یہ نہ تھی ہماری قسمت -- عابد معز - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2012/04/28

یہ نہ تھی ہماری قسمت -- عابد معز

طنز و مزاح کو اور کئی زبانوں کی طرح اردو میں بھی ایک باوقار مقام حاصل ہے۔
ہاں بزعم خود بعض قلمکاروں نے طنز و مزاح کے نام پر مسخرہ پن کو روا رکھا ہو ، یہ اور بات ہے۔ نثر ہو یا شاعری دونوں میں طنز و مزاح کے شاہکار پائے جاتے ہیں، اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ طنز و مزاح نگار کو اپنے اطراف و اکناف کو گہری نظر رکھنی ہوتی ہے۔ وہ تو زندگی کے مضحک پہلوؤں کی نشاندہی کرتا اور سماجی مصلحین کو متوجہ کراتا ہے کہ وہ سماج اور معاشرے کی اصلاح کے لئے قدم اٹھائیں۔ اس کا کام صرف ہنسانا نہیں بلکہ معاشرہ کے تلخ و ترش پر نظر رکھنا بھی ہے۔ وہ تخیل سے بھی کام لیتا ہے۔ لیکن اس کے فن کی جڑیں سماج میں دیر اور دور تک چلی گئی ہوتی ہیں۔ وہ زمین ، زندگی اور زمانے سے اپنے رشتے کو استوار رکھتا ہے۔ اس کے پیش نظر زندگی کے حقائق ہوتے ہیں۔ اور اس خصوص میں اس کی نظر جتنی گہری ہوگی ، اس کے فن میں نکھار آئے گا۔ یوں وہ ادبی اشرافیہ کے نزدیک اپنا مقام بنائے گا۔

طنز و مزاح کے حوالے سے ڈاکٹر عابد معز کی کتاب " یہ نہ تھی ہماری قسمت" شائع ہو چکی ہے۔ اس کے مشمولات انشائیہ رنگ کے بھی ہیں ، اچھے خاصے طنز و مزاح کے حامل بھی اور کہیں کہیں انہوں نے ہلکے پھلکے طنز و مزاح سے بھی کام لیا ہے۔ اور ان تینوں کی سرحدیں ایک دوسرے سے اتنی ملی ہوئی ہیں کہ بعض اوقات امتیاز کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس پس منظر میں احتیاط کے ساتھ کام لے کر انہوں نے "یہ نہ تھی ہماری قسمت" کو شگفتہ افسانوں کا مجموعہ قرار دیا ہے۔
طنز و مزاح نگار کو انشائیہ نگاری پر بھی قدرت حاصل ہو اور وہ بات کرنے اور بات میں سے بات نکالنے کا ہنر رکھتا ہو تو اور کیا چاہئے؟ عابد معز اس فن سے کماحقہ واقف ہیں۔ عابد معز بات سے بات نکالنے کا فن جانتے ہیں۔ وہ کسی عام سے مسئلہ پر بات شروع کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ بہت سے پہلوؤں سے اس ایک مسئلہ کا جائزہ لے ڈالتے ہیں کہ قاری اچنبھے میں پڑ جاتا ہے کہ اس بظاہر عام سے معاملے اتنے بہت سے رخ کہاں سے دریافت ہو گئے۔
عابد معز نے انشائیہ نگاری اور طنز و مزاح کو ایک جان دو قالب بنا دیا ہے۔ ان کا طنز و مزاح قہقہہ بردوش نہیں ہوتا ، وہ زیادہ تر (کہیں کہیں کے سوائے) لطیفے سنا کر ہنساتے بھی نہیں بلکہ دھیمے لہجے میں بات کرتے ہوئے اپنے طرز تحریر سے کچھ یوں کام لیتے ہیں کہ قاری تبسم زیر لب ہو جاتا ہے۔

"اردو زبان اب تفریح طبع کے لئے رہ گئی ہے۔ ہندوستانی فلمیں ، پاکستانی ڈرامے ، غزلوں اور گیتوں کے کیسٹس ، شعراء اور ادیبوں کی تسکین کے لئے چند رسالے اور اشتہارات کے لئے انگلیوں پر گنے جانے والے اخبارات کے علاوہ اردو کی زنبیل میں اور کیا رکھا ہے؟
علمی اور تکنیکی زبان کی حیثیت سے انگریزی زبان کا کیا مقابلہ؟ اپنے لڑکے کو علم کی دولت سے مالامال کرو تاکہ مستقبل سنور سکے۔ اسے انگلش میڈیم میں ایڈمیشن دلاؤ۔"
غرض عابد معز کا طنز و مزاح بےمقصد نہیں ، وہ اپنے زاویے کو قائم رکھتے ہوئے بات کرتے ہیں۔ جو بھی کہتے ہیں تلخ و ترش لیکن شیریں، مزاحیہ انداز سے۔ قاری پڑھنے کے بعد یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ : ارے ، یہ تو اتنی سادہ و سہل بات تھی ، ہمارے ذہن میں کیوں نہیں آئی؟

"عاشقوں کی عید ، مغربی سامراج کی ہماری تہذیب پر یلغار ہے۔ نئی نسل جذباتی تقلید کرتے ہوئے یہ عید منانے لگی ہے۔ لڑکے اور لڑکیاں دونوں اس کا حصہ ہیں۔ یہ اپنی تباہی آپ مول رہے ہیں ۔۔۔"
"ان دنوں کتب بینی کا ذوق کم سے کم ہوتا جا رہا ہے، لوگ لائیبریریوں کا رخ کم کرنے لگے ہیں اور لائیبریری جاتے بھی ہیں تو کتب بینی کے لئے کم۔ کتابوں کو دیمک چاٹ رہی ہے۔ یار لوگوں نے لائیبریری کو سستانے اور آرام کرنے کی جگہ بنا لیا ہے۔"
"کامیاب ازدواجی زندگی کا راز یہی ہے کہ شوہر بیوی کے آگے ہتھیار ڈالتا ہے جبکہ بیوی کبھی ہار نہیں مانتی، اکثر کامیاب رہتی ہے۔"
"عام آدمی ایسے اسکولوں کو ترجیح دیتا ہے کہ یہ علم کے مندر ہیں جبکہ سچ پوچھئے تو یہ تعلیمی ادارے نہیں بلکہ تجارتی ادارے ہیں ۔۔۔ یہ عطیات کے نام پر ایک خطیر رقم ہی وصول نہیں کرتے بلکہ فیس ، کتابوں کاپیوں ، یونیفارم اور ادھر ادھر کے نام پر بہت کچھ وصول کر جاتے ہیں۔"
"۔۔۔ مسلسل کوشش کے بعد ہم آٹے کو بیلنے میں کامیاب ہوئے تو دیکھا کہ روٹیاں گول ہیں نہ تکونی اور نہ ہی چوکور۔ روٹیاں مختلف ملکوں کے نقشوں جیسی شکل اختیار کر گئی تھیں۔ ہمارے بچے ایک عرصے تک ان روٹیوں پر ندی ، پہاڑ اور سڑکیں اتار کر سری لنکا ، آسٹریلیا اور آفریقہ کا جغرافیہ سیکھتے رہے۔ ہم مطمئن ہوئے کہ ہماری محنت رائیگاں نہیں گئی۔"

طنزیہ و مزاحیہ ادب میں ڈاکٹر عابد معز کا ایک مقام ہے۔ کتاب "یہ نہ تھی ہماری قسمت" سے یہ مقام مزید عالی اور بلند ہوگا۔

- پروفیسر سلیمان اطہر جاوید (روزنامہ "سیاست" ، 28/اپریل/2012)

1 تبصرہ: