مرزا فرحت اللہ بیگ کی خاکہ نگاری - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2010/05/01

مرزا فرحت اللہ بیگ کی خاکہ نگاری

جس طرح بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اورنگ آباد کو اپنا دوسرا وطن بنا لیا تھا اسی طرح دہلی کے مرزا فرحت اللہ بیگ نے حیدرآباد (دکن) کو اپنا وطنِ ثانی بنا لیا تھا۔

مرزا فرحت اللہ بیگ کے تحریرکردہ دو "خاکے" بہت مشہور ہیں :
1 - نذیر احمد کی کہانی
2 - ایک وصیت کی تعمیل

دوسرے خاکے "ایک وصیت کی تعمیل" کا پس منظر اورنگ آباد ہے۔
1927ء میں مولوی عبدالحق صاحب نے عثمانیہ انٹرمیڈیٹ کالج کے کالج ڈے کے موقع پر مرزا فرحت اللہ بیگ کی معروف و مقبول تمثیل "دلی کا آخری یادگار مشاعرہ" اسٹیج کرنے کیلئے فرحت اللہ بیگ کو مدعو کیا تھا۔
کاچی گوڑہ (حیدرآباد) ریلوے اسٹیشن پر وحید الدین سلیم ، مجمع کو چیرتے پھاڑتے فرحت اللہ بیگ کے پاس آئے اور گلے مل کر مبارکباد دیتے ہوئے بولے :
"میاں فرحت ! تم نے نذیر احمد کا اتنا اچھا خاکہ لکھا ہے کہ بس کیا بتاؤں۔ اگر مجھ پر کوئی ایسا خاکہ لکھے تو آج مرنے کیلئے تیار ہوں"۔
مرزا فرحت اللہ بیگ نے برجستہ کہا : "بسم اللہ کیجئے! خاکہ میں لکھ دوں گا"۔

اس ملاقات کے سال بھر کے اندر ہی مولوی وحید الدین سلیم پانی پتی کا انتقال ہو گیا اور مرزا فرحت اللہ بیگ کو ان کی وصیت پوری کرنی پڑی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں