیا ہے۔
</p><br />
<blockquote>
خط:4
</blockquote>
<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiXk7jD7V9bZ9p4jZ1Z4Ox6Tqg1sfTWMHA1prFyskHE_mCQbPDh9nvadBW3aYahGy-VMTybYBdBJDMtbOZkBk30cH0VSoUOwybtRaUgqfzZ30iZXoTuIa5Q1hoX_Zlo5XA9AuaBY7dRSGeRkBEOS0iNV1l6UqTnhQ2SkPK-JyuuqWgZ7i_eTyihtAhrssjm/s1000/raoofkhalish-ltr-4.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="" border="0" width="600" data-original-height="640" data-original-width="1000" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiXk7jD7V9bZ9p4jZ1Z4Ox6Tqg1sfTWMHA1prFyskHE_mCQbPDh9nvadBW3aYahGy-VMTybYBdBJDMtbOZkBk30cH0VSoUOwybtRaUgqfzZ30iZXoTuIa5Q1hoX_Zlo5XA9AuaBY7dRSGeRkBEOS0iNV1l6UqTnhQ2SkPK-JyuuqWgZ7i_eTyihtAhrssjm/s600/raoofkhalish-ltr-4.jpg"/></a></div>
<p>
یہ پڑھ کر بہت افسوس ہوا کہ آپی تم سے لڑتی ہیں اور ایک دن تم سے بولیں کہ "تم پاس مت ہو"۔ ہم اس رسول کے نام لیوا ہیں جس نے گالیاں کھا کر لوگوں کو دعائیں دی ہیں۔ انسان غصہ میں یا اپنی ذات کی خاطر دوسروں کو یا اپنوں کو بددعا دے، خدا اس کو بالکل پسند نہیں کرتا۔ خود کو اگر دوسرے کی کوئی چیز پسند نہ آئے تو اس کو جتانا چاہیے، نصیحت کرنا چاہیے، نہ مانے تو یا خاموش ہو جانا چاہیے یا اتنا کہہ دینا کافی ہے: "اللہ تجھے نیک ہدایت دے!" بددعا کبھی نہ دینا چاہیے چاہے اپنا دشمن ہی کیوں نہ ہو۔ یہی ہے وہ اخلاق کا معیار جو ہمیں اسلام سکھاتا ہے۔
</p><br />
<div style="direction: ltr; text-align: left;">
Few letters of Raoof Khalish on his 83rd birthday and 4th death anniversary.
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5278377707373857368.post-76367911513875849652023-12-30T15:21:00.006+05:302023-12-31T19:17:34.598+05:30ممتاز اردو بلاگر محمد وارث کا انتقال پرملال<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh0qME1xgqMFcBgSojihsiEaE3ATVw9XOgJBV2sxeQrn-7lDQ17FgvRD_p0jZMPy8IBJDgYSHquzn_Vszd-N5e3iuDQTaisbhDypCEHaMp_i2OvNhTcEPBmF7abQk2Trz2lMiDDDyD2UaDPTsdn6eQJt_qHaNkWi2gFDl_ICeZKFx0VGpm7KHWGkdtnYhNV/s1280/m-waris.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="Muhammad Waris" border="0" width="600" data-original-height="720" data-original-width="1280" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh0qME1xgqMFcBgSojihsiEaE3ATVw9XOgJBV2sxeQrn-7lDQ17FgvRD_p0jZMPy8IBJDgYSHquzn_Vszd-N5e3iuDQTaisbhDypCEHaMp_i2OvNhTcEPBmF7abQk2Trz2lMiDDDyD2UaDPTsdn6eQJt_qHaNkWi2gFDl_ICeZKFx0VGpm7KHWGkdtnYhNV/s600/m-waris.jpg"/></a></div>
<p>
<b>© مکرم نیاز</b> (حیدرآباد)۔
<br />
30/دسمبر/2023ء
<br />
*****
</p><br />
<p>
سوچا ہے اسد اب میں کسی سے نہ ملوں گا
<br />
کچھ دوست و عدو کی مجھے پہچان نہیں ہے
<br />
(محمد وارث اسدؔ)
</p><br />
<p>
اور یوں محمد وارث اب کسی سے نہ ملنے کی خاطر راہئ ملکِ عدم ہو گئے۔
<br />
انا للہ وانا الیہ راجعون
</p><br />
<blockquote>
محمد وارث اسدؔ
<br />
پیدائش: 27/ دسمبر 1972ء (سیالکوٹ)
<br />
وفات: 15/ دسمبر 2023ء (سیالکوٹ)
</blockquote>
<br />
<p>
دیکھتے ہی دیکھتے میری نظروں کے سامنے یکے بعد دیگرے وہ اردو دوست وداع ہوتے چلے گئے کہ جن کے ساتھ اردو سائبر دنیا کی زریں و خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔ ڈاکٹر عنیقہ ناز (کیمسٹری پی۔ایچ۔ڈی اور اردو کی ممتاز بلاگر)، عبدالرحمان ناصر (اردو مجلس فورم کے جواں سال بانی و سرپرستِ اعلیٰ)، اکرام ناصر (اردو فورمز کی دنیا کے فعال نوجوان مراسلہ نگار و شاعر) کے بعد اب محمد وارث بھی دنیائے فانی سے وداع ہو گئے۔۔۔ كُلُّ مَنْ عَلَیْهَا فَانٍ
</p><br />
<p>
سوشل میڈیا کا دور تو بس کوئی دس بارہ سال سے زیادہ پرانا نہیں جبکہ سن 2002ء سے انٹرنیٹ پر جب اردو یونیکوڈ کا آغاز ہوا تھا تب اکا دکا اردو ڈسکشن بورڈز (اردو فورمز) تصویر والی اردو سے تحریری اردو (یعنی یونیکوڈ اردو) میں تبدیل ہونا شروع ہوئے تھے جس کی شروعات "اردو محفل فورم" سے ہوئی۔ بعد ازاں تقریباً تمام ہی اردو فورمز تحریری اردو (یونیکوڈ اردو) میں تبدیل ہو گئے۔ اور اسی کے ساتھ اردو بلاگنگ کا آغاز ہوا جو 2008ء میں عروج کو پہنچا کہ متعدد معیاری لکھنے والے شعرا، ادیب و قلمکاروں نے گوگل کے بلاگنگ پلاٹ فارم 'بلاگ اسپاٹ' پر اپنا اپنا بلاگ تعمیر کیا اور اپنی منفرد تخلیقات کے سہارے سائبر دنیا کے سرچ انجنز میں اردو مواد کی مسلسل شمولیت کا فریضہ نبھانے لگے۔ راقم الحروف خود بھی کچھ مختلف قلمی ناموں سے اردو فورمز اور اردو بلاگنگ کی دنیا میں سن 2002ء سے ہی اپنی بھرپور شرکت درج کرتا رہا ہے۔
</p><br />
<p>
محمد وارث سے یوں تو اردو محفل اور چند دیگر اردو فورمز کے ذریعے واقفیت ہوئی تھی مگر جب انہوں نے اپنا ذاتی اردو بلاگ شروع کیا تب ان کا یہ بلاگ "<a href="https://muhammad-waris.blogspot.com/" target="_blank">صریرِ خامۂ وارث</a>" بھی میرے ان چند منتخب بلاگوں کی فہرست میں شامل ہوا جن کا بلاناغہ مطالعہ میں اُس دور میں اپنا فریضہ سمجھتا تھا۔ ان کے بلاگ پر پہلی تحریر "دنیا کا پہلا فلسفی" کے عنوان سے ماہ مئی 2008ء میں شائع ہوئی تھی اور بلاگ کی آخری تحریر 9/ دسمبر 2020ء کو "صائب تبریزی کے کچھ متفرق اشعار" کے عنوان سے شائع ہوئی۔
<br />
محمد وارث ہر چند کہ مجھ سے چار برس کم عمر تھے، مگر ان کے موضوعات کا انتخاب اور ان کی تحریر کی پختگی نے ہمیشہ مجھ پر ان کا ایک خاص قسم کا علمی رعب طاری کر رکھا تھا۔ عمدہ اور اعلیٰ پائے کی شاعری سے میرا خصوصی شغف والد مرحوم کے حوالے سے میری جین میں شامل سہی مگر شاعری کی تکنیکی باریکیوں سے میں ہمیشہ خائف ہی رہا ہوں۔ جبکہ محمد وارث نہ صرف علمِ عروض اور تقطیع کے ماہر تھے بلکہ وہ فارسی شاعری میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے اور اسی باعث انہوں نے فارسی کلام کے متعدد اردو تراجم بھی اپنے بلاگ پر پیش کیے ہیں۔
</p><br />
<p>
چند برس قبل فیس بک پر جب وہ نظر آئے تو انہیں اپنی فرینڈز لسٹ میں شامل کرنے کا شرف حاصل کیا۔ ان-بکس میں مختصر سی گفتگو اردو محفل فورم کے حوالے سے ہوئی تو تھی مگر کبھی تفصیلی گفتگو کا موقع نہ مل سکا، جس کا افسوس مجھے تاعمر رہے گا۔
<br />
میرا دکھ تو خیر ایک ادب دوست کی حیثیت سے ہے لیکن ان کے حقیقی وارثین (اہلیہ اور دو فرزندان، ایک دختر) کے درد و غم کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اللہ کریم انہیں صبرِ جمیل سے نوازے کہ اتنی دور بیٹھ کر ہم جیسے لوگ صرف دعا ہی دے سکتے ہیں۔
</p><br />
<p>
مجھے ان کا ایک انشائیہ اکثر و بیشتر یاد آتا رہا ہے، انہیں خراجِ عقیدت کے بطور وہی انشائیہ (میں نے اپنی پہلی کتاب خریدی)، یہاں ان کے بلاگ کے حوالے سے پیش ہے۔
<br />
مگر اس سے قبل انہی کے بلاگ کے حوالے سے محمد وارث کا مختصر تعارف پیش ہے:
</p><br />
<blockquote>
***
<br />
جائے پیدائش: سیالکوٹ
<br />
جائے رہائش: سیالکوٹ
<br />
تعلیم: ماسٹرز ان بزنس ایڈمینسٹریش (ایم بی اے)، 1996، لاہور۔ بی ایس سی، مرے کالج سیالکوٹ، 1994ء
<br />
پیشہ: پرائیوٹ نوکری (جنرل مینیجر ایکسپورٹس امپورٹس)۔
<br />
بچے:
<br />
محمد حسن وارث (تاریخ پیدائش: 24 اگست 2001ء)۔
<br />
محمد احسن وارث (تاریخ پیدائش: 30 اکتوبر 2003ء)۔
<br />
فاطمہ وارث (تاریخ پیدائش: 22 اکتوبر 2006ء)۔
<br />
___
<br />
مشاغل: مطالعہ، تحریر، تصنیف، موسیقی
<br />
پسندیدہ شاعر: فیضی، بیدل، غالب، اقبال
<br />
پسندیدہ مصنفین: برٹرنڈ رسل، ول ڈیورنٹ، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا شبلی نعمانی، مشتاق احمد یوسفی
<br />
پسندیدہ گلوکاران: استاد فتح علی خان (پٹیالہ گھرانہ)، استاد نصرت فتح علی خان قوال، غلام علی، نورجہاں، مناڈے، ہیمنت کمار
<br />
***
</blockquote>
<br />
<blockquote>
انشائیہ: <a href="https://muhammad-waris.blogspot.com/2008/06/blog-post_02.html" target="_blank">(تحریر کردہ: 2/ جون 2008ء) از: محمد وارث</a>
<br />
"میں نے اپنی پہلی کتاب خریدی"
</blockquote>
<br />
<p>
وہ بھی ایک عجیب دن تھا۔ اسلامیہ کالج سیالکوٹ سے گھر واپس آتے ہوئے نہ جانے جی میں کیا آئی کہ میں نے اپنی سائیکل کا رُخ اردو بازار کی طرف موڑ لیا۔
<br />
ان دنوں میں گیارھویں جماعت میں پڑھتا تھا اور اپنے کالج کی لائبریری جب پہلی بار دیکھی تو دیکھتا ہی رہ گیا کہ دنیا میں ایک ہی جگہ اتنی کتابیں بھی ہوتی ہیں، ناول اور کہانیاں تو خیر میں بچپن سے ہی پڑھا کرتا تھا لیکن اردو ادب سے صحیح شناسائی کالج میں پہنچ کر ہوئی اور وہ بھی اتفاقاً۔ ہوا کچھ یوں کہ میرے ایک اسکول کے دوست، جو کالج میں بھی ساتھ ہی تھا، کی بڑی بہن کو کرنل محمد خان کی کتاب "بجنگ آمد" درکار تھی جو کہ انکے کالج کی لائبریری میں نہیں تھی، انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ اپنے کالج میں پتا کرو، اور بھائی صاحب نے مجھے پکڑا کہ چلو لائبریری، خیر وہ کتاب مل گئی لیکن واپس کرنے سے پہلے میں نے بھی پڑھ ڈالی۔
<br />
اس کتاب کا پڑھنا تھا کہ بس گویا دبستان کھل گیا، اسکے بعد میں نے پہلے کرنل محمد خان کی اور بعد میں شفیق الرحمن کی تمام کتب لائبریری سے نکلوا کر پڑھ ڈالیں۔
<br />
خیر اردو بازار میں داخل ہوا تو ایک بُک اسٹور پر رک گیا اور کتابیں دیکھنے لگا، ایک کتاب نظر آئی "شناخت پریڈ"، یہ ڈاکٹر یونس بٹ کی کتاب ہے اور شاید ان کی پہلی کتاب ہے، اسکی ورق گردانی کی تو اچھی لگی۔ میرے دل میں آیا کہ کتاب خریدنی چاہیئے لیکن ایک بڑا مسئلہ اسی وقت کھڑا ہو گیا، کتاب کی قیمت پچاس روپے تھی، سوچا پچاس لکھی ہوئی ہے شاید کم کر دیں، مالک سے بات کی، اس نے ایک دفعہ میرے چہرے کی طرف دیکھا اور دوسرے ہی لمحے کہا کہ اسکی قیمت کم نہیں ہو سکتی۔ مالک کی اس بے رحمانہ بات پر کیا کہہ سکتا تھا سوائے چپ رہنے کے۔ (خیر اب وہ مالک صاحب میرے اچھے خاصے شناسا ہیں اور تقریباً پچیس سے پنتیس فیصد رعایت بھی کر دیتے ہیں)۔
<br />
وہاں سے میں چلا تو آیا لیکن دل کتاب میں ہی اٹکا ہوا تھا، کافی دن اسی سوچ بچار میں گزارے کہ پچاس روپے کہاں سے لاؤں۔ ان دنوں میرا جیب خرچ پانچ روپے روزانہ تھا اور اگر دس دن پیسے جمع کرتا تو پچاس روپے جمع ہو جاتے اور کوشش بھی کی لیکن پیسے تھے کہ جمع ہو کر نہیں دیتے تھے (ویسے وہ اب بھی نہیں ہوتے)۔ بہت تیر مارا تو کچھ دنوں کے بعد میرے پاس پچیس روپے جمع ہو گئے لیکن اب بھی آدھی رقم کم تھی اور تمنا بیتاب۔
<br />
سوچ سوچ کر پاگل ہوتا رہا لیکن کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کتاب کیسے خریدوں کہ اللہ کی غیبی مدد پہنچ ہی گئی۔ ایک دن والد صاحب کی میز پر بیٹھا ہوا تھا کسی کام کیلیئے دراز کھولا تو اس میں ڈاک کے ٹکٹ نظر آئے اور ساتھ ہی ذہن میں ایک شیطانی منصوبہ، میں نے سوچا اگر میں کچھ ڈاک ٹکٹ چرا لوں اور انہیں بیچ ڈالوں تو رقم مل جائے گی۔
<br />
پہلے تو ضمیر نے ملامت کیا کہ چوری بری چیز ہے لیکن پھر حضرتِ شیطان فوراً مدد کو آئے کہ کونسے برے کام کیلیئے چوری کرنی ہے، آخر کتاب ہی تو خریدنی ہے۔ میں نے پچیس روپے کے ڈاک ٹکٹ نکال لیے لیکن پھر خیال آیا کہ اپنے جمع کیئے ہوئے پیسے ضرور خرچ کرنے ہیں، اگر چوری کرنی ہی ہے تو پورے پیسوں کی کروں۔
<br />
سو نہایت ایمانداری سے گن کر پورے پچاس روپوں کے ڈاک ٹکٹ اٹھا لیئے، اب انہیں بیچنے کا مسئلہ درپیش تھا، اس وقت تو درکنار مجھے ابھی تک بھی کسی بھی چیز کو بیچنے کا تجربہ نہیں ہے لیکن شوق کے ہاتھوں مجبور تھا سو اسی وقت تیز تیز سائیکل چلاتا ہوا ڈاکخانے پہنچا، مجھے امید تھی کہ مجھے فوراً ہی رقم مل جائے گی لیکن ڈاکخانے میں بیٹھے کلرک نے مجھے سختی سے ڈانٹ دیا کہ یہاں یہ کام نہیں ہوتا۔ وہاں سے نامراد لوٹا تو اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ اب کہاں جاؤں، کیا کروں۔
<br />
اسی سوچ بچار میں سائیکل چلا رہا تھا اور سڑک کے دونوں طرف دیکھتا بھی جا رہا تھا کہ کوئی ڈاکخانہ نظر آئے، بالآخر کچہری روڈ پر ایک چھوٹا سے ڈاکخانہ نظر آیا، وہاں گیا تو ایک جہاں دیدہ بلکہ گرم و سرد چشیدہ، گرگِ باراں دیدہ قسم کے بزرگ وہاں بیٹھے تھے، مدعا بیان کیا تو اپنی موٹے موٹے شیشوں والی عینک کے پیچھے سے مجھے گھورا اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ ٹھیک ہے لے لوں گا لیکن بیس روپے دونگا، میں نے التجا کی کہ جناب پچاس روپے کے ٹکٹ ہیں کچھ تو زیادہ عنایت فرمائیں، خیر وہ انکے پچیس روپے دینے پر راضی ہو گئے۔
<br />
ٹکٹیں چوری کرتے وقت میں تو یہی سمجھ رہا تھا کہ پچاس روپے پورے مل جائیں گے لیکن اس دن صحیح اندازہ ہوا کہ ہمارے معاشرے میں مجبوریاں کیسے خریدی اور بیچی جاتی ہیں۔ اب کل ملا کر میرے پاس پچاس روپے پورے تھے سو فوراً اردو بازار گیا اور چین اس وقت ملا جب "شناخت پریڈ" پڑھ ڈالی۔
<br />
یہ ایک معمولی واقعہ ہی سہی، لیکن آج بیس برس بعد بھی جب اس واقعے کے متعلق سوچتا ہوں تو افسوس بھی ہوتا ہے اور خوشی بھی، افسوس تو ظاہر ہے کہ چوری کا ہوتا ہے اور خوشی اس بات کی اس دن جب سائیکل کا رخ اردو بازار کی طرف موڑا تھا تو بس میری زندگی کا اپنا رخ بھی ایک ایسی جانب مڑ گیا کہ اس کے آگے ایک بحرِ بیکراں تھا، اسکے بعد کتابیں خریدنے اور پڑھنے کی ایسی عادت پڑی کہ یہ مشغلہ شاید اب موت ہی مجھ سے چھڑا سکے۔
</p><br />
<div style="direction: ltr; text-align: left;">
Urdu Blogger Muhammad Waris sad demise at the age of 51.
