ہماری چھاؤں چوری ہو گئی ہے ! - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2011/01/01

ہماری چھاؤں چوری ہو گئی ہے !

آدھی رات کا وقت ہے۔
کاچی گوڑہ ریلوے اسٹیشن سے ایک تانگہ روانہ ہو کر حسینی علم پہنچتا ہے۔ ایک قدیم مکان کے سامنے تانگہ رکوا کر ایک صاحب تانگے سے اپنا سامان لے کر اترتے ہیں اور مکان کے دروازے پر دستک دیتے ہیں۔ کچھ دیر کے انتظار کے بعد دروازہ کھلتا ہے اور اندر سے ایک بوڑھا آدمی ہاتھ میں لاٹین لئے برآمد ہوتا ہے اور نووارد کو سوالیہ نگاہوں سے نیچے سے اوپر تک دیکھتا ہے۔
"معاف کیجئے ، کیا میں نعیم صاحب سے مل سکتا ہوں؟" نووارد بوڑھے سے پوچھتا ہے۔
"آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟" بوڑھا نووارد سے سوال کرتا ہے۔
"جی میں اورنگ آباد سے آیا ہوں۔"
"اچھا"۔ ایک لمحے کے سکوت کے بعد بوڑھا کہتا ہے : "اندر آئیے۔۔۔۔"
نووارد بسم اللہ کہہ کر مکان میں داخل ہو جاتا ہے۔ اندر آنے کے بعد بوڑھا کہتا ہے :
"نعیم صاحب سو رہے ہیں، آپ بھی آرام کر لیجئے ، صبح ملاقات ہو جائے گی۔"
"مگر بابا ، آپ کون ہیں؟" نووارد گومگو کی حالت میں سوال کرتا ہے۔
"سب باتیں صبح ہو جائیں گی۔ فی الحال مجھے بھی نیند آ رہی ہے ، آپ بھی سو جائیے۔" اتنا کہہ کر بوڑھا آگے بڑھ جاتا ہے۔

صبح ناشتے کی میز پر بوڑھے بابا اپنے مہمان کو تفصیل بتاتے ہوئے کہتے ہیں :
"میرا نام رام لعل ہے۔ یہ مکان آج سے چھ ماہ قبل نعیم صاحب سے میں نے خرید لیا تھا ۔۔۔۔ اگر میں آپ کو سچائی بتا دیتا تو آدھی رات کو آپ کہاں بھٹکتے پھرتے؟ یہی وجہ تھی کہ رات میں نے آپ کو کچھ نہیں بتایا"۔

یہ سچا قصہ ہے پرانے حیدرآباد کا جہاں کی گنگا جمنا تہذیب کو کبھی سارا عالم سلام کرتا تھا جہاں رہنے والا ہر انسان خلوص اور محبت کا مجسمہ ہوا کرتا تھا۔ جہاں کی قدیم روایتیں اتحاد و یکجہتی کی علامت تھیں ۔۔۔۔
اب وہ روایتیں کہیں گم ہو چکی ہیں ۔۔۔ اب تو وہ حیدرآباد ہی کہیں گم ہو چکا ہے !

سچ پوچھئے تو ان دنوں گمشدگی کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔ گمشدگی کہئے ، چوری کہئے یا اغوا ۔۔۔ اخباروں میں روزانہ کسی نہ کسی کے لاپتہ ہو جانے یا اغوا کر لئے جانے کی خبروں کی اشاعت اب ایک عام سی بات ہو گئی ہے ۔۔۔۔ کسی کی بیوی کھو گئی ہے تو کسی کا بیٹا اغوا کر لیا گیا ہے ۔۔۔۔ یہاں تک کہ ایمان دھرم بھی اب محفوظ نہیں ہے۔
ہوشیار باش ! کسی کا بھی کچھ بھی کبھی بھی چوری ہو سکتا ہے۔
ہمارے ایک شاعر دوست نورالدین امیر کا شعر ہے :
سروں پر دھوپ کی چادر تنی ہے
ہماری چھاؤں چوری ہو گئی ہے

اقتباس بشکریہ : "اک شہر تھا عالم میں انتخاب" از - سردار سلیم

1 تبصرہ:

  1. اللہ کا شکر ہے کہ آپ خيريت سے ہيں ۔ بستر پر پڑے بھی کئی بار آپ کو ياد کيا تھا مگر ہارڈ ڈسک کريش ہو جانے کی وجہ سے آپ کا پتہ بھی غائب ہو گيا تھا ۔

    آپ نے مجھے اپنے دادا جان ياد کرا ديئے جو پچپن سال قبل وفات پا گئے تھے ۔ وہ حيدر آباد کی اسی طرح کی باتيں سنايا کرتے تھۓ

    ساری دنيا ہی بدل چکی ہے ۔ انسانيت ک جگہ ماديّت لے چک ہے

    جواب دیںحذف کریں