اردو کے نام پر ۔۔۔ - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2009/12/26

اردو کے نام پر ۔۔۔

اردو زبان کے نام پر ہر ہفتہ یا ہر مہینہ بیسوں کانفرنس ، سمینار اور اجتماعات عمل میں لائے جاتے ہیں جن کے کچھ مفید اغراض و مقاصد بھی ہوتے ہیں۔
مگر ۔۔۔۔۔ کیا یہ اجتماعات تنقید سے ماورا ہیں ؟

سب سے پہلی بات تو یہ کہ کوئی "تنقید" مطلق منفی یا مثبت نہیں ہوتی۔ ہمارا نقطۂ نظر یا ہمارے سوچنے کا ڈھنگ اس کو مثبت یا منفی کا احساس عطا کرتا ہے۔
کسی عمل کی صرف تعریف و تحسین ہی ہمارا مقصد ہو تو پھر "احتساب" جیسے لفظ کو لغت سے خارج کر دینا پڑے گا۔ ظاہر ہے ، احتساب تو تب تک نہیں ہو سکتا جب تک کسی عمل یا اعمال کے منفی نکات کو سامنے نہ لایا جائے۔ جو گروہ/جماعتیں احتساب کی روشنی سے عاری ہو جاتی ہیں ، ان کا حال کیا ہوتا ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔

وقت، پیسہ اور محنت اگر غیرضروری یا بےاہمیت کاموں میں صرف ہو تو اس کا حال بھی اس کرکٹ میچ جیسا کہلائے گا جس کے متعلق ایک مغربی دانشور کہتا ہے کہ کھیلتے تو گیارہ کھلاڑی مگر اسے دیکھتے گیارہ لاکھ احمق ہیں ‫!

اردو کے نام پر اس قسم کی کانفرنسوں یا سمینارز یا اجتماعات کی سمجھ راقم الحروف کو کبھی نہیں آئی۔ معذرت! یہ راقم کا ذاتی خیال بھی ہو سکتا ہے جس سے فریقِ مخالف کو اختلاف کا یقیناً حق حاصل ہے۔
صرف بات کو پہنچا دینا اصل مقصد ہے تو یہ کام میڈیا (ٹی۔وی ، انٹرنیٹ ، اخبارات وغیرہ) بخوبی سرانجام دے رہا ہے۔ اس کے لئے دانشورانِ زبان و قوم و ملت کو کسی ایک جگہ جمع کرنا کوئی انتہائی اشد اور ضروری امر نہیں ہے۔ الا یہ کہ زبان و نسل کے ان ہمدرد حضرات کی "ہمدردی" کا بھی کچھ سامان پیدا کرنے کی گنجائش نکال لی جائے ‫!

برسوں قبل شارجہ میں جب پہلی بار کرکٹ کا مقابلہ شروع کیا گیا تھا تو بڑی دھوم مچی تھی کہ متحدہ عرب امارات میں پہلی بار ایک شاندار مقابلے کا انعقاد کرکٹ کے اہل ذوق مداح و شائقین کے لئے بےحد مسرتوں کا باعث بنا۔
لیکن ۔۔۔ زبان و ادب کی خدمت کسی کھیل کی طرح کوئی تفریحی مشغلہ نہیں ہے کہ چند گھنٹے یا چند مخصوص ایام میں تقریب یا تقریبات کے کامیاب انعقاد ہی کو اصل نصب العین سمجھ لیا جائے۔ اس طرح تو کسی غیر کو کسی قسم کی سازش کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ ہم خود ہی اردو زبان و ادب کے وہ شہسوار کہلائیں گے جس کے متعلق کسی شاعر نے کہا ہے ‫:
خود ہی قاتل ، خود ہی مخبر، خود ہی منصف ٹھہرے