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5278377707373857368.post-40339764312773478342023-12-21T14:32:00.003+05:302023-12-21T15:25:58.273+05:30کنگ خان کی ڈنکی بمقابلہ پربھاس کی سالار<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhmhPKJTsBYYDv7X0ZJxb9Gyme9yLBd6YuuLRVRstysVcWwTwE-5e52oijhEe1D6ZF0yctuJPBPHw_YIuJxVOn02tPU6KzNOCg6nwJLHqclDNMycf9cT5N15GFW7B-Yka156mrYZtiVNZto-0sDmCOg_eiRN6EPQee9lg1seuiqlGdvIsTAODHbVUW0yTB9/s1280/dunki-salar%20copy-2.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="dunki-salaar" border="0" width="600" data-original-height="720" data-original-width="1280" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhmhPKJTsBYYDv7X0ZJxb9Gyme9yLBd6YuuLRVRstysVcWwTwE-5e52oijhEe1D6ZF0yctuJPBPHw_YIuJxVOn02tPU6KzNOCg6nwJLHqclDNMycf9cT5N15GFW7B-Yka156mrYZtiVNZto-0sDmCOg_eiRN6EPQee9lg1seuiqlGdvIsTAODHbVUW0yTB9/s600/dunki-salar%20copy-2.jpg"/></a></div>
<p>
<b>© مکرم نیاز</b> (حیدرآباد)۔
<br />
21/دسمبر/2023ء
<br />
*****
</p><br />
<p>
ڈنکی (شاہ رخ خان / ہندی)
<br />
بمقابلہ
<br />
سالار (پربھاس / تلگو، تمل، کنڑا، ملیالم اور ہندی)
</p><br />
<p>
پٹھان اور جوان کی شاندار کامیابی کے بعد رواں سال کے آخری مہینے میں ریلیز ہونے والی کنگ خان کی تیسری فلم "ڈنکی"، جس کا سب سے زیادہ انتظار کیا جا رہا تھا، آج جمعرات 21/دسمبر 2023ء کی صبح ہندوستان بھر کے سینما گھروں میں ریلیز ہو چکی ہے۔
<br />
فلم بینوں کا اشتیاق اور تجسس اس بات پر ہے کہ ایک ساتھ ریلیز ہونے والی دو معرکۃ الآرا فلموں میں سبقت کسے حاصل ہوگی؟ ایک طرف بین الاقوامی سطح پر مشہور بالی ووڈ بادشاہ شاہ رخ خان المعروف کنگ خان ہیں تو دوسری طرف ہندوستان کے اولین پین-انڈیا اسٹار پربھاس!
</p><br />
<p>
جنوبی ہند کے نامور سپراسٹار پربھاس نے اپنی فلموں باہوبلی حصہ اول (2015ء) اور باہوبلی حصہ دوم (2017ء) کے ذریعے ہندوستان بھر میں پہلے پین-انڈیا (PAN: presence across nation) اسٹار کا خطاب حاصل کیا تھا جو آج تک صرف انہی کے حصے میں ہے۔ انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے اپنی فلموں کے بل بوتے پر تلگو فلم انڈسٹری (ٹالی ووڈ) کے باکس آفس کلکشن کے درجہ کو بلند کرتے ہوئے اسے ہندوستان کی عظیم الشان اور دیوقامت ہندی فلم انڈسٹری (بالی ووڈ) کی مساوی سطح پر پہنچایا۔ ہر چند کہ ان کی پچھلی تین فلمیں کامیابی کی اس عظیم سطح کو چھو بھی نہ سکیں بلکہ ایک معنوں میں فلاپ/اوسط قرار پائیں، یعنی: ساہو (2019ء)، رادھے شیام (2022ء) اور ادی پرش (2023ء) ۔۔۔ اس کے باوجود پربھاس کے اسٹارڈم میں کوئی کمی نہیں آئی اور ان کے مداح اور عام فلم بین ان کی آنے والی تین فلموں کے شدت سے منتظر رہے ہیں: سالار (حصہ اول: 22/دسمبر 2023ء)، کالکی 2898 (2024ء) اور کن نپّا (2024ء)۔
</p><br />
<p>
جنوبی ہند و شمالی ہند کا روایتی نظریاتی و جغرافیائی اختلاف اس وقت ابھر کر سامنے آیا جب 'ڈنکی' اور 'سالار' کی سرکٹ وار ڈسٹری بیوشن میں ناانصافی کا پہلو محسوس کیا گیا۔ اس کی تفصیل سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ ہندوستانی فلموں کی ڈسٹری بیوشن کے سرکٹ (علاقے) کون کون سے ہیں؟ ایک دلچسپ بات یہ بھی یاد رہے کہ فلمی صنعت کے حوالے سے جب جنوبی ہند کے باشندگان شمال اور جنوب کی تقسیم کی بات کرتے ہیں تو "شمال" سے مراد جنوب کو چھوڑ کر باقی سارا ہندوستان لیا جاتا ہے!
</p><br />
<p>
شمالی ہند سرکٹس (Northern Territories)
<br />
1) بمبئی سرکٹ (ممبئی، گجرات، گوا، دادرا و نگر حویلی، مہارشٹر اور کرناٹک کے کچھ علاقے)
<br />
2) دہلی سرکٹ (دہلی، اترپردیش، اترکھنڈ)
<br />
3) مشرقی پنجاب سرکٹ (چنڈی گڑھ، ہریانہ، ہماچل پردیش، جموں و کشمیر، لداخ، پنجاب)
<br />
4) مشرقی سرکٹ (جزائر انڈمان نکوبار، اروناچل پردیش، مغربی بنگال، بہار، جھارکھنڈ، آسام و متصل شمال مشرقی ریاستیں مع بھوٹان اور نیپال)
<br />
5) سی پی برار سرکٹ (مہارشٹر کا ودربھ علاقہ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے جنوب و مشرقی علاقہ جات)
<br />
6) سنٹرل انڈیا سرکٹ (مدھیہ پردیش کے شمالی و مغربی علاقہ جات)
<br />
7) راجستھان سرکٹ (ریاست راجستھان)
</p><br />
<p>
جنوبی ہند سرکٹس (Southern Territories)
<br />
8 ) نظام سرکٹ (تلنگانہ اور مہارشٹر و کرناٹک کے وہ علاقے جو سابق ریاست حیدرآباد دکن میں شامل رہے)
<br />
9) آندھرا سرکٹ (ریاست آندھرا پردیش)
<br />
10) میسور سرکٹ (بنگلور اور کرناٹک کے وہ علاقے جو سابقہ ریاست میسور کا حصہ رہے)
<br />
11) تمل ناڈو سرکٹ (تمل ناڈو، کیرالہ، پڈوچیری اور جزائر لکشادیپ)۔
</p><br />
<p>
فلم 'سالار' کے فلم ساز اور انتظامیہ کا کہنا تھا کہ جب ہم سب ایک ہی ملک کی فلمی صنعت کا حصہ ہیں تو اسی بنا پر صحت مند مسابقت ہونی چاہیے۔ لیکن شمالی ہند کے ڈسٹری بیوشن سرکٹ نے حسبِ روایتِ سابقہ اپنی زبان (ہندی) اور اپنے اسٹار (کنگ خان) کو ترجیح دی اور 'ڈنکی' کے مقابلے میں سالار کو کم اسکرین مہیا کیے گئے۔ خیر یہ معاملہ کسی طرح سلجھا لیا گیا۔ لیکن خود جنوبی ہند کے علاقے تلنگانہ کے معروف ملٹی پلیکس پی۔وی۔آر، آئی نوکس اور معراج نے وعدہ کے باوجود انصاف نہیں کیا اور 'سالار' کے مقابلے میں 'ڈنکی' کے ہورڈنگس کو زیادہ نمایاں اور بڑے پیمانے پر پیش کیا۔ لہذا اس بددیانتی سے ناراض ہو کر 'سالار' فلمساز کی طرف سے فلم کا ڈب ہندی ورژن جنوبی ہند سرکٹس میں ریلیز نہیں کیا جا رہا ہے۔ جنوبی ہند کے چاروں سرکٹ میں اصل تلگو فلم کے ساتھ اس کے صرف تین ڈب ورژن (تمل، کنڑا اور ملیالم) جاری کیے جا رہے ہیں۔
</p><br />
<p>
دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ نظام سرکٹ کے مرکزی علاقے یعنی شہر حیدرآباد دکن (بشمول قرب و جوار علاقے) میں 'ڈنکی' تقریباً ساٹھ (60) سینماگھروں میں ریلیز کی جا رہی ہے۔ اور 'سالار' کو تقریباً پچپن (55) سینما ہال ملے ہیں۔ (واضح رہے کہ متذکرہ بالا وجوہات کے باعث 'سالار' کو پی۔وی۔آر، آئی نوکس اور معراج ملٹی پلیکسز کے کسی بھی سینما ہال میں ریلیز نہیں کیا گیا ہے)۔
<br />
لیکن ۔۔۔
<br />
کیا 'ڈنکی' جنوب میں بالعموم اور حیدرآباد (دکن) میں بالخصوص 'سالار' پر سبقت حاصل کر پائے گی؟ زمینی صورتحال کے مطابق یہ بہت مشکل امر لگتا ہے۔ کیونکہ 'ڈنکی' (ہندی) اور 'سالار' (تلگو) کی ایڈوانس بکنگ ایک ساتھ پیر کو شروع کی گئی تھی اور کل بدھ (20/دسمبر) کی رات تک 'سالار' کے پہلے دن کے تمام شوز تقریباً نوے (90) فیصد فل ہو چکے تھے جبکہ اس کے مقابلے میں 'ڈنکی' کے پہلے دن کے تمام شوز کی ایڈوانس بکنگ کل بدھ (20/دسمبر) کی رات تک محض پچاس ساٹھ فیصد کے درمیان ہی رہی۔
</p><br />
<p>
ایک فلم بین کے تبصرے کے مطابق:
<br />
ڈنکی کا سالار سے کوئی موازنہ نہیں بنتا کیونکہ ڈنکی صرف ایک ہی زبان میں ریلیز کی گئی ہے جبکہ سالار اصل تلگو زبان کے شانہ بہ شانہ تمل، کنڑا، ملیالم اور ہندی ڈب ورژن میں پیش کی جا رہی ہے!
<br />
جنوبی ہند میں 'ڈنکی' کے مقابلے میں سب سے زیادہ اسکرین 'سالار' نے ریاست کیرالہ میں حاصل کیے ہیں، کیرالہ کے ایک فلم بین کا کہنا ہے:
<br />
پورے جنوبی ہند میں 'سالار' بلاشبہ 'ڈنکی' پر سبقت حاصل کرے گی کیونکہ ڈنکی ایک جذباتی فیملی فلم ہے ونیز صرف ایک ہی زبان ہندی میں ریلیز ہو رہی ہے لہذا اس نے کم اسکرین حاصل کر پائے ہیں۔۔۔ لیکن ایک بات یاد رہے کہ دن کے خاتمے پر وہی فلم کامیاب قرار پائے گی جس کا کنٹنٹ مضبوط ہو!
</p><br />
<blockquote>
** ڈنکی
<br />
ریلیز تاریخ : جمعرات، 21/دسمبر 2023ء
<br />
پہلا شو : صبح 9 بجے
<br />
** سالار
<br />
ریلیز تاریخ : جمعہ، 22/دسمبر 2023ء
<br />
پہلا شو : علی الصبح 4 بجے
</blockquote>
<div style="direction: ltr; text-align: left;">
Shahrukh Khan's movie Dunki clashes with Prabha's Salaar at the end of year '2023
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5278377707373857368.post-91978420643630810842023-12-15T16:56:00.002+05:302023-12-15T17:39:28.688+05:30اشعر نجمی کے افسانے، اطہر فاروقی کے انٹرویوز اور کلیات افتخار عارف
<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiEN5If0-c8I0yzwhwxf4sqteVqyI3ZwiN58LBpIFLN7x44-cJZa-ksa3YewCVi6wY3aJy674iXbIv3dzS0s8qvzSE0PakQMDfhO9il-rJC-7U2PDMx6gKl9rfB6q9_uC43QpkZ1Ubc_JUSLr420ocQ80UBrD61AX5o4aHXCzyOz_gKEUk8tdiqfZfuWjC0/s1280/books-athar-najmi.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="books-athar-najmi" border="0" width="600" data-original-height="720" data-original-width="1280" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiEN5If0-c8I0yzwhwxf4sqteVqyI3ZwiN58LBpIFLN7x44-cJZa-ksa3YewCVi6wY3aJy674iXbIv3dzS0s8qvzSE0PakQMDfhO9il-rJC-7U2PDMx6gKl9rfB6q9_uC43QpkZ1Ubc_JUSLr420ocQ80UBrD61AX5o4aHXCzyOz_gKEUk8tdiqfZfuWjC0/s600/books-athar-najmi.jpg"/></a></div>
<p>
<b>© مکرم نیاز</b> (حیدرآباد)۔
<br />
15/دسمبر/2023ء
<br />
*****
</p><br />
<p>
عموماً میں کتابیں اپنی جیب سے خریدا کرتا ہوں لیکن آج اتفاق سے تین کتابیں بذریعہ ڈاک بطور تحفہ وصول ہوئیں۔ اشعر نجمی اور اطہر فاروقی صاحبان کا بہت شکریہ۔
</p><br />
<p>
اشعر نجمی کے افسانوں کا مجموعہ "گمشدہ خوابوں کی ایک رپورٹ" تو پچھلے کچھ دن سے سوشل میڈیا پر ہاٹ کیک بنا ہوا ہے۔ اس کا انتظار اس لیے بھی تھا کہ ناول نگار اور مدیر کے انداز و اسلوب سے تو واقفیت ہو چکی تھی اب انہیں بحیثیت افسانہ نگار پڑھنے کی خواہش رہی ہے۔ 208 صفحات کے اس مجموعے میں صرف سات افسانے ہیں اور شاید صرف دو کو چھوڑ کر باقی پانچ "طویل مختصر افسانہ" کی کٹیگری میں آتے ہیں۔ کتاب ملتے ہی میں نے پہلے افسانے پر نظریں دوڑانی شروع کر دیں۔ یہ پہلا افسانہ "گمشدہ خوابوں کی ایک رپورٹ" کشمیر کے حالات کی عکاسی کر رہا ہے۔ ناول نگار اشعر نجمی کے بےرحم و سفاک قلم کی کاٹ افسانے میں بھی محسوس ہوتی ہے، ذرا دیکھیے تو:
<br />
"۔۔۔ اذان، جمعہ کا خطبہ، شادی بیاہ میں ڈھولک کی تھاپ، کسی کو پکارتے ہوئے، موبائل پر گفتگو کرتے وقت، نیند میں بڑبڑاتے ہوئے، حتیٰ کی درد کی مقدار اور چیخ کی فریکوئنسی کے درمیان توازن برقرار رکھنا ضروری ہو گیا تھا ورنہ اصل خطرے کا اندازہ لگانے میں دشواری پیش آ سکتی تھی، مثلاً اگر لوڈ شیڈنگ کے وقت کوئی شخص راستے کے کھلے گٹر میں گر جاتا اور وہ فلک شگاف چیخ مارتا تو جواب میں سیکورٹی فورسز اس سمت اندھادھند گولیوں کی بارش کر سکتی تھی، نتیجتاً تاریکی میں چلتے ہوئے دو چار راہگیروں کی لاشیں بغیر چیخے گر سکتی تھیں۔ اس لیے ان دنوں کشمیر میں آوازوں کو کسی کنجوس بنیے کی طرح خرچ کرنے کی پریکٹس لازمی تھی۔"
<br />
امید ہے اِس ویک اینڈ پر افسانے کی مکمل قرات کا موقع ملے گا، کہ میری توقع کے عین مطابق ناول کی طرح اشعر نجمی کے افسانے بھی ذرا ٹھہر ٹھہر کے پڑھنے کا تقاضا کرتے ہیں۔
<br />
کتاب کا سرورق، طباعت اور کاغذ بلاشبہ شاندار اور لاجواب ہے۔ البتہ دونوں سائیڈ کے فلیپ پر موجود تحریر کو پڑھنے میں قدرے دشواری ہوتی ہے، شاید مناسب رنگ یا فونٹ استعمال نہیں کیا گیا ہے۔
</p><br />
<p>
اطہر فاروقی صاحب کی محبت و عنایت کا تہ دل سے ممنون ہوں۔ ایسی دو اہم کتابیں انہوں نے بھیجی ہیں جو میرے مطالعے کے ذوق و معیار کو یقیناً تسکین پہنچائیں گی۔
<br />
افتخار عارف جیسے لیجنڈ شاعر سے بھلا کون واقف نہیں۔ رسالہ سائز کے تقریباً 600 صفحات پر مشتمل افتخار عارف کی کلیات بعنوان "سخنِ افتخار" ان کے چار مجموعوں (مہرِ دونیم، حرفِ باریاب، جہانِ معلوم اور باغِ گلِ سرخ) کے کلام پر مشتمل ہے۔ انڈیا میں یہ کتاب انجمن ترقی اردو ہند کی جانب سے اسی سال شائع کی گئی ہے۔ قیمت 1500 روپے ہے۔
<br />
کتاب کے مقدمہ کے بطور اطہر فاروقی نے "اکیسویں صدی جس کی شاعری سے منسوب ہوگی" کے زیرعنوان چھ صفحات کی نہایت دلچسپ و معلوماتی تحریر کے آغاز میں ایک بڑے پتے کی (چبھتی ہوئی) بات کہی ہے:
<br />
"شاعری کا یونی ورسٹیوں میں برسرکار استادوں کے قلم سے تنقیدی تجزیہ ۔۔۔ اور شاعری سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اول الذکر ایک خاص قسم کی ذہنی بیماری ہے اور آخر الذکر آپ کے ذوقِ سلیم کے تربیت یافتہ ہونے کی پہچان۔"
<br />
آگے چل کر اطہر فاروقی نے یہ بھی بالکل بجا لکھا کہ ۔۔۔
<br />
"۔۔۔ برصغیر کو افتخار عارف کی شاعری کا بڑا حصہ اس زمانے سے یاد ہے جب سوشل میڈیا جیسا طاقتور میڈیم موجود نہیں تھا اور اشعار سینہ بہ سینہ یعنی ہوا کے دوش پر ایک کے بعد دوسرے دل کو زخمی کرنے نکلتے اور زبان کا حصہ بن جاتے تھے۔"
<br />
امید ہے کہ یہ کلیات طویل عرصہ تک بستر کے سرہانے کی رونق بنی رہے گی۔ اور امید ہے کہ شریکِ حیات محترمہ جو کہ شاعری کا عمدہ ذوق رکھتی ہیں، مگر کمبخت سوشل میڈیا ریلز کے وائرل بخار کا شکار ہو گئی ہیں، اسی کلیات کی بدولت دوبارہ مطالعہ کی جانب لوٹ آئیں گی۔
</p><br />
<p>
دوسری کتاب انٹرویوز پر مشتمل خود اطہر فاروقی کی تصنیف "گفتگو اُن کی" ہے جو 2006ء میں انجمن ترقی اردو ہند کی جانب سے ہی شائع ہوئی تھی۔ انٹرویو میرے مطالعہ کی ایک پسندیدہ صنف ہے۔ خود میں نے فلمی میگزین "شمع" میں شائع شدہ فلمی فنکاروں کے انٹرویوز کا ایک انتخاب ترتیب دے کر گذشتہ سال شائع کیا تھا اور انٹرویوز پر ہی مبنی دیگر دو کتابیں بھی زیرترتیب ہیں۔
<br />
اس کتاب کے سرسری مطالعے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ کوئی معمولی اور روایتی قسم کے انٹرویو نہیں ہیں۔ جن مقبول و معروف شخصیات کے انٹرویو لیے گئے، ان کے نام ہی اس بات کی گواہی ہیں کہ یہ کتاب ایک خاص کتاب ہے، مثلاً یہ چند نام: اخترالایمان، مجروح، شہریار، ظفر پیامی، بیکل اتساہی، احمد فراز، رشید حسن خان، شمس الرحمن فاروقی، خلیق انجم، رالف رسل، محمد علی صدیقی، قمر رئیس، جسٹس جاوید اقبال (فرزند علامہ اقبال)، دلیپ کمار، محمد علی (پاکستانی لیجنڈ اداکار)، میر خلیل الرحمن، مجیب شامی، مرارجی دیسائی، وی پی سنگھ، دلائی لامہ، محمد خان جونیجو ۔۔۔ وغیرہ۔
<br />
کتاب کے آخر میں صاحبِ کتاب پر ممتاز مزاح نگار مجتبیٰ حسین کا تحریرکردہ دلچسپ و یادگار خاکہ بعنوان "اطہر فاروقی : خوبصورت تضادوں کا آدمی" شامل ہے۔ مجھے کوئی دعویٰ تو نہیں لیکن ہمیشہ شبہ رہا کہ مجتبیٰ حسین کے تحریر کردہ تقریباً تمام خاکے میرے مطالعے سے گزر چکے ہیں لیکن یہ خاکہ دیکھ کر میرا شبہ واقعی شبہ لگتا ہے کہ یہ خاکہ میں نے اب تک نہیں پڑھا تھا۔ اس خاکے میں مجتبیٰ حسین نے ایک بات بڑی مزیدار لکھی ہے:
<br />
"۔۔۔ دلی ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے اردو حلقوں میں بھی تقریباً ہر آدمی اطہر فاروقی سے شدید نالاں، ان کے خون کا پیاسا تو ہے مگر اس مخالفت پر کبھی کسی سے کوئی تشفی بخش جواب کم سے کم میں نے نہیں سنا۔ اور تو اور اردو میں پائے جانے والے کمیونسٹ بھی اطہر فاروقی سے ناراض ہی رہتے ہیں، اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اطہر فاروقی جیسے راسخ العقیدہ مگر پڑھے لکھے مارکسٹ (Marxist) اردو معاشرے میں اب عجوبۂ روزگار ہیں۔"
<br />
بات مزیدار ہے اور سچ بھی کہ یہ غریب خود بھی کچھ بار اطہر فاروقی کی باتوں سے نالاں رہ چکا ہے۔
<br />
خیر امید ہے یہ انٹرویوز میری معلومات میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ اور امید ہے کرسمس کی چھٹیوں میں اس اہم کتاب سے استفادہ کا موقع ملے گا۔
</p>
<div style="direction: ltr; text-align: left;">
Ashar Najmi's collection of short stories, Ather Farouqui's collection of Interviews and Kulliyaat-e-Iftekhar Arif.
