وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2013/03/13

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

عورت تصویر کائنات کا رنگ ہے !
عورت دنیا کی خوب صورتی ہے!
عورت زمین کا دل ہے !
عورت مرکز ثقل ہے !
عورت محبت ہے !
عورت ماں ہے ! عورت بیوی ہے ! عورت ایک رات ہے ! عورت ایک مسہری ہے ! عورت ایک کوٹھا ہے ! عورت ایک ڈاک بنگلہ ہے ! عورت ایک ہوٹل کا کمرہ ہے ! عورت چاندی کا سکہ ہے ! عورت پاؤں کی جوتی ہے !

عورت جب سامنے آتی ہے تو دنیا کی ساری خوبصورتیاں پیچھے ہٹتی چلی جاتی ہیں حتی کہ نگا ہوں سے اوجھل ہو جاتی ہیں اور نظروں کے سامنے صرف عورت ہی عورت باقی رہ جاتی ہے ۔ عورت جب سامنے آ جاتی ہے تو ارد گرد کی ساری خوبصورتیاں اس کے جسم میں سمٹ آتی ہیں اور اپنے آپ کو اس جسم میں کھو دیتی ہیں اور ختم کر دیتی ہیں ۔

عورت کے چہرے میں چودھویں کی رات کا چاند جگمگاتا ہے ۔ اس کی آنکھوں میں ستارے جھملانے لگتے ہیں ۔ اس کی آنکھوں کے جھنڈ میں چھپے ہوئے میٹھے پانی کے شفاف چشمے نظر آتے ہیں ۔ اس کی چھاتیوں میں پہاڑوں کا فراز ہوتا ہے ۔ اس کے ہونٹ گلاب کی پتیوں کی طرح مہکتے ہیں ۔ اس کی کمر میں ناری کی بیل کی لچک سمو جاتی ہے ۔ اس کے رخساروں پر لال لال شفق بکھر جاتی ہے اور سرو کا درخت اپنی بلند قامتی اس کے حوالے کر دیتا ہے ۔
اس کی آواز میں کوئل کی کوک، بلبل کا نغمہ، انگوروں کی مٹھاس اور کبوتروں کی اڑان ہوتی ہے ! وہ جب چلتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ بیسیوں مور ناچ رہے ہیں اور سینکڑوں ہرن قلانچیں بھر رہے ہیں ۔ وہ جب جھک جاتی ہے تو قوس قزخ بن جاتی ہے اور جب کھڑی ہوتی ہے تو مندر کے چمکیلے کلس، گرجا کے تکونے گنبد، مسجدکے اونچے مینار کی طرح باوقار نظرآتی ہے ۔
اس کی بانہوں میں بلور ہوتا ہے اور اس کا جسم مرمر سے تراشا جاتا ہے ، لیکن اس مرمریں اور بلوریں جسم میں تتلی کے پروں کی سی ملائمت پائی جاتی ہے اور کم بخت جسم میں شراب کی ان گنت بوتلوں سے زیادہ نشہ گھلا ہوا ہوتا ہے !

بے شک سارا نظام شمسی عورت کے قبضہ و اختیار میں ہے ۔ ۔ ۔ رات اس کی زلفوں میں چھپ کر سو جاتی ہے اور جب اس کے چہرے پر سے زلفیں ہٹ جاتی ہیں تو صبح ہو جاتی ہے اور جب اس کی چوٹی کے بال بکھر جاتے ہیں تو رات چھا جاتی ہے ۔ فطرت کی ساری خوبیوں کو سمیٹ کر عورت دنیا بن جاتی ہے !

انسان بڑا ہو یا جھوٹا، بادشاہ ہو یا فقیر، امیر ہو یا غریب، رات ہوتے ہی عورت کی طرف کھنچ جاتا ہے ۔ سائنس داں کہتے ہیں کہ دنیا کی ہر چیز کشش ثقل کی وجہ سے قائم اور برقرار ہے لیکن ہماری عقل کہتی ہے کہ دنیا صرف عورت کی کشش سے قائم اور زندہ ہے ۔
دن بھر کے کاموں کے بعد انسان جب اپنی توانائی پر ایک تھکن سی محسوس کرنے لگتا ہے تو پھر عورت کا مقناطیس اسے اپنے طرف کھینچنے لگتا ہے ! عورت ایک رات ہے اور ۔ ۔ ۔ ۔ رات ایک عورت ہے ! عورت کے بغیر رات رات نہیں بلکہ 12 گھنٹوں کا اندھیرا بن جاتی ہے۔