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5278377707373857368.post-83502996451565950572023-12-11T15:34:00.006+05:302023-12-11T16:49:32.091+05:30ریختہ ادارہ کی افادیت اور اس کے روشن پہلو<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhuYoW6AbFTD9LigExTfymjaUenc5UWAfKd34CNwTGi2BpUWLk2Ub-Dyv2_G2iHi8aUCUZ9WHqtolImE6J06tAtd3mnl54dbP8kQFStt6sFSK4mhYXJgHdTSIr9aT7qxXcB1b6YU3m19-wiBV09njFa24sWMDcoTGTD7i8yO0Cvupx27mYjZEZdqxP-Ijvo/s1600/rekhta-website-jashn.jpg" style="display: block; padding: 1em 0px; text-align: center;"><img alt="rekhta-website-jashn" border="0" data-original-height="720" data-original-width="1280" height="360" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhuYoW6AbFTD9LigExTfymjaUenc5UWAfKd34CNwTGi2BpUWLk2Ub-Dyv2_G2iHi8aUCUZ9WHqtolImE6J06tAtd3mnl54dbP8kQFStt6sFSK4mhYXJgHdTSIr9aT7qxXcB1b6YU3m19-wiBV09njFa24sWMDcoTGTD7i8yO0Cvupx27mYjZEZdqxP-Ijvo/w640-h360/rekhta-website-jashn.jpg" width="640" /></a></div>
<p>
<b>© مکرم نیاز</b> (حیدرآباد)۔
<br />
11/دسمبر/2023ء
<br />
*****
</p><br />
<p>
اگر ہم عصرِ حاضر کی اطلاعاتی و مواصلاتی ٹکنالوجی کی اہمیت و افادیت سے ذرہ برابر بھی واقفیت رکھتے ہیں تو بآسانی سمجھ سکیں گے کہ ریختہ ویب سائٹ / ایپ کے کیا کیا مثبت پہلو ہیں ۔۔۔ مکرم نیاز کی جانب سے چند ایک کی نشاندہی یہاں کی جا رہی ہے:
</p><br />
<p>
1) گوگل یا کسی بھی دوسرے سرچ انجن کے ذریعے کسی بھی رسمِ خط (اردو/رومن/دیوناگری) میں اردو کتاب یا رسالہ یا شاعر/ادیب/مصنف کا نام سرچ کیجیے، آپ کو مطلوبہ معلومات مل جائیں گی۔ اردو کے حوالے سے (میری معلومات کی حد تک) سوائے 'ریختہ' کے، ایسی کوئی دوسری ویب سائٹ انٹرنیٹ پر موجود نہیں ہے۔
</p><br />
<p>
2) اردو میں لکھنے والے تقریباً تمام مصنفین/مدیران/مرتبین/مولفین کی ایک جامع فہرست ملاحظہ کی جا سکتی ہے (تینوں رسمِ خط میں، یعنی: اردو، دیوناگری اور رومن)۔ اردو ویب سائٹس کی دنیا میں یہ رتبہ صرف 'ریختہ' کو حاصل ہے۔
</p><br />
<p>
3) اردو کے اہم، مقبول اور معروف و غیرمعروف ناشرین (طباعتی/اشاعتی ادارے) کی فہرست اور ان کی کتابیں، ذرا سی تلاش پر معلوم کی جا سکتی ہیں (مثلاً: مطبع نول کشور، ادارہ ادبیات اردو، شب خون، شمع گروپ، غالب اکیڈمی، ادارہ تحقیقات اسلامی، دہلی اردو اکادمی، آجکل، خدابخش لائبریری، منشی فیض علی، مطبع سلطانی، جامعہ عثمانیہ، نظام دکن پریس ۔۔۔ وغیرہ)
</p><br />
<p>
4) ریختہ ڈکشنری۔ ایک ایسی منفرد آن لائن لغت جس کے ذریعے لفظ کی تلاش تینوں رسم خط (اردو/رومن/دیوناگری) کے ذریعے ممکن ہے اور لفظ کے ہجے اور معانی اردو، انگریزی اور ہندی میں معلوم کیے جا سکتے ہیں۔
</p><br />
<p>
5) معروف و غیرمعروف شعراء کا اہم و منفرد کلام ۔۔۔ اس شکل میں کہ ۔۔۔ کسی بھی لفظ کو کلک کرکے اس کے معنی دیکھ لیجیے ۔۔۔ اور یہ کلام تینوں رسمِ خط میں (اردو/دیوناگری/رومن)۔ آج تک اس طرز کی سہولت کسی دوسری ویب سائٹ پر نہیں دی گئی ہے۔
</p><br />
<p>
6) ریختہ پر موجود کتابوں کی درجہ بندی موضوعات کے حساب سے مثلاً : فکشن، شاعری، ادب اطفال، تحقیق و تنقید، لسانیات، ترجمہ، سوانح، خودنوشت، مونوگراف، خاکے، تذکرہ، تاریخ، سائنس، صحافت، نصابی تعلیم، رسائل وغیرہ۔ کسی بھی موضوع کو کلک کریں اور اس موضوع کے تحت 'ریختہ' پر موجود تمام کتب ملاحظہ کر لیجیے۔
</p><br />
<p>
7) 'ریختہ' پر موجود کسی بھی کتاب کے مندرجات کا اندازہ اس میں موجود فہرست مضامین سے لگایا جا سکتا ہے، اور ہر کتاب کی فہرست مضامین کو یونیکوڈ میں فراہم کیا گیا ہے، جس کا دوسرا مطلب یہ کہ کتاب میں موجود مضامین کے عنوانات قابلِ تلاش (searchable content) ہیں۔
</p><br />
<p>
8) فرہنگ قافیہ : ریختہ پر دستیاب تقریباً 70 ہزار غزلوں کے وسیع مجموعہ سے حاصل شدہ دس ہزار سے زائد الفاظ پر مشتمل قافیہ ڈکشنری۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ تین رسم الخط میں کام کرتا ہے: اردو، دیوناگری اور رومن۔
</p><br />
<p>
9) ریختہ کا تقطیع پروجیکٹ : اردو رسم الخط یا دیوناگری میں کسی بھی شعر یا غزل کی بحر/وزن کو جانچنے کا مشین لرننگ پر مبنی ٹول۔
</p><br />
<p>
10) اردو میں شائع ہونے والے قدیم و جدید رسائل کی ایک بھرپور فہرست (حرف تہجی کے زیرشمار)، ماہنامہ، دو ماہی، سہ ماہی، ششماہی، سالانہ ۔۔۔ اور ان رسائل کے متعدد شمارے ریختہ پر ڈیجیٹل شکل (امیج فارمیٹ) میں، عام قاری کے مطالعہ کے لیے دستیاب۔
</p><br />
<p>
یہ مزید ایک اہم نکتہ <b><u>حافظ صفوان</u></b> کی جانب سے:
<br />
11) ریختہ ڈکشنری کی ساؤنڈ فائلیں
<br />
ریختہ ڈکشنری کے زیادہ تر سرلفظوں کو مشین جنریٹڈ آواز (یعنی ٹیکسٹ ٹو سپیچ) میں تبدیل کیا گیا ہے، لہٰذا اِس آٹومیٹک کنورشن میں غلطیاں موجود ہیں۔ غلطی کے لفظ سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ قدرتی زبان مشینی زبان نہیں ہوتی چنانچہ مشینی آواز قدرتی لہجہ نہیں ہوتا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہر لفظ کا تلفظ اپنا ہی ہوتا ہے جب کہ مشین جنریٹڈ آواز نرا دو جمع دو چار کی طرح کا مشینی آؤٹ پٹ ہوتا ہے۔ ریختہ کی ڈکشنری ٹیم نے اِس کا حل یہ کیا ہے کہ مشکل الفاظ (یعنی وہ الفاظ جن کی مشین جنریٹڈ آواز لفظ کے درست تلفظ سے بہت مختلف ہوتی ہے) کی ایک فہرست کو نکال کر باقی تمام الفاظ کی ساونڈ فائلز کو اپلوڈ کر دیا ہے۔ ڈکشنری ٹیم اِس فہرستِ الفاظ پر مسلسل کام کر رہی ہے۔ مشین جنریٹڈ ساونڈ کو سن کر غلط تلفظ کو حذف بھی کیا جا رہا ہے۔
</p><br />
<p>
یہ ایک اور اہم نکتہ <u><b>سالم سلیم</b></u> کی جانب سے:
<br />
12) ریختہ کے 'آموزش' نامی اردو سیکھیے پروگرام سے تقریباً ایک لاکھ لوگ اردو رسم الخط سیکھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر اردو OCR پر بھی کام چل رہا ہے۔
</p>
<br />
<p>
***
<br />
فوری طور پر ذہن میں در آئے 'ریختہ' ادارے کے فوائد کی یہ ایک مختصر سی جھلک ہے۔ وگرنہ کوئی مزید باریکی اور گہرائی سے تحقیق کرنا چاہیے تو ریختہ کی جانب سے اردو کی ترقی و ترویج کی خاطر اٹھائے جانے والے دیگر کئی مفید اقدامات بھی معلوم کیے جا سکتے ہیں۔ ہاں غیرجانبداری شرط ہے اور پہلے سے کسی قسم کے تحفظات کو ذہن میں نہ پالا جائے۔
<br />
جشنِ ریختہ میں اردو رسم الخط کا استعمال نہ کیا جانا یا اردو رسم خط کی اصل کتب کے بجائے دیوناگری خط میں ڈھیروں اردو کتب کو فروخت کے لیے پیش کرنا ۔۔۔ ہم تمام محبانِ اردو کے لیے کوفت کا باعث سہی، مگر اس معمولی سی بنیاد پر ان اندیشوں کا شور و غوٖغا مچانا کہ:
<br />
<b>"ریختہ دیوناگری رسمِ خط کو فروغ دے رہا ہے اور اردو رسم الخط کو ختم کرنے کے درپے ہے !"</b>
<br />
کسی بھی لحاظ سے منصفانہ نہیں کہلایا جا سکتا ہے!
<br />
ہاں، زیادہ سے زیادہ جو اعتراض کیا جا سکتا ہے اس کا اظہار ڈاکٹر ارشد عبدالحمید نے جو یوں کیا ہے، وہ بالکل بجا ہے:
</p>
<blockquote>
جس طرح ریختہ کی ویب سائٹ پر رومن اور ناگری کے ساتھ اردو رسم الخط بھی موجود ہے تو اسی طرح سہ روزہ میلے میں بھی اردو رسم الخط کو برابر کا حصہ ملنا چاہیے تھا۔ ریختہ جب اتنا اچھا کام کر رہا ہے تو اس ایک خدمت سے گریز کیوں ؟
</blockquote><br />
<p>
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کسی بھی زبان کا رسمِ خط کسی فرد یا ادارے کی جاگیر نہیں کہ جب چاہے آسمان پر پہنچا دے یا جب چاہے زمین سے ختم کر ڈالے۔ رسم خط کو بچانا اس زبان کے ہر نام لیوا کی انفرادی ذمہ داری ہے، دوسرے کو دوش دینے سے قبل ہمیں خود اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ یہ ذمہ داری ہم کس حد تک پوری کر رہے ہیں یا پوری کر رہے ہیں بھی یا نہیں؟!
</p>
<div style="direction: ltr; text-align: left;">
Efficacy of Rekhta organization and its radiant aspects.
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-5278377707373857368.post-77904548015172347592023-11-22T14:17:00.001+05:302023-11-22T14:17:28.096+05:30ریاست تلنگانہ میں 26 گورنمنٹ میڈیکل کالج<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj4G8EbJznF68xtptUlZSy67hW9vk2C_7Ie78NI6zj1Ixv42ecNWWqW6jlIwfyBYsuDZIXQyTJwnwa8IR9p7rsqxnf5pmjzGsHTvEg7uLTzYR9FGuLZdLknwm9tp7ZyC-1NlXY0STOUo0kamrcJPqNqjkJ11lSoa3PZdR7NzfMGjeZ5CUTmuaCN67c2XT85/s1280/telangana-medical-colleges.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="telangana-medical-colleges" border="0" width="600" data-original-height="720" data-original-width="1280" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj4G8EbJznF68xtptUlZSy67hW9vk2C_7Ie78NI6zj1Ixv42ecNWWqW6jlIwfyBYsuDZIXQyTJwnwa8IR9p7rsqxnf5pmjzGsHTvEg7uLTzYR9FGuLZdLknwm9tp7ZyC-1NlXY0STOUo0kamrcJPqNqjkJ11lSoa3PZdR7NzfMGjeZ5CUTmuaCN67c2XT85/s600/telangana-medical-colleges.jpg"/></a></div>
<p>
<b>© مکرم نیاز</b> (حیدرآباد)۔
<br />
22/نومبر/2023ء
<br />
*****
</p><br />
<p>
#تلنگانہ (ہندوستان کی 29 ویں ریاست) کا جنم، سابقہ متحدہ ریاست آندھرا پردیش کی تقسیم کے بعد 2/جون 2014ء کو عمل میں آیا۔ یہ <a href="https://www.taemeernews.com/2018/07/list-of-districts-in-telangana.html">ریاست اب 33 اضلاع</a> پر مشتمل ہے۔
<br />
جون 2014ء سے تاحال (نومبر 2023ء) سیاسی جماعت "بھارت راشٹر سمیتی" (سابقہ نام: تلنگانہ راشٹر سمیتی) ریاستی اقتدار پر فائز ہے جس کے بانی و صدر اور ریاست کے وزیر اعلیٰ کلواکنٹلا چندرشیکھر راؤ (المعروف: کے۔سی۔آر) ہیں۔
</p><br />
<p>
سال 2014ء تک تلنگانہ میں جملہ پانچ (5) سرکاری میڈیکل کالج قائم تھے۔ جو یہ رہے ہیں:
<br />
عثمانیہ میڈیکل کالج (1946ء ، حیدرآباد)، گاندھی میڈیکل کالج (1954ء، سکندرآباد)، کاکتیہ میڈیکل کالج (1959ء، ورنگل)، راجیو گاندھی انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (2008ء ، عادل آباد) اور گورنمنٹ میڈیکل کالج نظام آباد (2013ء، نظام آباد)۔
</p><br />
<p>
سال 2014ء سے 2022ء تک یعنی جملہ 8 برسوں کے دوران بی۔آر۔ایس حکومت کی جانب سے 12 عدد گورنمنٹ میڈیکل کالجوں کا قیام عمل میں آیا، جو یوں ہیں:
<br />
گ۔م۔ک = گورنمنٹ میڈیکل کالج
<br />
1) گمک محبوب نگر، 2) ای۔ایس۔آئی میڈیکل کالج حیدرآباد، 3) گمک سدی پیٹ، 4) گمک سوریہ پیٹ، 5) گمک نلگنڈہ، 6) گمک بھدادری کوتھاگڈم، 7) گمک محبوب آباد، 8) گمک ونپرتی، 9) گمک ناگرکرنول، 10) گمک سنگاریڈی، 11) گمک جگتیال، 12) گمک منچریال۔
</p><br />
<p>
ستمبر 2023ء میں وزیراعلیٰ تلنگانہ کے۔سی۔آر نے مزید نو (9) سرکاری میڈیکل کالجوں کا قیام عمل میں لایا اور 15/ستمبر 2023ء کو اس کی افتتاحی تقریب میں ویڈیو کانفرنس کے ذریعے کہا:
<br />
"ریاست تلنگانہ نے ملک میں طبی تعلیم کی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ سوائے تلنگانہ کے، ملک کی کسی اور ریاست نے ایک سال کے دوران اپنے ریاستی فنڈ سے اتنے میڈیکل کالج قائم نہیں کیے۔ توقع ہے کہ اگلے سال 2024ء میں حکومت کی جانب سے مزید 8 نئے میڈیکل کالج قائم کیے جائیں گے۔ اسی کے ساتھ تلنگانہ ملک کی ایسی اولین ریاست بن جائے گی جس کے ہر ضلع میں ایک میڈیکل کالج موجود ہوگا۔"
</p><br />
<p>
ان نو (9) میڈیکل کالجوں کے قیام کے ساتھ ہی ریاست تلنگانہ میں اب سرکاری میڈیکل کالجوں کی جملہ تعداد 26 ہو گئی ہے۔ یہ 9 میڈیکل کالج ہیں:
<br />
1) گمک جنگاؤں، 2) گمک جےشنکربھوپل پلی، 3) گمک کاماریڈی، 4) گمک کریم نگر، 5) گمک کھمم، 6) گمک کمارم بھیم آصف آباد، 7) گمک نرمل، 8) گمک راجنا سرسلہ، 9) گمک وقار آباد۔
</p><br />
<p>
واضح رہے کہ ان 26 میڈیکل کالجوں کے علاوہ ریاست <a href="https://www.taemeernews.com/2022/09/knruhs-neet-2022-telangana-mbbs-medical-seats-admissions.html">تلنگانہ میں جملہ 28 پرائیویٹ میڈیکل کالج</a> بھی موجود ہیں، جن میں سے چار مسلم اقلیتی میڈیکل کالج بالترتیب یوں ہیں: دکن کالج آف میڈیکل سائنس (حیدرآباد)، شاداں انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (حمایت ساگر روڈ، حیدرآباد)، ایان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس، (معین آباد، رنگا ریڈی) اور ڈاکٹر وی۔آر۔کے وومن میڈیکل کالج (عزیز نگر، رنگا ریڈی)۔
</p><br />
<p>
مرکزی وزارت صحت کے حوالے سے اخبار انڈین ایکسپریس کی اگست 2023ء کی ایک رپورٹ کے بموجب ہندوستان میں فی الحال 704 میڈیکل کالج قائم ہیں۔ سب سے زیادہ میڈیکل کالجوں والی ریاستوں کی فہرست کچھ یوں ہے:
<br />
تمل ناڈو : 74
<br />
کرناٹک : 70
<br />
اترپردیش : 68
</p>
<div style="direction: ltr; text-align: left;">
Government Medical Colleges in Telangana State.
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5278377707373857368.post-40097404012298686002023-10-12T14:46:00.002+05:302023-10-12T14:47:47.676+05:30دیوآنند صدی تقاریب اور تلنگانہ میں سیاسی انتخابات کی ہلچل<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhMUNXK1dpkWzya2hWAGRdGB7CVyOvVwAvTzpTpvq-qUfBytdAMlBtVZ3M_bUzXeC98q2vkD9Bjm75HtPGsn-6Nr61n1rQnHhmKarN0Hd-x75p7b9h1lqwfV_hq7Zakli9S_HfuQYlPzprux0WXkXgM2DEuFUsMlzIBvhnqgd5SMGs5NoLG09eNAutKZQ3X/s1280/dev-anand-ts-elections-2023.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="dev-anand-ts-elections-2023" border="0" width="600" data-original-height="720" data-original-width="1280" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhMUNXK1dpkWzya2hWAGRdGB7CVyOvVwAvTzpTpvq-qUfBytdAMlBtVZ3M_bUzXeC98q2vkD9Bjm75HtPGsn-6Nr61n1rQnHhmKarN0Hd-x75p7b9h1lqwfV_hq7Zakli9S_HfuQYlPzprux0WXkXgM2DEuFUsMlzIBvhnqgd5SMGs5NoLG09eNAutKZQ3X/s600/dev-anand-ts-elections-2023.jpg"/></a></div>
<p>
موسم بگڑنے والا ہے، سیٹ بیلٹ باندھ لیجیے، 30/نومبر کی تاریخ یاد رکھیے۔۔۔
<br />
سدابہار بالی ووڈ اداکار دیوآنند کی صدی تقاریب کی مناسبت سے سیاسی گلیاروں میں ان کے لاثانی نغمے گونج رہے ہیں۔۔۔
</p><br />
<p>
** گلابی کار (عوام کی طرف دیکھتے ہوئے۔۔۔)
<br />
مانا جناب نے پکارا نہیں
<br />
کیا میرا ساتھ بھی گوارا نہیں
<br />
ادھر دیکھیے نظر پھینکیے دل لگی نہ دل لگی نہ کیجیے صاحب
</p><br />
<p>
** سبز پتنگ (گلابی کار کو آنکھ مارتے ہوئے۔۔۔)
<br />
تیرے میرے سپنے، اب ایک رنگ ہیں
<br />
جہاں بھی لے جائیں راہیں، ہم سنگ ہیں
<br />
۔۔۔ او میرے جیون ساتھی
</p><br />
<p>
** سہ رنگا ہاتھ:
<br />
ہم ہیں راہی پیار کے ہم سے کچھ نہ بولیے
<br />
جو بھی پیار سے ملا ہم اسی کے ہو لیے
</p><br />
<p>
** گیروا کنول:
<br />
پل بھر کے لیے کوئی ہمیں پیار کر لے
<br />
جھوٹا ہی سہی
<br />
دو دن کے لیے کوئی اقرار کر لے
<br />
جھوٹا ہی سہی
<br />
<p style="text-align: left;">
<b>© مکرم نیاز</b> (حیدرآباد)۔
<br />
12/اکتوبر/2023ء
<br />
*****
</p>
<div style="direction: ltr; text-align: left;">
Celebrating Dev Anand centenary in TS elections 2023
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5278377707373857368.post-66128983706840857562023-09-28T20:30:00.003+05:302023-09-28T20:30:47.603+05:30میلاد النبی اور پبلک کلچر<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgZ_Wh8tthp_VWAih7-fv0YofJY2o9WYAYIm_6aQy4lpM9j8lPfdp2qPzNFY3RzJqL9IpIE3qyGh64E_dsm-ZhQqjrzzUF9NfLXUCn8r4xXf0L3GFjitbdqSzGCkSYK6APMcd1Zkb4phQV_mqatQG0kuCVMwr1JY-EMFcBaIw7pCMCjOfAUwgYJ6JOd_MDQ/s1700/miladun-nabi-and-public-culture.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="" border="0" height="600" data-original-height="1700" data-original-width="1000" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgZ_Wh8tthp_VWAih7-fv0YofJY2o9WYAYIm_6aQy4lpM9j8lPfdp2qPzNFY3RzJqL9IpIE3qyGh64E_dsm-ZhQqjrzzUF9NfLXUCn8r4xXf0L3GFjitbdqSzGCkSYK6APMcd1Zkb4phQV_mqatQG0kuCVMwr1JY-EMFcBaIw7pCMCjOfAUwgYJ6JOd_MDQ/s600/miladun-nabi-and-public-culture.jpg"/></a></div>
<p>
<b>© مکرم نیاز</b> (حیدرآباد)۔
<br />
28/ستمبر/2023ء
<br />
*****
</p><br />
<p>
دفتر سے رخصت ہوتے ہوئے میں نے اپنے نئے جونیئر کولیگ سے کہا:
<br />
Have a nice festival
<br />
(میری مراد گنیش وسرجن سے تھی)
<br />
اس نے مسکراتے ہوئے گرم جوشی سے ہاتھ ملا کر کہا: آپ کو بھی عید مبارک سر!
<br />
میں نے پوچھا: کون سی عید کی مبارک؟
<br />
جواب ملا: عید میلاد النبی کی سر۔ کل چھٹی بھی عید میلاد اور گنیش وسرجن کی ہے ناں۔
<br />
میں نے وضاحت کی کہ بھائی ہمارے مذہب میں صرف دو عید ہیں، رمضان کی ایک اور قربانی کی دوسری۔ باقی جو ہے وہ پبلک کلچر ہے، عید نہیں ہے۔
<br />
وہ: تو کیا آپ پبلک کلچر کو نہیں مانتے سر؟
<br />
میں: بھائی، اگر میں پبلک کلچر کو نہیں مانتا ہوتا تو آپ کو آپ کے فیسٹیول کی مبارکباد کیوں دیتا؟ دسہرہ، دیوالی یا کرسمس پر آپ کی مٹھائی یا آپ کی دعوت کیوں ایکسپٹ کرتا؟ کیوں کہ میرے مذہب میں تو یہ سب نہیں ہیں بلکہ ان کا تو refutation ہے۔ اور پھر میرے پڑوس سے میلاد کی بریانی آتی ہے تو وہ کیوں ایکسپٹ کر لیتا ہوں؟
<br />
وہ: پھر آپ کو پرابلم کیا ہے سر؟
<br />
میں: دیکھو بھائی، ہمارے پاس "عید" کا کانسپٹ پبلک کلچر سے نہیں، ریلیجن کی بیسک سے ہے۔ اور بیسک ہمارے پاس صرف دو ہیں، ایک خدا کی کتاب دوسرے لاسٹ پرافٹ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ارشادات۔ "عید" کا ڈکلیریشن صرف یہی سپریم اتھارٹی دے سکتی ہیں اور جنہوں نے ہمیں صاف صاف بتایا ہے کہ مسلمان کی عیدیں صرف دو ہیں: رمضان عید اور عیدِ قربان۔
<br />
وہ: پھر سر، پبلک کلچر کو ماننے کے باوجود آپ کا آبجیکشن کیا ہے؟
<br />
میں: بیسک آبجیکشن یہی ہے جب آپ "عید" کہتے ہیں تو یہ پبلک کلچر نہ ہوکر ریلیجن سے اٹیچ ہو جاتا ہے۔ جبکہ میں بتا چکا ہوں کہ سپریم اتھارٹی نے صرف دو عیدیں مسلمانوں کے لیے ڈیکلیر کی ہیں۔
<br />
وہ: اچھا سر جانے دیجیے۔ اتنا تو بتا دیں کہ اگر آپ میلاد کے دن کو نہیں مانتے تو کیا آپ کو اپنے پرافیٹ کے برتھ ڈے کی خوشی بھی نہیں ہے؟
<br />
میں: ارے بھائی، اتنے برسوں میں اب تک یہ بات ہی کلئیر نہیں ہوئی کہ ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ایگزیکٹ ڈیٹ آف برتھ کیا ہے؟ چلو کچھ لوگوں کے کہنے پر مان بھی لیں کہ 12 ربیع الاول ہے تو ایک دن کی خوشی منا کر سال کے باقی دن کیا ہم اپنے رسول اللہ کو اور ان کے ارشادات کو بھول جائیں؟ اور پھر صرف لاسٹ پرافیٹ کیوں؟ ہم تو عیسیٰ کو بھی مانتے ہیں، موسیٰ، داؤد اور ابراہیم و آدم کو بھی۔۔۔ پھر اپنے رسول کے قریبی خاندان والوں کو، ان کے چار خلیفہ کو اور بھی بہت سے ہائیر رینک کے companions کو بھی۔ اگر ان سب کی برتھ ڈے منانا شروع کریں تو ہم پورے سال میں آپ سے بھی آگے نکل جائیں گے۔ اور ایسے "پبلک کلچر" سے آپ کا اور میرا فائدہ ہوگا یا نقصان؟ آپ خود سوچ لیں بھائی۔۔۔
<br />
وہ: اچھا سوری سر۔ مگر برا نہ مانیں سر، آپ یہی باتیں اپنے لوگوں کو کیوں نہیں بتاتے؟
<br />
میں: بتاتے ہیں بھائی۔ جیسا کہ ہم یہ بھی بتاتے ہیں کہ شراب پینا حرام ہے، جھوٹ بولنا حرام ہے، وعدہ کرکے نہ نبھانا حرام ہے۔۔۔ مگر پھر بھی لوگ شراب پیتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، وعدہ خلافی کرتے ہیں۔ تو کیا یہ سب دیکھ کر آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا مذہب شراب پینا، جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا سکھاتا ہے؟ میں نے اسی لیے شروع میں ہی کہا ہے کہ پبلک کلچر ایک الگ بات ہے، اور ریلیجن رولز آر سمتھنگ ڈیفیرنٹ۔
<br />
وہ: اٹس او کے سر۔ سمجھ گیا کہ آپ کو میلاد کی مبارک باد نئیں دینا۔
<br />
میں: ارے ضرور دو بھائی، بلکہ چاہے تو بریانی کھلا دو اس خوشی میں۔ آئی وِل ڈیفینٹلی ایکسپٹ۔ بس صرف اتنا بتانا چاہ رہا تھا کہ اٹس جسٹ اے ریجنل کلچر اینڈ ناٹ دی ریلیجن!
</p><br />
<blockquote>
نوٹ:
<br />
یہ فرضی نہیں بلکہ کل بدھ کی شام اپنے دفتر میں ایک ہندو کولیگ سے کیا گیا میرا حقیقی مکالمہ ہے۔ گفتگو میں کچھ الفاظ انگریزی، ہندی اور تلگو کے بھی شامل رہے، جنہیں بدل کر سلیس اردو میں کر دیا ہے۔
</blockquote>
<div style="direction: ltr; text-align: left;">
Milad-un-Nabi and the public culture. by: Mukarram Niyaz
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5278377707373857368.post-72003766682047528762023-09-20T16:57:00.004+05:302023-09-20T16:57:35.758+05:30ہوا کے سرٹیفائیڈ غبارے<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjrOCO9llE5-rzMccIE3QwhdzUNnBBYU4J_2nZLn6_MR4jLKNmBeM_OgVBOTNTb8fBKkvIeM2b9UklpDOXHa3wUGAiGgrM_OM0V7w9DrU3EjWZsT8lncPOTNQj___-W-nkh-_oSbap33_CP1g2LLNuQKDOUQ5y04wIHO8KJTdhhR1oll0skv-ZTIIaioEMb/s1280/potatochips.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="Air inside potato chips packet" border="0" width="600" data-original-height="720" data-original-width="1280" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjrOCO9llE5-rzMccIE3QwhdzUNnBBYU4J_2nZLn6_MR4jLKNmBeM_OgVBOTNTb8fBKkvIeM2b9UklpDOXHa3wUGAiGgrM_OM0V7w9DrU3EjWZsT8lncPOTNQj___-W-nkh-_oSbap33_CP1g2LLNuQKDOUQ5y04wIHO8KJTdhhR1oll0skv-ZTIIaioEMb/s600/potatochips.jpg"/></a></div>
<p>
<b>© مکرم نیاز</b> (حیدرآباد)۔
<br />
20/ستمبر/2023ء
<br />
*****
</p><br />
<p>
کیا آپ نے کبھی لیز چپس (Lay's Chips) کا پیکٹ خریدا اور کھایا ہے؟ یا اس جیسے لوکل برانڈ کے آلو چپس مثلاً ڈائمنڈ، بنگو، ہلدی رام، پارلے، ٹیگز، سَن چپس، انکل چپس وٖغیرہ؟
<br />
اگر کھایا ہو تو معلوم ہی ہوگا کہ کس قدر بھرے بھرے سے پیکٹ ہوتے ہیں لیکن کھولتے ہی پُرامید دل کی گہرائیوں سے غمگین آواز مچلتی ہے: دوست دوست نہ رہا، پیار پیار نہ رہا۔۔۔
<br />
میں نے 'جوان' والے کنگ خان کو مشورہ بھی دیا تھا کہ یار بھائی، ووٹنگ والے مشورے کے درمیان یہ چپس پیکٹ آئٹم بھی شامل کر لو کہ ۔۔۔ سیاستدانوں کے وعدوں سے بھرا پیکٹ جب الیکشن نتائج کے بعد پھٹتا ہے تو اندر سے بس دو چار ہی مڑے تڑے سوکھے آلو کے ٹکڑے نکلتے ہیں اور عوام کے لبوں سے آہ : ؎
<br />
جانے کہاں ترا وعدہ گیا رے
<br />
ابھی ابھی یہیں تھا کدھر گیا رے؟!
</p><br />
<p>
کچھ دن پہلے کا ذکر ہے گھر میں بچہ پارٹی کے ہنگاموں کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ ایک نے کہا: تم میرے کو اپنے ٹماٹو ٹانگو کے تین چپس دو پھر تم بھی میرے لیمن چپس سے تین لے لینا۔
<br />
سامنے والے نے متفق ہو کر اپنا ٹماٹو چپس پیکٹ آگے تو کیا مگر مضبوطی سے ایک کونا تھامے بھی رکھا۔ لیمن والے نے انگلیوں سے ڈھونڈ کر تین بڑے ٹکڑے نکال لیے، کھانے اور منہ پونچھنے کے بعد اپنے نیکر کی جیب سے لیمن چیپس پیکٹ نکالا، مگر میں تیز نظروں سے پہلے ہی بھانپ چکا تھا کہ اُس ڈیڑھ شانہ بنگلوری نے جیب کے اندر ہی اندر پیکٹ کو انگلیوں سے مچل مچل کر شاکا کا ڈائیلاگ یاد دلا دیا تھا:
<br />
"ایک ایک کو چُن چُن کے ماروں گا، چُن چُن کے۔۔۔"
<br />
اب ہمارا معصوم سا حیدرآبادی انگلیوں سے چپس کا کوئی بڑا ٹکڑا ڈھونڈ رہا تھا، مگر ہوتا تو ملتا بھی، سارے چپس چرمرے ہو کر مُرمُرے بن چکے تھے۔ اِدھر بنگلوری تیز نظروں سے گھور رہا تھا: تین اِچ ٹکڑے لینا دیکھو، پہلے اِچ بات ہو گئی تھی اپن کی!!
</p><br />
<p>
<b>تنبیہ بلیغ:</b>
<br />
یہ ایک حقیقی واقعہ ہے مگر اس کا تعلق سیاسی جماعتوں کی نشستوں کی تقسیم سے جوڑنے والے کا ادارہ سے کوئی تعلق نہیں!!
</p>
<div style="direction: ltr; text-align: left;">
Air inside potato chips packet. Light-Essay by Mukarram Niyaz
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5278377707373857368.post-83204393204488523782023-09-11T14:31:00.000+05:302023-09-18T14:31:16.802+05:30آخری فکشن - افسانچہ از مکرم نیاز<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEin9GJL_WQ7LPmOrAy6X1pXZyxHWIREqQ-dcDOObeqiOvAE-vgTq_Z7mlHoc0af_g5zcbIFEy_RFLgagBmfGUlWlSd6rWZsCc9kGyIWnYc8QEKssrRRYURGDMn8TuGeA_2mC8l71UzxYSeYbx_6LLrNWL5mISNYaanChrTxAw3sAEIMoSPyTS4pKn0Lzv5A/s1600/last-fiction.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="last-fiction" border="0" data-original-height="500" data-original-width="500" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEin9GJL_WQ7LPmOrAy6X1pXZyxHWIREqQ-dcDOObeqiOvAE-vgTq_Z7mlHoc0af_g5zcbIFEy_RFLgagBmfGUlWlSd6rWZsCc9kGyIWnYc8QEKssrRRYURGDMn8TuGeA_2mC8l71UzxYSeYbx_6LLrNWL5mISNYaanChrTxAw3sAEIMoSPyTS4pKn0Lzv5A/s1600/last-fiction.jpg"/></a></div>
<p>
<b>© مکرم نیاز</b> (حیدرآباد)۔
<br />
11/ستمبر/2023ء
<br />
*****
</p><br />
<p>
ماں اپنی تمام اولاد کی پسند کا یکساں خیال رکھتی تھی سو اسے کبھی چھٹانک قیمہ، آدھ پاؤ گوشت، سو گرام ہڈی، ڈیڑھ پاؤ پائے الگ الگ لانا پڑتا تھا۔ وہ حساب میں ماہر تو ہوا مگر بدقسمتی سے فکشن نگار بن گیا۔ یوں وہ قلم تھامے معاشرے کی نشترزنی کرنے لگا۔ سو لفظی کہانی، پچاس لفظی کہانی، بیس لفظی کہانی، دس لفظی کہانی۔۔۔ آخر بسترِ مرگ پر اس سے "آخری فکشن" سرزد ہوا ، دو لفظی کہانی: ختم شد!!
</p><br />
<div style="direction: ltr; text-align: left;">
Aakhri fiction. a flash-fiction by Mukarram Niyaz
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5278377707373857368.post-64025217975242180462023-08-01T15:13:00.005+05:302023-08-01T15:34:16.842+05:30لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgbduw8Lt_tMg9hxe5R4P5h-bTODsrTd7VZV37WFHcFdpT5ccnLHgoCi3jBUc6VlOiQjGM2DOYNlQMQeqS-WKMQ0QndbTmP5q01UJwJNkrcKuOcPpUvDaYbYHJKadIdQA5lGbXCpXgQsa2NxykHm0z9uTSu7jzsLKkDvrQGMtvAeX1znKMisjQqjCQA0tc3/s1280/indian-muslims.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="" border="0" width="600" data-original-height="720" data-original-width="1280" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgbduw8Lt_tMg9hxe5R4P5h-bTODsrTd7VZV37WFHcFdpT5ccnLHgoCi3jBUc6VlOiQjGM2DOYNlQMQeqS-WKMQ0QndbTmP5q01UJwJNkrcKuOcPpUvDaYbYHJKadIdQA5lGbXCpXgQsa2NxykHm0z9uTSu7jzsLKkDvrQGMtvAeX1znKMisjQqjCQA0tc3/s600/indian-muslims.jpg"/></a></div>
<p>
<b>© مکرم نیاز</b> (حیدرآباد)۔
<br />
یکم/اگست/2023ء
<br />
*****
</p><br />
<p>
تین مسلم ریل مسافرین کے دن دھاڑے قتل بذریعہ ریلوے پولیس کانسٹبل، پر ہندوستان میں مسلمانوں کو غیرمحفوظ بتا/جتا کر ان کی صفوں میں خوف/دہشت/اشتعال پھیلانے والے کمزور یادداشت کے حامل سوشل میڈیائی جذباتیت و شدت پسند مسلمان بھول رہے ہیں کہ۔۔۔
<br />
اواخر مئی 1987ء میں محلہ ہاشم پورہ (ملیانہ، میرٹھ، اترپردیش) کے تقریباً 50 مسلم نوجوانوں کو، اتر پردیش کی پروویژنل آرمڈ کانسٹیبلری (پی اے سی) کے 19 کانسٹبلوں نے قطار میں کھڑا کر کے نہ صرف گولی ماری بلکہ لاشیں بھی قریب کے نالے میں بہا دی تھیں۔
<br />
میرٹھ کا متذکرہ مسلم نسل کش فساد اس قدر لرزہ خیز تھا کہ مقبول عام شاعر بشیر بدر نے میرٹھ سے نقل مکانی کرتے ہوئے اپنا وہ شہرہ آفاق شعر کہا تھا:
<br />
لوگ ٹوٹ جاتے ہیں اک گھر بنانے میں
<br />
تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں؟!