ماضی کے دھندلکے میں جو کچھ دکھائی دیتا ہے وہ آج تک جاری ہے ۔ اس دور کے آغاز کے ساتھ دنیا کی تنہا خوبصورتی کائنات کا واحد حسن اور زمین کے یکتا جمال کو مرد نے اپنے پیروں تلے روندھنا شروع کیا۔ یہ محض مرد کی طاقت اور اس میں گھلے ملے چاندی اور سونے کے سکوں کی چمک تھی۔ جس نے عورت کے قالب میں عورت کو ہلاک کر دیا اور اپنے نفس کی آگ کو بجھانے کیلئے ایک نرم اور گداز جسم باقی رکھ دیا اور آج بھی ہر قدم پر ایک نرم، ملائم، گداز چکمیلا جسم نظر آتا ہے ۔
اور دنیا کسی قصاب کی بہت بڑی دکان نظر آتی ہے ۔ جس پر مردوں کی بھیڑ لگی ہوتی ہے اور مرد چاندی کے سکے پھینک پھینک کر عورت کے جسم خریدتے جا رہے ہیں لیکن سب عورت کی چھاتیاں ، رانیں ، ہونٹ اور بازو خریدتے ہیں ۔
اصلی عورت کوئی نہیں خرید سکتا۔
اصلی عورت کبھی نہیں خریدی جاسکتی۔
خوبصورتی کو دنیا کا بڑے سے بڑا سرمایہ دار ہرگز ہرگز نہیں خرید سکتا۔

8 تبصرے:


  1. اصلی عورت کوئی نہیں خرید سکتا "
    اصلی عورت کبھی نہیں خریدی جاسکتی۔
    خوبصورتی کو دنیا کا بڑے سے بڑا سرمایہ دار ہرگز ہرگز نہیں خرید سکتا " اس میں کوئی دوسری آراء ہو ہی نہیں سکتیں کہنا ہے تو فقط یہ کہ عورت کی پہچان صرف ایک مرد کی آنکھ ہی کر سکتی ہے اور عورت کے مرد کے ہاتھوں استحصال ہونے کی بنیاد اییک عورت ہی رکھتی ہے مرد صرف ایک کٹھ پُتلی ہے کبھی بےلگام نفس کے ہاتھوں تو کبھی بے خبر لمحوں کے تعاقب میں ناچتا چلا جاتا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. noureen tabassum ، بلاگ پر تشریف آوری کا شکریہ۔
    آپ کا تبصرہ اچھا ہے ۔۔ مگر کیا کریں کہ ہمارا ہاضمہ ایسی ثقیل فلاسفی کو رد کر دیتا ہے
    :P

    جواب دیںحذف کریں
  3. میں جان کر بھی انجان ہوں کہ قصور کس کا ہے ہاضمے کا یا آپ کی نظر میں "ثقیل فلاسفی " کا جو میری نظر میں عام زندگی کی عام سی بات ہے - شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  4. خوبصورتی ہو یا کوئی اور اچھائی اسے خریدا نہیں جا سکتا ۔ یہ تو انسان کے اپنے اندر پیدا ہوتی ہے ۔ عورت کے عضؤ عضؤ کا مول لگانے والا وہی اجارہ دار ہے جو عورت کی آزادی کا علمبردار بنا پھرتا ہے ۔ ویسے تو کسی نے لکھا تھا
    سیرت کے ہم غلام ہیں صورت ہوئی تو کیا
    سُرخ و سفید مٹی کی مورت ہوئی تو کیا

    جواب دیںحذف کریں
  5. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. فقط یہ کہ عورت کی پہچان صرف ایک مرد کی آنکھ ہی کر سکتی ہے اور عورت کے مرد کے ہاتھوں استحصال ہونے کی بنیاد اییک عورت ہی رکھتی ہے مرد صرف ایک کٹھ پُتلی ہے کبھی بےلگام نفس کے ہاتھوں تو کبھی بے خبر لمحوں کے تعاقب میں ناچتا چلا جاتا ہے
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    بہت خوب بات کی نورین تبسم آپ نے ۔۔۔۔۔ اصل میں حیدر آبادی صاحب کی تحریر میں ایک رخ ہے اور وہ اسی ایک پہلو پر مسلسل بات کر رہے ہیں ۔۔۔ یہی وجہ ہے شاید جو ان کے اس " ثقیل فلاسفی " کو سمجھنے میں مانع ہے ۔۔۔ وہ جس کی بات کرتے ہیں ۔۔ عورت کو ایک جسم سے بڑھ کر کچھ نہیں دیکھ رہے ۔۔ جو یقیناً خریدا جاتا ہے بیچا بھی جاتا ہے ۔۔ عورت اور مرد سے ہٹ کر دیکھیں تو بھی یہ صورت نظر آئے گی ۔۔۔ جس عورت کی بات آپ کر رہی ہیں اس اس کے باوجود کہ وہ کہتے ہیں ۔۔ " اصلی عورت کوئی نہیں خرید سکتا ۔۔۔ اصلی عورت کبھی نہیں خریدی جا سکتی " اس اصلی عورت تک رسائی نہیں ہو سکی شاید محترم حیدر آبادی کی ۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. عورت سر سے پاون تک ایک جنون ھے.
    ایسا سکون ھے کہ جس کی جد نہ.

    جواب دیںحذف کریں