</p><br />
<p>
آج ہم سوشل میڈیا پر طعنہ زنی کر رہے ہیں کہ کس طرح اس کانسٹبل کو بچانے کے لیے اسے "ذہنی معذور" قرار دیا جا رہا ہے۔۔۔ مگر یہ بات ہم بھول رہے ہیں کہ ۔۔۔ ابھی چند ہفتے قبل اپریل 2023ء میں تقریباً 36 سال بعد، ہاشم پورہ سانحے کا فیصلہ سناتے ہوئے میرٹھ کورٹ نے 38 ملزموں کو بری کر دیا تھا۔
<br />
کیا یہ اس بات کا اعلان ہے کہ ہندوستان میں مسلمان کے لیے زمین تنگ کر دی گئی ہے؟
<br />
ہم کہتے ہیں کہ بالکل نہیں، قطعاً نہیں!!
</p><br />
<p>
تقسیم ملک (1947) کے فسادات سے لے کر حیدرآباد کے پولیس ایکشن (1948) ، شہادتِ بابری مسجد (1992)، کلکتہ (1964)، بھیونڈی (1970)، مرادآباد (1980)، گجرات (1969، 1985، 2002)، بھاگلپور (1989)، بمبئی (1992)، مالیگاؤں (2006)، مظفرنگر (2013)، آسام (2014)، دہلی (2020)۔۔۔ کے مسلم کش فسادات کے دوران ارضِ ہند مسلمانوں کے خون سے جگہ جگہ رنگین ہو چکی ہے۔
</p><br />
<p>
مگر پھر بھی ہم یہاں جی رہے ہیں۔۔۔
<br />
اور پھر بھی ہم ترکِ وطن نہیں کرتے کیونکہ ۔۔۔
<br />
وطنِ عزیز کی جڑوں میں ہمارا اور ہمارے بزرگوں کا لہو بستا ہے!!
<br />
چاہے لاکھ آزمائشیں آئیں ۔۔۔ لیکن ہماری نسل اور ہمارے بعد والی نسل کو یہ حقیقت ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ۔۔۔
<br />
کچھ کمی بیشی کے ساتھ آج بھی ہندوستان کے تمام باشندوں کے ہمراہ مسلمانوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔۔۔ سرکاری/ غیرسرکاری تعلیم گاہوں میں داخلے کے لیے ہم پر کوئی پابندی نہیں، مرکزی/ریاستی حکومتوں کے سیاسی و نوکرپیشہ عہدوں میں ہمیں آئینِ ہند مساوی حقوق دیتا ہے، معیشت و تجارت کے میدان ہمارے لیے کھلے ہیں ۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر اپنے ملک میں مرکزی/ریاستی سرکار کو منتخب کرنے کا حق ہمیں حاصل ہے!
</p><br />
<p>
دنیاوی مصائب و مشکلات انسانی زندگی کا جہاں ناگزیر حصہ ہیں وہیں اسلامی عقیدے کے مطابق اللہ کی طرف سے آزمائش بھی ہیں۔ سورہ البقرہ کی آیت 155-156 کا ترجمہ (مودودیؒ) ہے:
<br />
اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے، اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے، تو کہیں کہ: "ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے"۔
</p><br />
<p>
فسادات و سانحات کی معروضی ریکارڈنگ و رپورٹنگ ضرور ہونی چاہیے تاکہ ظالموں و ستم گروں کے ظلم و ستم، دہشت گردی و داداگری سے دنیا آگاہ ہو۔ لیکن اس کی قیمت یہ نہ ہو کہ ہم سوشل میڈیا پر اپنے ہی طبقے میں خوف و دہشت پھیلانے، وطن و برادرانِ وطن کے خلاف بےجا طیش، نفرت و بغض پھیلانے کا باعث بنیں۔۔۔
<br />
یہ مت بھولیے کہ وطنِ عزیز ہندوستان کی شناخت جن اسمائے گرامی کے حوالے سے دنیا بھر میں جانی مانی جاتی ہے ان میں مولانا آزاد، ذاکر حسین، شیخ عبداللہ، محمود الحسن دیوبندی، عظیم پریم جی، یوسف علی، دلیپ کمار، رفیع، نوشاد، اظہرالدین، ثانیہ مرزا وغیرہ وغیرہ کے علاوہ ۔۔۔ سید مودی بھی شامل ہیں!!
</p>
<div style="direction: ltr; text-align: left;">
Difference between objective reporting and social media propaganda war.
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5278377707373857368.post-72999129760481214292023-06-28T15:45:00.007+05:302023-06-28T23:20:46.989+05:30حج 1416ھ مطابق اپریل 1996ء : کچھ یادیں<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh_rcp7iMWAHs8eeVsnIaD8h0tQoP3mPonC7MqoiEW4zrszgalJqlpcT3E9BVyfKV-BN-wiD_D8xct-oF8Cw_jW48j67V5mzv4d4wUVI1tceiWbgLsLeWuXggyB9rQIls4O8OVZX1W91Pv5nrrnex07hJuQszstMi5I435OwUUuceEpEl2jOAQ3M0kSv93g/s1250/hajj1416.jpg" style="display: block; padding: 1em 0px; text-align: center;"><img alt="" border="0" data-original-height="1250" data-original-width="1018" height="600" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh_rcp7iMWAHs8eeVsnIaD8h0tQoP3mPonC7MqoiEW4zrszgalJqlpcT3E9BVyfKV-BN-wiD_D8xct-oF8Cw_jW48j67V5mzv4d4wUVI1tceiWbgLsLeWuXggyB9rQIls4O8OVZX1W91Pv5nrrnex07hJuQszstMi5I435OwUUuceEpEl2jOAQ3M0kSv93g/s600/hajj1416.jpg" /></a></div>
<p>
<b>© مکرم نیاز</b> (حیدرآباد)۔
<br />
9/ذی الحجہ 1444ھ م 28/جون/2023ء
<br />
*****
</p><br />
<p>
لبیک اللھم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک
</p><br />
<p>
راقم الحروف کی اب تک کی زندگی کا یہ اکلوتا حج ہے جس کی سعادت 27 سال قبل حاصل ہوئی تھی۔ وقوف عرفات ہفتہ کے روز واقع ہوا تھا۔
<br />
اواخر اگست 1995ء میں ریاض (سعودی عرب) میں بغرض معاش وارد ہونے کے دوسرے ہی ماہ یعنی اکتوبر میں جدہ داخلہ ہوا کہ یہاں والد صاحب اور کچھ عزیز دوست عرصہ دراز سے قیام پذیر تھے۔ مختصر عرصہ کی ایک ملازمت ہاتھ آئی جو دراصل جدہ سے کچھ مسافت پر واقع علاقہ ابھور میں ایک پرنس کے محل کا تعمیراتی پراجکٹ تھا۔ ملازمت ختم ہوتے ہی ریاض واپسی کا ارادہ طے ہو گیا کہ جدہ کئی لحاظ سے پسند نہیں آیا تھا۔ مگر دوستوں نے کہا کہ حج قریب ہے، اس کی سعادت حاصل کرکے واپس ہو جانا۔ ویسے بھی اگلے سال سے حج تصریح کا قانون نافذ ہونے والا تھا کہ اقامہ نمبر کے اندراج اور حکومت کے اجازت نامے کے بغیر مقیمین کا حج ممکن نہیں۔
<br />
اگلے سال حج اجازت نامے کا جو لزوم مقامی شہریوں کے لیے نافذ کیا گیا، اس کی فیس دو ہزار ریال تھی، جس کے ساتھ اقامہ نمبر کا اندراج اور پانچ سال تک دوبارہ حج نہ کرنے کی شرط بھی تھی۔ یہ فیس کئی سال برقرار رہی ۔۔۔ اب تو سنا ہے کہ چار مختلف حج پیکج بنائے گئے ہیں اقل ترین چار ہزار ریال اور اعلیٰ ترین ساڑھے دس ہزار ریال۔
</p><br />
<p>
بہرحال مجھ سمیت پانچ نوجوان ساتھیوں نے احرام باندھا اور جدہ سے 7/ذی الحجہ کی شام سفرِ حج کی خاطر ایک پرائیویٹ بس کے ذریعے نکل پڑے۔ میرے پاس صرف پانچ سو ریال کی رقم تھی اور شاید آج سننے/پڑھنے والوں کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ مکمل حج مع قربانی کے لیے اتنی رقم کافی ہو گئی تھی۔ اس وقت منیٰ میں سعودی حکومت کی جانب سے قائم شدہ مذبح خانے میں قربانی کا نظم تھا اور عازمین حج کو منیٰ کے میدان میں قائم اسلامک ڈیولپمنٹ بنک کے کیبن میں قربانی کی رقم جمع کروا کر رسید لینا پڑتا تھا۔ بعد ازاں یہ رسید بتا کر مذبح خانے میں اپنے نام کے دنبے کی قربانی ہوتے دیکھنے کی سہولت حاصل تھی مگر جس کے لیے اپنا نمبر آنے کا انتظار کرنا بھی ضروری تھا۔ بیشتر حاجی اسے غیرضروری مشقت سمجھتے تھے کہ خود جا کر اپنے نام کا بکرا کٹتے دیکھا جائے، جب قربانی کی رقم ادا کر دی ہے تو وہ ہو ہی جائے گی۔ راقم بھی اسی سوچ کا حامل تھا۔
<br />
قربانی کی متعلقہ رسید اتنے برسوں بعد آج بھی میرے پاس محفوظ ہے جس کی تصویر اس تحریر سے منسلک ہے، تفصیل دیکھیے:
<br />
قربانی کے جانور کی قیمت : 281.77
<br />
ذبح کرنے اور دیگر خدمات : 49.56
<br />
قربانی کے گوشت کا سرد خانے میں تحفظ : 7.61
<br />
حمل و نقل اور تقسیم : 36.06
<br />
جملہ رقم : 375 سعودی ریال
</p><br />
<p>
حرم مکی میں نماز فجر اور طواف کے بعد ہم لوگ بذریعہ ساپتکو بس (سعودی لوکل ٹرانسپورٹ بس) منیٰ روانہ ہوئے۔ اس وقت منیٰ میں آج کی طرح خیموں کا ہجوم نہیں تھا، چند سو خیمے ضرور تھے مگر ایک وسیع و عریض میدان میں شیڈ ڈالا گیا تھا اور اس شیڈ کے نیچے جگہ حاصل کرنے میں ہم لوگوں کو کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے لگ گئے۔ بس ذرا سی جگہ ہوتی ہے جہاں بندہ چٹائی بچھا کر ہاتھ پاؤں سمیٹ کر لیٹ سکے۔ بہرحال عبادت تلاوت ذکر و اذکار کے ساتھ رات گزاری اور 9/ذی الحج کو صبح سات یا آٹھ بجے میدانِ عرفات کی طرف پیدل رواں ہوئے۔
<br />
میدان عرفات کی یادیں آج بھی ذہن میں تازہ و تابندہ ہیں۔ خصوصاً خطبۂ حج کے بعد مسجد نمرہ میں امام صاحب رقت آمیز انداز میں جب دعائیں مانگتے ہیں تو آدمی کا رواں رواں کانپنے لگتا ہے جسم پسینے سے شرابور ہو جاتا ہے آنکھوں سے سمندر بہنے لگتا ہے۔۔۔ یہ بلاشبہ لفاظی نہیں، خود میرے اپنے بھی ذاتی تاثرات رہے ہیں ۔۔۔
<br />
جس وقت دعا کو ہاتھ اٹھے
<br />
یاد آ نہ سکا جو سوچا تھا
<br />
باقی نہ رہا پھر ہوش مجھے
<br />
کیا مانگ لیا کیا بھول گیا!!
</p><br />
<p>
مغرب سے قبل میدانِ عرفات سے نکل کر مزدلفہ جانا ہوتا ہے، جہاں سے فجر کے وقت واپس منیٰ لوٹنے کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ مزدلفہ میں سب سے زیادہ پریشانی حوائج ضروریہ سے فراغت کی ہوتی ہے کہ لمبی لمبی قطار دیکھ کر دل بیٹھ جاتا ہے (شاید اب کچھ بہتر سہولیات فراہم کر دی گئی ہوں)۔ مگر ٹوائلٹ جانے سے بچنے کے لیے ہم ساتھیوں نے صرف پھل اور جوس پر انحصار کیا ہوا تھا، پانی بھی کم پی رہے تھے۔ خیر دسویں ذی الحج کو منیٰ پہنچ کر تین دن قیام کی خاطر جگہ ڈھونڈنے کی وہی مشقت دوبارہ جھیلنی پڑی۔ تھوڑی سی جگہ ملی اور ہم پانچ دوستوں نے اسی مختصر سی جگہ میں تین دن اور دو راتیں گزار دیں۔ جو وقت گزرا وہ بیان کے قابل نہیں ہے۔ آج سے تقریباً تین دہائی قبل نہ اسمارٹ فون تھا اور نہ انٹرنیٹ اور حجاج کرام کی بیشتر تعداد جس قسم کی وقت گزاری سرگرمیوں میں، توتکار اور فضول گوئی میں مشغول تھی۔۔ اس نے ایک بزرگ کے قول کو سچ ثابت کیا کہ:
<br />
انسانی نفس کی تربیت چند گھنٹے یا چند روزہ عبادت نہیں بلکہ یہ ایک عمر کا سلسلہ وار پراسیس ہے جس کا آغاز ہی بچپن/لڑکپن سے ہو جاتا ہے!
</p><br />
<p>
پھل اور جوس سے مسلسل دو دن نپٹنے کے بعد خیال آیا کہ اگر اب بھی چاول نہیں کھایا تو حیدرآبادی ہونے کا حق گویا ادا نہیں ہوا۔ تلاش پر ایک پاکستانی ہوٹل سے (کہ جس کے نام کا سابقہ یا لاحقہ لاہوری تھا) بگھارا کھانا اور قورمہ پانچ ریال کا ملا۔ پہلے ہی لقمے پر کہنا پڑا: تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو!
<br />
خدا کی پناہ، چاول کے ایک ایک دانے سے تیل کا قطرہ یوں ٹپک رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو: ہم بنے تم بنے ایک دوجے کے لیے!
<br />
مگر صاحب جوانی کے لکڑ پتھر ہضم والے دن تھے سو چاول کا کوئی دانہ نہیں چھوڑا۔۔۔ پھر جس کا نتیجہ بھی برابر بھگتنے پر مجبور ہونا پڑا ۔۔ دو چار ہفتے یا دو چار ماہ نہیں بلکہ پورے ایک سال تک خشک کھانسی نے چین نہ لینے دیا۔۔۔ غلطی یہ کی تھی کہ اسی وقت تیل کی تیزابیت کو ختم کرنے چار پانچ پیپسی کی بوتلیں وقفہ وقفہ سے حلق میں انڈیل لی تھیں۔ اس لاہوری بابے کا حشر میں گلا پکڑنے کی شدید خواہش آج بھی دل میں جاگزین ہے۔
</p><br />
<p>
تینوں شیطانوں کو کنکر مارنے کے لیے انسانوں کے بیچ سے ہی گزرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی دل میں خواہش مچلتی کہ ان لحیم شحیم عربوں حبشیوں کو ہی چپکے سے کنکر مار کر کھسک لیا جائے کہ جن کی تیزرفتاری اور پرقوت بدنی حرکات دیکھ کر لگتا تھا کہ یہ جانباز میدانِ جنگ میں ہیں اور روندنا، کچلنا، دھکیلنا، رگیدنا ان کا پیدائشی حق ہے!
<br />
12/ویں ذی الحج کو بعد عشا منیٰ سے واپس مکہ کا قصد کرکے ہم لوگ اس جگہ پہنچے جہاں سعودی ساپتکو بسیں مکہ سفر کے لیے تیار ٹھہری تھیں۔ مگر قسم لیجیے جو تین چار گھنٹے کی بک بک جھک جھک کے بعد بھی کسی ایک ساتھی کو کسی ایک بس میں جگہ ملی ہو، ناچار ہزاروں حجاج کی طرح مکہ اور منیٰ کو جوڑنے والی سرنگوں سے گزر کر پیدل پیدل ہی حرم شریف میں داخل ہوئے۔ وداعی طواف کے بعد جب روایتی دس ریال والی کوسٹر کے ذریعے جب جدہ میں اپنی قیامگاہ پر واپسی ہوئی تو جیب میں بیس پچیس ریال پھر بھی باقی رہ گئے تھے۔
<br />
#مرزا نے چند دن قبل یہ روداد سنی تو بولے تھے:
<br />
"حاجی صاب! تمہاری کفایت شعاری کا تو قائل ہوں مگر جس طرح بس اِتّے ذرّا سے پیسوں میں حج اور قربانی کا فریضہ نبھایا، اس پر تو ایوارڈ لینا بنتا ہی ہے۔ کہو تو فلاں فلاں گلپوشی گینگ والوں سے بات کروں ۔۔۔ ذرا خرچہ پانی کو دس پندرہ ہزار میرے جی-پے پر ٹرانسفر تو کرنا۔۔۔"
</p><br />
<div style="direction: ltr; text-align: left;">
Hajj travelogue, some views, experience, by Mukarram Niyaz
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5278377707373857368.post-194453948565720022023-06-24T13:22:00.003+05:302023-06-24T13:24:41.773+05:30دیبا خانم اور مینا ناز - دو مرد ناول نگاروں کے قلمی نام<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg14QfkjYGxssCOvbUy60CpyNtegWrDxgghTpcuTl00TMczM_a3zeyKOmZqlDRdazcLN7VaogGM-AdZZNhFFzBe0VAPdhEYwSPDpJ8cwkjGD9SYICYPQDR5GBxR19sefFvldfn4FUCNcJzbxeZRxxLFT6RKpl2BOiFOfq0m-32B5H4U6O6NXTuLCd9r4ztt/s1600/meena-deeba.jpg" style="display: block; padding: 1em 0px; text-align: center;"><img alt="meena naaz and deeba khanam" border="0" data-original-height="325" data-original-width="621" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg14QfkjYGxssCOvbUy60CpyNtegWrDxgghTpcuTl00TMczM_a3zeyKOmZqlDRdazcLN7VaogGM-AdZZNhFFzBe0VAPdhEYwSPDpJ8cwkjGD9SYICYPQDR5GBxR19sefFvldfn4FUCNcJzbxeZRxxLFT6RKpl2BOiFOfq0m-32B5H4U6O6NXTuLCd9r4ztt/s1600/meena-deeba.jpg" /></a></div>
<p>
بودھن (ضلع نظام آباد، ریاست تلنگانہ) کے قلمکار، شاعر، نثرنگار اور اسکول استاذ ڈاکٹر عبدالخلیل کشش اپنے ایک مضمون "ناول نگاری کے ارتقاء میں خواتین کا حصہ" (شائع شدہ: روزنامہ <a href="https://archive.urdu.siasat.com/news/%D9%86%D8%A7%D9%88%D9%84-%D9%86%DA%AF%D8%A7%D8%B1%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D8%B1%D8%AA%D9%82%D8%A7%D8%A1-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AE%D9%88%D8%A7%D8%AA%DB%8C%D9%86-%DA%A9%D8%A7-%D8%AD%D8%B5%DB%81-750578/" target="_blank">سیاست، حیدرآباد، مورخہ 25/اپریل 2015ء</a>) میں لکھتے ہیں۔۔۔
</p>
<blockquote>
اردو ناول نگاری کے فن کو جہاں مرد ، ناول نگاروں نے پروان چڑھایا ہے وہیں خاتون ناول نگاروں نے بھی اس کی آبیاری کی ہے۔ گو کہ خواتین نے ناول نگاری کے میدان میں مردوں کے بہت بعد میں قدم رکھا ہے پھر بھی ناول کے ارتقاء میں ان کے تعاون کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
<br />
اردو ناول کا وقار بلند کرنے میں عطیہ پروین ، عفت موہانی ، مسرور جہاں ، <span style="background-color: #fcff01;">دیبا خانم</span> ، واجدہ تبسم ، جیلانی بانو ، حسنہ جیلانی ، صفیہ سلطانہ ، شکیلہ اختر ، رفیعہ منظور الامین ، جمیلہ ہاشمی ، آمنہ ابوالحسن ، ضغری مہدی ، بشری رحمن ، سلمی کنول ، ناہید سلطانہ اختر ، رضیہ بٹ ، رشید جہاں ، ہاجرہ مسرور ، ذکیہ مشہدی ، رضیہ سجاد ظہیر نے اہم کردار ادا کیا۔
<br />
غرض کہ خاتون ناول نگاروں اور ان کے ناولوں کا ایک کارواں نظر آتا ہے جو اپنی منزل کی طرف تیزی کے ساتھ رواں دواں ہے۔ مثلاً مسرور جہاں کے ناول 'اجالے'، 'رنگ ہزار'، 'درد کا ساحل'، 'ایک مٹھی بوجھ'، 'پیکر'، 'خزاں سے دور'، 'پیار کا رشتہ'، ' راہوں میں' اور 'اپنا خون' وغیرہ۔ عفت موہانی کے ناول بھنور ، درد کا درماں ، آپ ہیں پھول ، پندار، داغ دل ، ہم سفر اور پہچان وغیرہ۔ <span style="background-color: #fcff01;">مینا ناز</span> کے ناول بدنام ، انجانی منزل ، پکار ، پاگل نینا ، آشنا ، پہاڑی چاند ، بہار آنے تک اور نیند آنکھوں میں ، سپنے وغیرہ۔
</blockquote>
<p>
یسویں صدی کی ساتویں اور آٹھویں دہائی کے مقبول عام ادب کے پروردہ ہندوستانی قارئین اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ اردو ناول نگاری کے ہجومِ بےپناہ میں رضیہ بٹ، دیبا خانم، مینا ناز، سلمیٰ کنول، بشریٰ رحمن، مسرور جہاں، عطیہ پروین، عفت موہانی وغیرہ کے نام کس طرح گرم کیک کی طرح فروخت ہوتے تھے۔ گلی محلے کی کوئی ایسی لائبریری نہ تھی جہاں ان خواتین ناول نگاروں کے ناول کرایہ پر دستیاب نہ ہوتے رہے ہوں۔
</p><br />
<p>
آج ایک انکشاف پاکستان کے معروف ادیب اور آس پبلی کیشنز کے سرپرست ابن آس نے اپنی <a href="https://www.facebook.com/ibnea.aas.7/posts/pfbid02ZM5KAzkzFDBeco3cpB3ahwMC2vzG4mZGHjjz5VyN7DuXEEcFYvWFFDqaYMKv975ol" target="_blank">تازہ فیس بک پوسٹ</a> میں یہ کیا ہے کہ:
</p>
<blockquote>
کچھ لکھنے والے ایسے ہوتے ہیں۔۔۔ جو زندگی بھر اپنی شناخت کے بغیر صرف اور صرف کام پر دھیان دیتے ہیں۔
<br />
دیبا خانم کے نام سے۔۔۔ ایک مرد ۔۔۔ محی الدین نواب لکھتا تھا۔۔۔
<br />
اور مینا ناز کے نام سے۔۔۔۔ امین نواز۔۔۔ نامی شخص ناول لکھتا تھا۔
<br />
عورت کے ذہن سے سوچنا۔۔۔ کسی آدمی کے لیے ممکن نہیں تھا۔۔۔ مگر یہ محی الدین نواب اور مینا ناز کر دکھایا۔
</blockquote>
<div style="direction: ltr; text-align: left;">
Deeba Khanam and Meena Naaz, female pseudonyms of two male renown Urdu novelists
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5278377707373857368.post-89906058965684070952023-06-15T16:02:00.009+05:302023-06-15T16:10:12.244+05:30ریاست تلنگانہ کو پانچ ایوارڈ - بین الاقوامی بہترین عمارات کے ذیل میں<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjJTQJlaGgDgCjaPDAkT1HtD5zqKO-31JaUwv8KX6Pznit1s_jlWjUj7I9top66FaasIsZo4aR0ws4rJF6eIjhe_qYiqugUMtJnLlrcCYG9gOrwLGxLw5g3mjOUdzy6kyadZTQuHHA9MMWTY7xnStnQ3Vb6i154iWH_Aif0472OMJhJslm1rXtRhsfUhQ/s1200/green-award.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="" border="0" width="600" data-original-height="720" data-original-width="1200" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjJTQJlaGgDgCjaPDAkT1HtD5zqKO-31JaUwv8KX6Pznit1s_jlWjUj7I9top66FaasIsZo4aR0ws4rJF6eIjhe_qYiqugUMtJnLlrcCYG9gOrwLGxLw5g3mjOUdzy6kyadZTQuHHA9MMWTY7xnStnQ3Vb6i154iWH_Aif0472OMJhJslm1rXtRhsfUhQ/s600/green-award.jpg"/></a></div>
<p>
لندن میں قائم آزاد و غیرمنفعت بخش ادارہ 'دی گرین آرگنائزیشن' کی جانب سے شہری اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر زمرے میں "بین الاقوامی بہترین عمارات" کے تحت پانچ عدد "گرین ایپل ایوارڈز" ریاست تلنگانہ کی درج ذیل تعمیرات کو حاصل ہوئے ہیں:
</p><br />
<ol><li>
معظم جاہی مارکٹ (ثقافتی زمرہ - عظمت رفتہ کی بہترین بحالی اور دوبارہ استعمال)
</li><li>
ڈاکٹر بی آر امبیڈکر تلنگانہ اسٹیٹ سکریٹریٹ (بہترین جمالیاتی سطح کے ڈیزائن پر مبنی آفس / ورک اسپیس عمارت)
</li><li>
پولیس کمانڈ کنٹرول سنٹر (منفرد ڈیزائن پر مبنی دفتری عمارت)
</li><li>
یدادری (یادگیرگٹہ) مندر (بہترین مذہبی طرز تعمیر)
</li><li>
دُرگم چیروؤ کیبل بریج (پل کا منفرد ڈیزائن)
</li></ol>
<br /><div class="eng-text">
<p>
Telangana adds more feathers in its cap, wins 5 Green Apple awards</p></div>
<ol style="direction: ltr; text-align: left; padding:0 0 0 25px;"><li>
MoazzamJahi Market: Heritage category - for excellent restoration and reuse
</li><li>
Durgam Cheruvu Cable Bridge: Bridge category - for the unique design
</li><li>
Dr B R Ambedkar Telangana State Secretariat Building: In the aesthetically designed office/workspace building category
</li><li>
Integrated Command Control Centre: In the unique office category
</li><li>
Yadagirigutta Temple: Excellent religious structures category
</li><ol>
<br /><div style="direction: ltr; text-align: left; line-height:1;">
The Telangana State bagged five 'Green Apple Awards' in the 'International Beautiful Buildings Green Apple Awards' under Urban and Real Estate Sector category, from London-based independent non-profit 'The Green Organization'.
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5278377707373857368.post-62073517537496704102023-05-23T13:43:00.002+05:302023-05-23T13:43:40.709+05:30نئے شہر حیدرآباد کی ٹریفک - دو بائک سواروں کا تصادم<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhGBXWc1DWvgjBOIZyf7ID-Ed5xtBhrPBer7ixr8BSlodPwokfkg89c-8OXaOFRWI4J3tkcLId7xz10UiOIoH-Hsc0QEpruFOGorAYQyHm7jV2TUWgaajMjaXXRlv8MdUrTrkmjhEfajZQrL-cxwd81k184M6u0jkbSkfIGALXjstfy6hNaFF-K9Et03A/s1600/bike-collision-hyderabad-new-city.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="" border="0" data-original-height="400" data-original-width="640" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhGBXWc1DWvgjBOIZyf7ID-Ed5xtBhrPBer7ixr8BSlodPwokfkg89c-8OXaOFRWI4J3tkcLId7xz10UiOIoH-Hsc0QEpruFOGorAYQyHm7jV2TUWgaajMjaXXRlv8MdUrTrkmjhEfajZQrL-cxwd81k184M6u0jkbSkfIGALXjstfy6hNaFF-K9Et03A/s1600/bike-collision-hyderabad-new-city.jpg"/></a></div>
<p>
<b>© مکرم نیاز</b> (حیدرآباد)۔
<br />
23/مئی/2023ء
<br />
*****
</p><br />
<p>
"نئے شہر کے ٹریفک تصادم میں بس اتنا فرق ہے کہ ٹائی لگائے سن گلاسز چڑھائے دونوں لیٹسٹ ماڈل بائک سوار خاموش رہ کر مگر بڑی شدت سے ایک دوسرے کو کئی منٹ تک محض گھورتے ہیں۔۔۔"
<br />
مرزا نے سنا تو ٹیڑھا منہ بنا کر بولے:
<br />
"پاشا! ایک فرق اور بھی ہے، دونوں کے دل میں جاری گالیوں کا شمار کرو تو وہ پرانے شہر کے لونڈوں کی زبانی کلامی سے ڈبل ٹرپل نکلتی ہیں!!"
</p><br />
<div style="direction: ltr; text-align: left;">
the Hyderabad Traffic, two bikes collision in new City areas.
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5278377707373857368.post-76620351229666190592023-05-05T16:55:00.004+05:302023-05-05T17:02:49.138+05:30برائی کی اشاعت اور اس کی تشہیر کے نقصانات<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi2O_vM3qsgXHrbZogv_L8HXWdtGIh3EI1G204hmMzAhpdLkVBzdvS1I9y8UD3MooSGlTvUKoMa9Evy7MRADGqE7lADDaX3VODBlXEqoF-an4XBtzVlh_CkRPwvGdhvBCrXMxBFjJT62vftVRU3MVR920734zILC-O7bFdPYqR1eLTAUt4r2-Ma1R5q4A/s640/stop-propaganda.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="" border="0" width="600" data-original-height="400" data-original-width="640" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi2O_vM3qsgXHrbZogv_L8HXWdtGIh3EI1G204hmMzAhpdLkVBzdvS1I9y8UD3MooSGlTvUKoMa9Evy7MRADGqE7lADDaX3VODBlXEqoF-an4XBtzVlh_CkRPwvGdhvBCrXMxBFjJT62vftVRU3MVR920734zILC-O7bFdPYqR1eLTAUt4r2-Ma1R5q4A/s600/stop-propaganda.jpg"/></a></div>
<p>
<b>© مکرم نیاز</b> (حیدرآباد)۔
<br />
5/مئی/2023ء
<br />
*****
</p><br />
<p>
ارشادِ باری تعالیٰ ہے ؛
<br />
لَا یُحِبُّ اللّٰہُ الْجَہْرَ بِالسُّوْءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ طُلِمَ
<br />
برائی کے ساتھ آواز بلند کرنے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا مگر مظلوم کو اجازت ہے۔
<br />
(النساء ؛ 148)
<br />
شریعت نے تاکید کی ہے کہ کسی کے اندر برائی دیکھو تو اس کا چرچا نہ کرو، بلکہ تنہائی میں اس کو سمجھاؤ ، اِلّا یہ کہ کوئی دینی مصلحت ہو۔ اسی طرح کھلے عام اور علی الاعلان برائی کرنا بھی سخت ناپسندیدہ ہے۔ ایک تو برائی کا ارتکاب ویسے ہی ممنوع ہے ، چاہے پردے کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔ دوسرا ، اسے برسرعام کیا جائے یہ مزید ایک جرم ہے اور اس کی وجہ سے اس برائی کا جرم دگنا بلکہ دس گنا بھی ہو سکتا ہے۔
</p><br />
<p>
عموماً کہا جاتا ہے کہ ۔۔۔ ذاتی برائی کو چھپانے کا ذکر شریعت میں بیان ہوا ہے۔ جبکہ قرآن میں تو جابجا اجتماعی برائیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا رد کیا گیا ہے۔
<br />
مگر یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کسی برائی کے اجتماعی سطح پر فروغ یا عمل کی شناخت کا انسانی پیمانہ کیا ہے؟ اور اگر کسی سروے سے یہ پتا چلا بھی لیا جائے تو اس کے خاتمے کی کوشش کی جائے گی یا اس سروے کے نتائج کی تشہیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے گا؟ کیا اس قسم کی محض "تشہیر" متذکرہ برائی کو ختم کرے گی یا اسے مزید استحکام عطا کرے گی؟ خاص طور پر اس صورت میں کہ انسان کمزور واقع ہوا ہے اور بھلائی کی بہ نسبت برائی کی طرف جلد راغب ہوتا ہے۔
</p><br />
<p>
سید سعادت اللہ حسینی اپنے مضمون "اصلاح معاشرہ اور سماجی معمولات" (شائع شدہ: زندگی نو، مارچ 2021ء) میں لکھتے ہیں ۔۔۔
</p>
<blockquote><p>
ایک بڑی اہم بات جو خاص طور پر نوٹ کرنے کی ہے وہ یہ ہے کہ:
<br />
غلط معمولات کی تشہیر ان کو مزید مستحکم کرتی ہے،خاص طور پر اس وقت جب یہ بات سامنے لائی جاتی ہے کہ معاشرے میں اس برائی کا بکثرت لوگ ارتکاب کر رہے ہیں۔
<br />
سماجی معمول بنتا ہی اس لیے ہے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے یہ کام کر رہے ہیں۔ اس لیے ان پر عمل کے جتنے زیادہ واقعات علم میں آتے جائیں گے، یہ یقین اور مستحکم ہوگا کہ یہ عمل سماج میں عام اور سماج کے نزدیک پسندیدہ عمل ہے۔
</p><br />
<p>
عام طور پر مصلحین یہ غلطی کرتے ہیں کہ کسی غلط عمل کی اصلاح کے لیے اس برائی کے پھیلاؤ اور اس کی قبولیتِ عامہ کا بار بار تذکرہ کرتے ہیں۔
<br />
مثلاً چند برسوں سے اس مسئلے کی بہت دھوم ہے کہ مسلمان لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادیاں کر رہی ہیں۔ مقررین اور وہاٹس اپ مصلحین، اس رجحان کو مبالغے کے ساتھ، اعداد و شمار کے حوالوں سے بہ تکرار بیان کرتے ہیں۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں اس عمل کی قباحت اور اس کے ابنارمل ہونے کا احساس ختم ہونے لگتا ہے۔ یہ معلومات کہ اب اس برائی کو سماج میں بہت سے لوگوں نے اختیار کر لیا ہے، اسے نارمل بنا دیتا ہے۔ یوں ایسے طرزِ عمل سے، متذکرہ برائی کو ختم کرنے میں مدد نہیں ملتی بلکہ وہ مستحکم ہوتی جاتی ہے۔
</p><br />
<p>
اسلام کی اخلاقی تعلیمات کا ایک اہم امتیاز یہ ہے کہ برائی کی ٹوہ اور تجسس کو نیز اپنی یا دوسروں کی برائیوں کی تشہیر کو اس نے ایک اخلاقی جرم قرار دیا ہے۔ بعض مذہبی فلسفوں میں گناہوں کے عوامی اعتراف (confession) کو ایک اخلاقی خوبی سمجھا جاتا ہے۔ اسلام نے اس کے مقابلے میں گناہوں کو چھپانے کا حکم دیا ہے۔ اپنے گناہوں کو بھی اور دوسروں کی ایسی غلط کاریوں کو بھی جن کے اخفا سے کوئی بڑا عوامی نقصان درپیش نہ ہو۔
</p><br />
<p>
برائی کی مسلسل تشہیر سے ضمیر اس برائی سے مانوس ہونے لگتا ہے اور اسے نارمل سمجھنے لگتا ہے۔ اس لیے اصلاحی کوششوں میں یہ ہدف نہایت ضروری ہے کہ برائی کو ایک ناپسندیدہ ہی نہیں بلکہ نامانوس اور خلاف معمول (abnormal) چیز بنایا جائے اور اس کے لیے منصوبہ بند کوشش کی جائے۔ اس برائی کے مقابلے میں معاشرے میں جو اچھائی پائی جاتی ہے، اس کو مشہور کیا جائے۔
</p></blockquote>
<br />
<p>
مسلم معاشرے میں ایسے کئی خاندان، گروہ یا محلے ہوں گے جہاں جھوٹ، دروٖغ گوئی، بدزبانی، بددیانتی، دھوکہ دہی جیسی لاتعداد برائیاں پنپ رہی ہیں مگر ہم فلاں فلاں کا نام لے کر اجتماعی تشہیر نہیں کرتے۔۔۔ تو پھر کیوں ہم غیروں کے پھیلائے گئے پروپگنڈہ کا شکار ہو کر انہیں پھیلانے پر کمربستہ ہیں کہ: "مسلمان لڑکیاں ارتداد کا مسلسل شکار ہو رہی ہیں!"
<br />
کیا اس برائی کی محض تشہیر سے ہماری آپ کی بہنیں بیٹیاں محفوظ ہو جائیں گی؟
<br />
اگر نہیں تو خدارا ہوش کی دوا کریں اور اس قسم کی منفی تشہیر میں حصہ لینے کے بجائے، اس کی روک تھام کی کوششوں میں اپنا وقت لگائیے، اس کے مقابلے میں اچھائیوں کو فروغ دیجیے، بہنوں بیٹیوں کے مورال کو بلند کرنے کی سعی کیجیے۔
<br />
<div style="direction: ltr; text-align: left;">
Stop the evil propaganda.
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-5278377707373857368.post-25026305797353399512023-05-01T15:09:00.004+05:302023-05-01T15:18:34.094+05:30اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ ماہ لقا چندا بائی اور آصف جاہ ثانی<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhz2jJj86dgIyjCePB5YqGjPtxAWMi6cla2hzcXEkaZV-bo5GywJO6b2DZ9x4RiQCWP4V2U4g3_1gwfMRvueJ96ABnr71qnJ-pY-jW1n0jNIzNS-ugMZxBh2ZTxyj9QH33vOZW-AeMqV4-KVBY967We8ZetWkLOMz6oxKwhLAiDgwMcbteWP5xuu5hYVA/s660/mah-liqa4.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="" border="0" width="600" data-original-height="446" data-original-width="660" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhz2jJj86dgIyjCePB5YqGjPtxAWMi6cla2hzcXEkaZV-bo5GywJO6b2DZ9x4RiQCWP4V2U4g3_1gwfMRvueJ96ABnr71qnJ-pY-jW1n0jNIzNS-ugMZxBh2ZTxyj9QH33vOZW-AeMqV4-KVBY967We8ZetWkLOMz6oxKwhLAiDgwMcbteWP5xuu5hYVA/s600/mah-liqa4.jpg"/></a></div>
<p>
<b>© مکرم نیاز</b> (حیدرآباد)۔
<br />
یکم/مئی/2023ء
<br />
*****
</p><br />
<p>
مہ لقا چندا کی شاعری اور رقص معروف باتیں ہیں، لہذا ان پر اعتراض نہیں ہے۔ اعتراض "طوائف" باور کرانے پر ہے اور اس بات پر بھی کہ:
<br />
"آصف جاہ ثانی نے مہ لقا سے ہم بستری کی اور پھر چند دن بعد ان کی وفات ہو گئی۔"
</p><br />
<p>
کسی کتاب میں کسی واقعہ کا بیان ہونا، اس واقعہ کو "سچا" ثابت نہیں کر دیتا۔ یہ معمولی سی بات تو ہر کوئی جانتا ہی ہے۔ اگر ہم اس طرح اول جلول بےسند واقعات پر یقین کرتے بیٹھیں تو خلفائے راشدین بھی بچ نہ پائیں گے کہ تاریخ کی کتابوں میں نہایت قابل اعتراض بےسند واقعات بھرے پڑے ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ایک مولانا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شراب پینے والے واقعہ کو بیان کیا تھا۔۔۔ اور سوشل میڈیا پر ہم سب نے دیکھا کہ پھر ان مولانا کا کیا حشر کیا گیا؟؟
<br />
لہذا معاشرے کی معتبر شخصیات سے مودبانہ گذارش بس اتنی ہے کہ بےسند واقعات کو اپنی ٹائم لائن پر پیش نہ فرمائیں۔ خاص طور پر جب معاملہ کسی مذہبی پیشوا یا کسی حکمران سے متعلق ہو۔
</p><br />
<p>
ماہ لقا پر عہد حاضر کے جن دانشوروں نے مضامین لکھے جیسے ڈاکٹر زور مرحوم اور مشہور صحافی اور ادیب اختر حسن مرحوم وغیرہ۔۔۔ ان میں سے کسی نے اپنے طویل مضامین میں ماہ لقا کے لیے طوائف کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ نصیر الدین ہاشمی، حیدرآباد دکن کی تاریخ و ادب کی نامور شخصیت ہیں، وہ اپنی کتاب "دکن میں اردو" میں لکھتے ہیں:
<br />
"طوائف کے نام سے ممکن ہے ذہن آج کل کی طرف منتقل ہو مگر ایسا نہیں تھا، چندا ایک خاندانی خاتون تھی اور پیشہ ور طوائف نہیں تھی"۔
</p>
<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiPr-Zzk3MlBrhP5FUZTPQ-uFH_MF0sxSKPriWE-Xk8HAFvum0wa45zM56BZUB3o1NBxmzQpRxXNSmt1kSesMvKTMGhFs6ZFANUqoGoaqq---Tm8bze-XEe1k6Va8doCBOx-9bLgX4EncX7ES4akXAKs8vvIehLkuWG-zFQsCoPCUIj157Hq43JB4DGVw/s1300/mah-liqa1.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="" border="0" height="400" data-original-height="1300" data-original-width="800" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiPr-Zzk3MlBrhP5FUZTPQ-uFH_MF0sxSKPriWE-Xk8HAFvum0wa45zM56BZUB3o1NBxmzQpRxXNSmt1kSesMvKTMGhFs6ZFANUqoGoaqq---Tm8bze-XEe1k6Va8doCBOx-9bLgX4EncX7ES4akXAKs8vvIehLkuWG-zFQsCoPCUIj157Hq43JB4DGVw/s400/mah-liqa1.jpg"/></a></div>
<p>
پروفیسر عبدالمجید صدیقی اپنی کتاب "ارسطو جاہ" میں لکھتے ہیں:
<br />
یہ دیکھ کر اچنبھا ہوتا ہے کہ زندگی کے اس میدان (تہذیب و تمدن) میں بعض عورتوں نے بھی مردوں کے دوش بدوش کام کیا اور تاریخ کے صفحات پر اپنے کارناموں کے ایسے نقوش چھوڑے جن کو تاریخ نہیں بھلا سکتی۔ ان عورتوں میں چندا بائی ماہ لقا کا نام سرفہرست آتا ہے۔ ماہ لقا خاندانی طوائف نہ تھی بلکہ ناسازگار حالات کی وجہ سے ان کانٹوں میں گھسیٹی گئی اور حقیقت بھی یہی ہونی چاہیے کیونکہ ماہ لقا کی تمام زندگی میں ایک شائستہ خاندان کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ ایک نری رقاصہ جس کا کوئی ثقافتی پس منطر نہ ہو وہ اتنی بڑی ادیب، شاعر اور سرتاج سماج کیسے ہو سکتی ہے؟ ماہ لقا کی تاریخ کیا ہے، وہ اصل میں حیدرآباد کی تاریخ ہے۔ اس پر نظر ڈالنے سے اٹھارویں اور انیسویں صدی کی تمام تر سیاست اور معاشرت آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے۔ یہ رقاصہ کی سوانح نہیں بلکہ ایک بڑی شخصیت کی سرگذشت ہے۔
</p><br />
<p>
نظام علی خاں آصف جاہ ثانی کی سوانح حیات دو جلدوں میں (مصنف: سراج الدین طالب) ریختہ پر موجود ہے، اور اس میں کہیں بھی وہ واقعہ موجود نہیں جس کا ذکر کیا گیا ہے۔
<br />
پھر راحت عزمی کی مہ لقا چندا کی سوانح پر مبنی ایک تحقیقی کتاب بھی ریختہ پر موجود ہے، اس میں بھی اس واقعہ کا کوئی تذکرہ نہیں۔
</p>
<blockquote>
یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
<br />
<a href="https://www.taemeernews.com/2021/03/mah-laqa-bai-chanda.html" target="_blank">ماہ لقا بائی چندا - آصف جاہی دور سلطنت کی با اثر خاتون</a>
</blockquote>
<p>
فاروق ارگلی صاحب نے جس کتاب میں درج واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ غالباً نجم الغنی رامپوری کی تالیف "تاریخ ریاست حیدرآباد" ہے جس میں تاریخ خورشید جاہی سے ماخوذ متذکرہ واقعہ نقل کیا گیا ہے۔ راحت عزمی نے اپنی کتاب "ماہِ لِقا : حالاتِ زندگی مع دیوان" کے صفحہ:141 پر نجم الغنی رامپوری کا یہی اقتباس درج کیا ہے جو کچھ یوں ہے:
<br />
""بڑے بیٹے (احمد علی خاں عالیجاہ) کی موت وغیرہ کے بعد نواب کا مزاج اعتدال سے منحرف رہتا تھا۔ ارکان دولت اور بیگمات محل کے کہنے سے طبیعت کی درستی کے لیے عیش و عشرت کی طرف مائل ہوئے۔ دربار میں ہمیشہ ناچ رنگ رہنے لگا۔ تاریخ خورشید جاہی میں لکھا ہے کہ اکثر آدمیوں نے اپنی لڑکیاں ہزاروں زیب و زینت کے ساتھ آراستہ کرکے نواب کو پیش کیں، ان میں سے بعض ہی کو نواب سے ہم بستری کا شرف حاصل ہوا۔ نواب کے عہد میں چندابائی نامی ایک کسبی تھی نہایت حسین و شکیل، ماہ لقا بائی اس کا خطاب تھا۔ اختر تاباں سے معلوم ہوتا ہے کہ چندا اس کا نام اور ماہ لقا اس کا خطاب تھا۔ گانے بجانے کے فن میں ماہر اور علم موسیقی کی باریکیوں سے واقف تھی، اردو میں صاحبِ دیوان تھی اور اس فن میں ہندوستان میں سب سے پہلی صاحب دیوان عورت تھی۔ اس کو نواب کے خواصوں میں داخل ہونے کی بڑی آرزو تھی مگر نواب نے کبھی دست مواصلت دراز نہ کیا مگر اس کے قدردان تھے ، اس کا رقص ملاحظہ کرتے اور چندا سے خوب صحبت رہنے لگی تھی۔""
</p><br />
<p>
پھر راحت عزمی اس اقتباس کے بعد لکھتے ہیں۔۔۔
<br />
اس اقتباس پر تبصرہ کرتے ہوئے شفقت رضوی ، عابد علی خان (مدیر روزنامہ سیاست، حیدرآباد) کی مرتب کردہ کتاب "صورت گران دکن" میں لکھتے ہیں (صفحہ: 172):
<br />
اہل علم نے اس اقتباس کو ملاحظہ کرکے اندازہ کر لیا ہوگا کہ الفاظ کے طوطے مینا اڑانا اور ہے، تاریخ نویسی کا حق ادا کرنا اور۔ رامپوری صاحب اس حقیقت کو نظرانداز کر گئے کہ نواب صاحب کے بڑے بیٹے سید احمد علی خان عالیجاہ کا انتقال 1210ھ میں ہوا جبکہ چندا کم عمری سے ہی تقریب شاہی سے سرفراز تھی۔
</p>
<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhxv7eVjAtEFiKQge2HGcvQ4IBH_zv2twyEsrQUBK2-xzkBfQbQ9Hk-nFGF4zx1KzhF86TNYBtmMRr6F_Fq-c59TjvF7qpTzK-pFG9-qKY_-Q0CMFrTQy0ySAoX0gv9VDVtdSAzUT5c27aYMREiKBRoA103oYVbOP_QxxSInrL0y4BxQ3jbI_z-ds_AMw/s746/nizam-2.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="" border="0" height="400" data-original-height="746" data-original-width="566" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhxv7eVjAtEFiKQge2HGcvQ4IBH_zv2twyEsrQUBK2-xzkBfQbQ9Hk-nFGF4zx1KzhF86TNYBtmMRr6F_Fq-c59TjvF7qpTzK-pFG9-qKY_-Q0CMFrTQy0ySAoX0gv9VDVtdSAzUT5c27aYMREiKBRoA103oYVbOP_QxxSInrL0y4BxQ3jbI_z-ds_AMw/s400/nizam-2.jpg"/></a></div>
<p>
راحت عزمی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
<br />
آصف جاہ ثانی کی عمر اپنے فرزند عالیجاہ کے انتقال کے وقت (60) سال کی تھی، کیا ساٹھ سال کی عمر میں جوان بیٹے کی موت کے صدمے کو دور کرنے کے لیے ایک ضعیف باپ کے لیے عیش و عشرت کے سامان کامیاب ہو سکتے ہیں؟ راگ رنگ کی بزم اگر آراستہ بھی ہوتی رہے تو جوان بیٹے کی موت کے صدمے کا علاج نہیں بن سکتی۔ نجم الغنی کا دیا ہوا اقتباس دکن کی تہذیب کو مسخ کرنے کی ایک کوشش بھی ہے۔ کیونکہ اسی آصف جاہ ثانی نے (اپنے وزیراعظم) ارسطو جاہ کے بیٹے کے انتقال اور ان کے حواس کھو دینے پر اپنے بیٹے (سکندر جاہ) کو ان کی گود میں یہ کہہ کر دے دیا تھا کہ وہ انہیں اپنے مذہب پر تربیت کر سکتے ہیں اور ایسا ہی ہوا۔ کیا ایسا درد مند دل رکھنے والا فرمانروا اپنے بیٹے کا غم غلط کرنے کے لیے ناچ رنگ کو ذریعہ بنا سکتا ہے؟
</p>
<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi1ghLpxuXWneN_symGnJD0Xfn30w2PcVbOg4WklfjoYv-rQaLmG94x85i8XqIGEsSZjK-T72JGwnsXWELmmQIYHV1sk3WXlhjUbUl_avQ3wSZdzzpuhyJTMzunAQTrQZPCtHWszn9JBfXt5gR4W_U5npDDSGvBg-A8mXSv85Y1G9GclTONDKqeTGkjGQ/s1600/mah-liqa2.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="" border="0" data-original-height="203" data-original-width="610" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi1ghLpxuXWneN_symGnJD0Xfn30w2PcVbOg4WklfjoYv-rQaLmG94x85i8XqIGEsSZjK-T72JGwnsXWELmmQIYHV1sk3WXlhjUbUl_avQ3wSZdzzpuhyJTMzunAQTrQZPCtHWszn9JBfXt5gR4W_U5npDDSGvBg-A8mXSv85Y1G9GclTONDKqeTGkjGQ/s1600/mah-liqa2.jpg"/></a></div>
<div style="direction: ltr; text-align: left;">
Mah-e-Liqa Chanda and Asif jah saani.
</div>
TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5278377707373857368.post-33438032623052949492023-04-28T16:20:00.003+05:302023-04-28T16:20:48.700+05:30کرنے کے کام اور ہماری ترجیحات<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg80-wF3kNHCGh1ZwJI3w3FSmV3I0DwZlloY2Y5JdjOG8MDr1X8tuM2YjRDfdv38VpkMJiBhu5C6sj4g53Mw-ZGpq9ppa_5qhh4i8niaKfQzs76AwvpeyEQ2bHYLDoLAGVEswZ6M-R_q4mQuQ2KPWDtFDmr9eLmJLFuB154r3Th_ZWok7yODVqZV_zong/s640/preferences.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="our preferences" border="0" width="600" data-original-height="400" data-original-width="640" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg80-wF3kNHCGh1ZwJI3w3FSmV3I0DwZlloY2Y5JdjOG8MDr1X8tuM2YjRDfdv38VpkMJiBhu5C6sj4g53Mw-ZGpq9ppa_5qhh4i8niaKfQzs76AwvpeyEQ2bHYLDoLAGVEswZ6M-R_q4mQuQ2KPWDtFDmr9eLmJLFuB154r3Th_ZWok7yODVqZV_zong/s600/preferences.jpg"/></a></div>
<p>
<b>© مکرم نیاز</b> (حیدرآباد)۔
<br />
28/اپریل/2023ء
<br />
*****
</p><br />
<p>
آج کی نمازِ جمعہ کے دوران مسجد میں کچھ مشاہدات۔
<br />
اذاں و اقامت کے دوران دیکھا گیا کہ نبی کریم ﷺ کے اسمِ گرامی پر چند مصلیان نے انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر پھیرے۔۔ ایک صاحب کو دیکھا کہ سنت/نفل کے آخری تشہد کی دعاؤں کے بعد سلام پھیرنے سے قبل شرٹ کا کالر ہٹا کر انہوں نے سینے پر پھونک ماری۔ جمعہ کی فرض نماز کے بعد (یا عام دنوں کی پنج وقتہ نمازوں کے بعد) امام صاحب کی طرف سے اجتماعی دعا کا لزوم اور نمازیوں کی اس دعا میں لازمی شرکت کا احترام و التزام۔
</p><br />
<p>
حالانکہ یہ تینوں باتیں کسی مستند حدیث سے نہ ثابت ہیں اور نہ ہی عبادات کا حصہ ہیں۔ البتہ ان پر چھوٹتے ہی اعتراض کر بیٹھنا اس لیے بھی مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ ممکن ہے کہ یہ سب لاعلمی کے باعث ہو یا بزرگوں سے چلی آ رہی روایات پر کاربند رہنے کا معاملہ ہو۔ دوسروں سے کیا شکایت کہ ہم خود بھی ایک زمانے میں، (لاعلمی کے سبب) ان روایات پر پابندی سے عمل پیرا رہے ہیں۔
</p><br />
<p>
ہم علماء و مصلحین کو بھی دوش نہیں دینا چاہتے کہ یہ انفرادی و اجتماعی معاملہ متعلقہ میدان کے مصلحین کے ذمہ ہے اور یہ کام گراؤنڈ لیول پر نبھانا چاہیے نہ کہ سوشل میڈیا پر بیٹھ کر قلمی تو تڑاخ کی جائے۔
<br />
ہماری عرض گذارش صرف اتنی ہے کہ ۔۔۔۔
<br />
ٹھیک ہے مان لیا کہ سادہ لوح عوام کے پاس اتنا سنجیدہ وقت نہیں کہ تحقیق کرتے بیٹھیں کیا درست ہے اور کیا نادرست؟
<br />
لیکن ۔۔۔ جو باتیں صحیح سند سے ثابت ہیں اور جن کی تکرار جمعہ کے خطبوں اور دینی مجالس میں کی جاتی رہی ہے ۔۔۔ کم از کم ان پر تو ہم سب سنجیدگی سے عمل پیرا ہونے کی روش اپنائیں۔ مثلاً یہ تین معاملات ملاحظہ فرمائیں:
</p><br />
<p>
(1) <b>جمعہ کی نماز کے دوران گردنیں پھلانگ کر آگے جانا</b>
<br />
جمعہ کو جب مسجد میں داخل ہوں تو جہاں جگہ مل جائے بیٹھ جانا چاہیے، لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اگر آگے جگہ حاصل کرنا مقصود ہو تو مسجد کو جلد آئیں تاکہ اگلی صف میں جگہ ملے اور پہلے آنے کا ثواب بھی مل جائے۔
<br />
حدیث:
<br />
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے تو ایک آدمی لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے آگے آنے لگا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم نے لوگوں کو تکلیف پہنچائی ہے اور (آنے میں) دیر کی ہے۔
<br />
(ابوداؤد ، مسند احمد)
</p><br />
<p>
(2) <b>اپنا کام خوش اسلوبی اور مہارت سے نپٹائیں</b>
<br />
ہم کسی بھی میدان کے ماہر ہوں، کسی دفتر میں ملازم ہوں، کاروباری ہوں، ڈاکٹر انجینئر وکیل صحافی ہوں، خانہ دار خاتون ہوں ۔۔۔ اپنا کام ایمانداری، اپنی قابلیت و مہارت کے حساب سے ادا کرنے کی ممکنہ کوشش کرنی چاہیے۔
<br />
حدیث:
<br />
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بےشک اللہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص جب کوئی کام کرے تو خوش اسلوبی اور مہارت سے کرے۔
<br />
(طبرانی المعجم الاوسط، سلسلہ الاحادیث الصحیحہ : ح:1113)
</p><br />
<p>
(3) <b>مہمان کی ضیافت کریں</b>
<br />
یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ اپنے مہمان کی دستور کے موافق ہر طرح سے عزت کرنی چاہیے اور کم از کم ایک دن اور ایک رات مہمان کی ضیافت کرنا واجب ہے۔ (دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کامل ضیافت تین دن ہے)۔ ویسے ضیافت کا معاملہ دور سے سفر کرکے آنے والوں سے متعلق ہے، جو قریب سے زیارت کرنے آئے یا یونہی ملنے جلنے والے لوگوں کے لئے میزبان پر ضیافت کرنا واجب نہیں ہے۔ البتہ ملاقات کے لیے جو مہمان حاضر ہو تو بغیر تکلف کے جو بن سکے پیش کرنا چاہئے خواہ ایک گلاس پانی ہی سہی۔ صرف کھڑے کھڑے باتوں پر نہیں ٹرخانا چاہیے۔
<br />
حدیث:
<br />
فرمانِ نبوی ہے کہ : اس شخص میں کوئی بھلائی نہیں ہے جو میزبانی نہ کرے۔
<br />
(صحیح الجامع)
</p>
<div style="direction: ltr; text-align: left;">
Our preferences regarding religious teachings
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5278377707373857368.post-78708131229147387912023-04-23T14:06:00.003+05:302023-04-23T14:10:25.711+05:30روشن لمحے : علمی و دینی مضامین - مکرم نیاز کی نئی کتاب<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgoRIrdZF6cN4QV-3hx828H4NUC1ZzEpSmuNAztV71KVO97y6QvlJJjsi0Vnht2oLHmCBsIAptsq7kZoRia_s7upVsp0msE05XWLbxFGOraF2qdTXwed7EzAXyTbcbv5rkOpdwM8hFbJ9_c7uZG9-PXjDSK5jugwdMN5oAdPwJQAjTm9Xvsf9f4hi7T5g/s1600/raushan-lamhe.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="raushan-lamhe book launch" border="0" width="600" data-original-height="1200" data-original-width="1600" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgoRIrdZF6cN4QV-3hx828H4NUC1ZzEpSmuNAztV71KVO97y6QvlJJjsi0Vnht2oLHmCBsIAptsq7kZoRia_s7upVsp0msE05XWLbxFGOraF2qdTXwed7EzAXyTbcbv5rkOpdwM8hFbJ9_c7uZG9-PXjDSK5jugwdMN5oAdPwJQAjTm9Xvsf9f4hi7T5g/s600/raushan-lamhe.jpg"/></a></div>
<p>
<b>© مکرم نیاز</b> (حیدرآباد)۔
<br />
23/اپریل/2023ء
<br />
*****
</p><br />
<p>
کتاب کا نام: روشن لمحے (علمی و دینی مضامین)
<br />
مصنف/مرتب: مکرم نیاز
<br />
صفحات: 104
<br />
قیمت: 200 روپے (اسپیشل آفر محدود مدت کے لیے)
</p><br />
<p>
مکرم نیاز کی پانچویں کتاب اگلے ہفتہ ہندوستانی قارئین کے لیے دستیاب رہے گی۔ محدود تعداد میں شائع کی جا رہی ہے اور محدود مدت کے لیے تقریباً 33 فیصد ڈسکاؤنٹ بھی دیا جا رہا ہے ونیز ڈاک خرچ مفت۔
<br />
بین الاقوامی قارئین براہ راست امیزون انٹرنیشنل یا بارنس اینڈ نوبل سے حاصل کر سکتے ہیں۔ (لنک کمنٹ میں ۔۔۔)
</p><br />
<p>
ہرچند کہ یہ کتاب کچھ عرصہ قبل کے وعدے کے مطابق شائع ہو جانی چاہیے تھی بالخصوص رمضان کے مہینے میں تو اس کی طباعت کا ارادہ قوی تھا۔۔۔ مگر بہرحال ع : ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا
</p><br />
<p>
زیرنظر کتاب پندرہ (15) علمی و دینی طرز کے مضامین پر مشتمل ہے جن میں سے سات (7) مضامین معروف علمی و دینی شخصیات کے تحریرکردہ ہیں جیسے امام حسن البنا شہید، عادل صلاحی، ابوالاشبال احمد شاغف بہاری، نثار احمد حصیر القاسمی، شاہنواز فاروقی وغیرہ۔
<br />
باقی آٹھ (8) مختصر مضامین اس خاکسار کے قلم سے سرزد ہوئے ہیں اور جو فیس بک کے علاوہ کچھ ویب سائٹس پر بھی شائع ہو چکے ہیں۔
<br />
گو کہ یہ سارے مضامین شائع شدہ ہیں مگر ان میں جو موضوعات برتے گئے ہیں وہ عصر حاضر کے مسائل، رجحانات، حکمت و موعظت کے لحاظ سے اپنی جگہ ایک واضح اہمیت اور قدر رکھتے ہیں۔ لہذا انہیں ایک کتاب کی شکل میں جمع کرنے کا 'تعمیر پبلی کیشنز' کی جانب سے اہتمام کیا گیا ہے۔
</p>
<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjJ-n8zEDFnQ1QaSy_PVUNq8rvrEot0dxGaikuoTqjgA331jidkhXsM9XmaCvHVNLROYm1-dCoDgCiMifcAXrX8edtA1fUNdo6sVxaHtheyTJQgb8fqTisq5KaCCAKfpZCW0zMy1C4kPoJuXkw75mBTDhRTniTzx1aizcCjbjef-afHsaz7UuNFVfDyDg/s1200/raushan-3.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="raushan-lamhe book launch" border="0" height="600" data-original-height="1200" data-original-width="800" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjJ-n8zEDFnQ1QaSy_PVUNq8rvrEot0dxGaikuoTqjgA331jidkhXsM9XmaCvHVNLROYm1-dCoDgCiMifcAXrX8edtA1fUNdo6sVxaHtheyTJQgb8fqTisq5KaCCAKfpZCW0zMy1C4kPoJuXkw75mBTDhRTniTzx1aizcCjbjef-afHsaz7UuNFVfDyDg/s600/raushan-3.jpg"/></a></div>
<p>
ایک نظر فہرستِ مضامین پر دوڑا لیجیے تو امید ہے کتاب کی قدر و اہمیت کا تھوڑا بہت اندازہ ہوگا:
<br />
دینی کالم: اہمیت، تقاضے // مذہب: ٹکراؤ اور جنگ // مختلف المذاہب انسانوں کی قدرِ مشترک // کتب احادیث کی اہمیت // وراثت میں عورت کا حق // صحت و تندرستی کی حفاظت // تواضع و انکساری
<br />
توکل کی ضرورت اہمیت // فروعی مسائل اور حقوق العباد // سوشل میڈیا پر تعلق و روابط کے اصول و ضوابط // مرحوم و شہید کی لسانی بحث // نماز اور گھٹنے کے مسائل // رمضان کے ٹھنڈے روزے // عبادات کے اصول
</p>
<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiztyRJAleD1FAjLlBrNZ9RMANWcZ9TCiTNQWPv-S-H_sQ49GF3mCm-L-HWr4DI5JcIPG3OFpSFudjvF8dl5iVgNA3_63r2DjINOW-E7JflE7fxEr4RO4FBR1jvbMLWjSEHNUElCIf1kKimOsSOqM4asfNKFis8oMy07C9cNxzudLUT2Gn4iNpt5LZAMw/s1000/raushan-4.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="raushan-lamhe book launch payment" border="0" width="600" data-original-height="450" data-original-width="1000" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiztyRJAleD1FAjLlBrNZ9RMANWcZ9TCiTNQWPv-S-H_sQ49GF3mCm-L-HWr4DI5JcIPG3OFpSFudjvF8dl5iVgNA3_63r2DjINOW-E7JflE7fxEr4RO4FBR1jvbMLWjSEHNUElCIf1kKimOsSOqM4asfNKFis8oMy07C9cNxzudLUT2Gn4iNpt5LZAMw/s600/raushan-4.jpg"/></a></div>
<p>
کتاب سے محبت رکھنے والے سنجیدہ قارئین کے لیے عید کا تحفہ ۔۔۔
<br />
کتاب کی قیمت آن لائن پےمنٹ کے ذریعے ادا کی جا سکتی ہے، کیو آر کوڈ اس تحریر سے منسلک ہے۔
</p>
<br />
<div style="direction: ltr; text-align: left;">
The release of fifth (5th) book in Urdu by Mukarram Niyaz, Hyderabad.
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5278377707373857368.post-34774268117710885502023-04-18T23:51:00.005+05:302023-04-25T21:55:27.083+05:30عبادات توقیفی ہیں<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhtmA4THcy7hnOJxoXRK2G04Ik4ZUCfm6lwvCjBQYRoy7idEt8iI40VjL5tMhDYXLqwoai5LaMWxLVNgEb_KOi5dPrecJ0f10DwrK80rnIwVipDvU72cU8lb1RGrkUtjnz8LnIeaDMk8ihEDgZs77kXSeRKG0Z1zB6AvI8kCdQuJYwPakETrLskFPkltQ/s640/wazaif.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="" border="0" width="600" data-original-height="400" data-original-width="640" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhtmA4THcy7hnOJxoXRK2G04Ik4ZUCfm6lwvCjBQYRoy7idEt8iI40VjL5tMhDYXLqwoai5LaMWxLVNgEb_KOi5dPrecJ0f10DwrK80rnIwVipDvU72cU8lb1RGrkUtjnz8LnIeaDMk8ihEDgZs77kXSeRKG0Z1zB6AvI8kCdQuJYwPakETrLskFPkltQ/s600/wazaif.jpg"/></a></div>
<p>
<b>© مکرم نیاز</b> (حیدرآباد)۔
<br />
18/اپریل/2023ء
<br />
*****
</p><br />
<p>
عقیدہ اور عبادت
<br />
یہ دو ایسے اہم معاملات ہیں جہاں خود تراشیدہ "میری مرضی" یا خود ساختہ "میرا یقین" کا کوئی گزر نہیں۔
</p><br />
<p>
ہم دین یا عبادات کے نام پر کچھ بھی دعائیں کریں یا ذکر و اذکار، وظائف کا ورد کریں ۔۔۔ اس پر کسی کو کوئی اعتراض کا حق بےشک نہیں بنتا۔
<br />
البتہ یہاں باریکی کی ایک بات یہ ہے کہ ۔۔۔ عبادت (چاہے وہ دعا یا ذکر و اذکار ہی کیوں نہ ہو) کو بلا شرعی دلیل کے، کسی عدد، کیفیت یا کسی مخصوص دن یا جگہ یا وقت سے جوڑ دیا جائے تو ۔۔۔ یہ تھوڑا سنجیدہ اور متنازعہ مسئلہ بن جاتا ہے لہذا اس ضمن میں علماء و فقہاء کرام کی اکثریت دلائل کی بنیاد پر ایسے ذکر و اذکار سے بھی روکتی ہے۔ جیسا کہ مولانا قاسم نانوتویؒ کے ایک قول کے مفہوم کے بموجب:
<br />
واضح رہے کہ کوئی دینی فریضہ اور عبادت بغیر حکمِ شارعؐ کے، واجب الاعتقاد یا ضروری العمل نہں ہو سکتا، یعنی:
<br />
"عبادات توقیفی ہیں اس میں عقل قیاس کا کوئی دخل نہیں"
</p><br />
<p>
بالفاظ دیگر: عبادات کے اصل عدد، کیفیت اور جگہ کے بارے میں کسی شرعی دلیل کی بنیاد پر ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مشروع ہے، بصورت دیگر، یہ عبادت نہیں بلکہ دین میں بدعت ہے۔
</p><br />
<p>
اور دین کا یہ درج بالا ضابطہ (عبادات توقیفی ہیں) تقریباً تمام ہی مکاتبِ فکر کے نزدیک مستند کلیہ ہے۔
<br />
اللہ اور رسول (ﷺ) کے فرامین کے مطابق دعا بھی عین عبادت ہے، لہذا دعا کے معاملے میں بھی شریعت کی طےشدہ حدود کو توڑا نہیں جا سکتا۔
</p><br />
<p>
اگر ہم کہیں کہ اللہ تعالی انسان کی نیت اور دل کا جذبہ و ایمان دیکھتا ہے لہذا طریقہ یا rituals کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے تو عبادت کے تعلق سے ایسا کہنا گویا نبی ﷺ کے حکم کے خلاف جانا ہے۔ کیونکہ ہمارے پیارے رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
<br />
من عمل عملا ليس علیہ امرنا فهو رد
<br />
"جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر نہیں ہے تو وہ مردود ہے"
<br />
(صحیح مسلم کتاب الاقضیۃ باب نقض الاحکام الباطلۃ اور صحیح بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)
</p><br />
<p>
سنن دارمی میں صحیح سند کے ساتھ صحابی عبداللہ بن مسعودؓ کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ انہوں نے کوفہ کی ایک مسجد میں چند نمازیوں کو کنکریوں پر سو سو مرتبہ تسبیحات (اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ اور سبحان اللہ) پڑھتے دیکھا تو انہیں کنکریاں مار مار کر مسجد سے یہ کہتے ہوئے باہر نکال دیا کہ: تم بدعت نکال لاتے ہو یا تم محمدﷺ کے صحابہ سے علم میں بڑھ چکے ہو؟
<br />
ان لوگوں نے عرض کیا کہ: "اللہ کی قسم، ہمارا ارادہ صرف نیک ہے۔"
<br />
حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا: "کتنے نیکی کے خواہش مند ایسے ہیں جو نیکی نہیں کرتے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ کچھ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ قرآن ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا اور اللہ کی قسم مجھے نہیں معلوم، ہو سکتا ہے ان میں سے اکثریت تم لوگوں کی ہو۔"
</p><br />
<p>
تو جو کوئی دوست کسی بھی وظیفے یا تسبیح میں کسی بھی قسم کا عقیدہ یا یقین رکھ کر عمل کرتے ہیں ۔۔۔ تو یہ ان کا انفرادی معاملہ ہے۔۔۔ ہم بہرحال علم و عمل میں کسی صحابی کے پیروں کی دھول بھی نہیں کہ انہیں کنکریاں ماریں یا ان کا مضحکہ اڑائیں۔ چونکہ اللہ کے ہاں جوابدہ تو فاعل ہوگا ہم نہیں، لہذا ہمارے لیے خاموشی ہی بہترین عمل ہے۔
</p><br />
<p>
البتہ جب کوئی تھوڑا آگے بڑھ کر، دین کا سہارا لے کر ایسے "نیک اعمال" کی ترغیب دلائے یا تبلیغ کرے تب خاموشی اختیار نہیں کی جا سکتی۔ ایسے معاملے میں دین کے واضح ارشادات کو عوام کی ناراضگی کے پیش نظر چھپایا نہیں جا سکتا۔
<br />
اس وقت تو بات اور بھی سنگین ہو جاتی ہے جب مبلغ یا مشورہ دینے والا دینی وظائف کے ورد کا طریقہ کار بتاتے ہوئے ان سے حاصل ہونے والے فائدے یا فوائد کا بھی تیقن دے۔ بےشک کسی کو فائدہ ہوتا ہو، مگر جیسا کہ پہلے ہی کہا جا چکا ہے کہ عبادت کے معاملے میں "قیاس" نہیں چل سکتا۔ ورنہ ایک کاہن اور نجومی جو پیشین گوئی کرتا ہے وہ کبھی کبھار سچ بھی تو نکلتی ہے ۔۔۔ مگر اس کے باوجود دین میں کاہنوں اور نجومیوں کے پاس نہ جانے اور ان کی بات پر یقین نہ رکھنے کا سخت حکم دیا گیا ہے۔
</p><br />
<p>
بہرحال سو باتوں کی صرف ایک بات بس اتنی کہ:
<br />
<b>ساری خیر و برکت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع میں ہے!!</b>
</p>
<div style="direction: ltr; text-align: left;">
The case of faith, prayers and supplications in Islam.
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5278377707373857368.post-65090728946296374222023-04-14T19:34:00.002+05:302023-04-14T19:54:05.404+05:30تلنگانہ جدید سکریٹریٹ عمارت اور ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کا بلند ترین مجسمہ<div class="separator" style="clear: both;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh8EeFvLs6rT0U_zRzAXiS0G7LrdEKL7OFTr11sQAuYUrclP-ybbQ3z_J3CbBJJh3v1dhXG59k8ZSYpzHyxM7pon6VyYv_z2m7YdYuyFGvR56OHNa8SSNCYFk6rYcVaNFqyXPo_VNy459fsHt59FI1LS-aNEI3ZGWO4b7QPJlVTI_WdBwexRiC-lbKCBA/s1000/ambedkar2.jpg" style="display: block; padding: 1em 0; text-align: center; "><img alt="" border="0" width="600" data-original-height="790" data-original-width="1000" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh8EeFvLs6rT0U_zRzAXiS0G7LrdEKL7OFTr11sQAuYUrclP-ybbQ3z_J3CbBJJh3v1dhXG59k8ZSYpzHyxM7pon6VyYv_z2m7YdYuyFGvR56OHNa8SSNCYFk6rYcVaNFqyXPo_VNy459fsHt59FI1LS-aNEI3ZGWO4b7QPJlVTI_WdBwexRiC-lbKCBA/s600/ambedkar2.jpg"/></a></div>
<p>
<b>© مکرم نیاز</b> (حیدرآباد)۔
<br />
14/اپریل/2023ء
<br />
*****
</p><br />
<p>
معمارِ آئینِ ہند : (بابا صاحب) بھیم راؤ رام جی امبیڈکر
<br />
پیدائش: 14/اپریل 1891ء
<br />
وفات: 6/دسمبر 1956ء
<br />
کے 132 ویں یومِ پیدائش پر جنوبی ہند ریاست تلنگانہ کا بھرپور خراج عقیدت
</p><br />
<p>
انڈیا کے بلند ترین امبیڈکر مجسمہ کی نقاب کشائی آج حیدرآباد میں تلنگانہ سکریٹریٹ کی نئی عمارت کے قریب وزیر اعلیٰ تلنگانہ چندر شیکھر راؤ (کے۔سی۔آر) کے ہاتھوں امبیڈکر جینتی پر منعقدہ فقید المثال تقریب کے دوران عمل میں آئے گی۔
<br />
واضح رہے کہ تلنگانہ سکریٹریٹ (دفاتر معتمدی) کی نئی عمارت بھی ڈاکٹر بی۔آر۔امبیڈکر کے اسم گرامی سے موسوم ہے۔ (تصویر ملاحظہ فرمائیں)۔
</p><br />
امبیڈکر مجسمہ اور اس کی عمارت کی چند خصوصیات:
<ul><li>
** محکمہ عمارات و شوارع (روڈس اینڈ بلڈنگس) کی زیرنگرانی مجسمہ اور متصل عمارت کی تعمیر عمل میں آئی ہے۔
</li><li>
** مجسمہ کا ڈیزائن 98 سالہ پدم بھوشن ایوارڈ یافتہ رام وانجی سوتر نے تیار کیا ہے جنہیں متذکرہ تقریب میں خصوصی تہنیت پیش کی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر بی۔ آر۔ امبیڈکر کے پوتے اور سابق رکن پارلیمان پرکاش امبیڈکر تقریب کے مہمانِ خصوصی رہیں گے۔
</li><li>
** مجسمہ کی جملہ اونچائی: 125 فیٹ (جس میں زمین سے 50 فیٹ بلند چبوترہ بھی شامل ہے)۔ اس عمارت میں امبیڈکر کی سوانح پر مبنی تصاویر گیلری، آڈیٹوریم اور میوزیم شامل ہیں۔ حسین ساگر سے متصل ساڑھے گیارہ ایکڑ پر یہ عمارت تعمیر کی گئی ہے اور اسی کے بازو میں تلنگانہ سیکرٹریٹ کی نئی عمارت واقع ہے۔
</li><li>
** مجسمہ 360 میٹرک ٹن اسٹین لیس اسٹیل سے تیار کردہ ہے جس کے بیرونی حصہ پر 114 میٹرک ٹن کانسہ (برانز) استعمال کیا گیا ہے۔ مجسمہ تقریباً 26 ہزار مربع فیٹ پر تعمیر کیا گیا ہے اور اس کی لاگت کا تخمینہ تقریباً 150 کروڑ روپے ہے۔
</li><li>
** عمارت سے متصل تقریباً تین ایکڑ رقبہ سبزہ زار پر مشتمل ہے۔ 450 کاروں کی پارکنگ کی سہولت کے علاوہ عمارت کی چھت پر جاکر مجسمہ کو قریب سے مشاہدہ کرنے کے لیے دو عدد لفٹ کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔
</li></ul>
<p>
عزت مآب وزیر عمارات و شوارع ویمولا پرشانت ریڈی کے بموجب:
<br />
یہ مجسمہ سکریٹریٹ کے قریب اس لیے بھی نصب کیا گیا ہے کہ تمام حکمرانوں، عہدیداروں اور ملازمین کو بابا صاحب امبیڈکر کی خدمات کی یاد دلائی جا سکے جنہوں نے دبے کچلے اور پسماندہ طبقات کو اونچا اٹھانے کی خاطر اپنی زندگی کو وقف کر دیا تھا۔
</p>
<div style="direction: ltr; text-align: left;">
Dr. BR. Ambedkar’s statue near Telangana State new Secretariat
</div>TaemeerNewshttp://www.blogger.com/profile/01832155146494375622noreply@blogger.com0