کیا یہ عجیب بات نہیں کہ کھیلوں کی طرح زبان و ادب کی خدمت کا بھی کمرشلائز "اغوا" کر لیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اتنی ہزار تعداد میں سامعین کی شرکت ہوئی اتنے لاکھ ناظرین تک "بات کو پہنچایا گیا" ۔۔۔۔ کیا یہ زبان و ادب کا استحصال نہیں ہے؟ کیا ہمیں بتایا جا سکتا ہے کہ اس کے پسِ پشت کون سی ادبی مافیا کارفرما ہے؟
بےشک اردو زبان و ادب کی ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ برصغیر ہند و پاک میں مشاعروں ، ادبی اجلاسوں اور شعر و ادب کی مخصوص نشستوں نے اردو داں خواتین و حضرات کے ادبی و شعری ذوق و شوق کو نکھارا ، سنوارا اور اس کی آبیاری کی ہے۔ اس کا کسی کو انکار نہیں ہے۔
لیکن ۔۔۔۔ وقت وقت کے فرق کو بھی ملحوظ رکھا جانا چاہئے۔ کیا ہمیں یہ بتانے یا جتانے کی ضرورت ہے کہ ۔۔۔
اُس وقت کے اور آج کے اردوداں قاری/سامع کی تعداد میں کتنا فرق آیا ہے؟
ان کی ذہنی استعداد کے معیار میں کیا تبدیلی وقوع پذیر ہوئی ہے؟
اردو کو اس کے اصل رسم الخط کے ذریعے پڑھنے لکھنے والوں کی تعداد میں کتنی کمی آئی ہے؟

انفارمیشن تکنولوجی کے اس تیز رفتار دور میں بھی جو لوگ بوسیدہ روایتی اجلاسوں سمیناروں اور کانفرنسوں کی تائید میں رطب اللسان ہیں ان کو اب ذرا ہوش کی دوا کر لینی چاہئے کہ مشہور مصرعہ ہے ‫:
دوڑو زمانہ قیامت کی چال چل گیا ‫!!

آج ٹی وی کی طرح ، کمپیوٹر تقریباً ہر گھر میں موجود ہے۔ آج کی نئی نسل جو عالمی سیاست سے لے کر موبائل ٹکنالوجی تک آرام سے بلاجھجھک بات کرتی اور اپنی بات کی بآسانی تفہیم و تشریح کرتی ہے ، اس نئی نسل تک اردو زبان و ادب اور اس کی تہذیب کو منتقل کرنے میں ہمارا اور آپ کا کیا حصہ رہا ہے؟
اس سوال کا سادہ سا جواب اردو ویب سائیٹس ، اردو یونیکوڈ تحریر ، ان پیج سے یونیکوڈ تبدیلی کا سافٹ وئر یا اردو سافٹ وئرز نہیں ہے ‫!
بلکہ یہ ہے کہ اردو زبان و ادب ، تہذیب ، آثار ، زخیرۂ مواد کو نئی نسل تک بہ سہولت پہنچانے اور مقبول و پرکشش باور کرانے میں روایتی کانفرنسوں اور سمیناروں کے دلدادگان نے کون سی حکمتِ عملی اختیار کر رکھی ہے؟؟

کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ جو قومیں ارتقاء میں یقین نہیں رکھتیں ، ان کا کیا حشر نشر ہوتا ہے؟ آج جو چند عمررسیدہ چہرے ہم کو ان کانفرنسوں اور سمیناروں میں بہ پابندی نظر آتے ہیں ان کا سلسلہ مزید کتنے برسوں تک برقرار رہ پائے گا؟ کانفرنسوں / سمیناروں کی دم توڑتی روایتی تہذیب میں نیا خون کب انجکٹ کیا جائے گا؟ نئے خون کو اس جانب کیسے متوجہ کیا جائے گا اور کیسے ترغیب دلائی جائے گی؟؟

ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنا ہو تو لامحالہ ہم کو ماضی کی حسین یادوں سے چھٹکارہ پا کر دورِ حاضر کی انفارمیشن تکنولوجی کی دنیا میں اپنا وہ کردار ادا کرنا لازمی ہے جو وقت کا شدید تقاضا بھی ہے۔
جو محنت ، جو وقت اور جو پیسہ روایتی تقریبات میں "ضائع" کیا جا رہا ہے ، اردو زبان و ادب کی خدمت کے لئے اس کا درست استعمال ہر باضمیر اردو داں کا فرض ہے ورنہ ۔۔۔۔
تمہاری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں ‫!!

کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ ۔۔۔۔۔
اردو کے تعلق سے حساس جن باضمیر افراد کی رسائی کمپیوٹر اور انٹرنیٹ تک ہے ان کو "اردو یونیکوڈ" کا صرف زبانی علم ہے اور کسی قسم کے عملی تجربہ سے وہ قاصر ہیں۔ اس کی مثال آج بھی "رومن اردو" یا "تصویری اردو" کے بیشمار ویب سائیٹس یا ڈسکشن بورڈز یا بلاگز کے ذریعے ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔

پھر بھی غنیمت ہے کہ نئی نسل کے چند سرپھرے باحوصلہ نوجوانوں کے ذریعے انٹرنیٹ کی دنیا میں اردو یونیکوڈ تحریر کا موثر استعمال شروع کیا جا چکا ہے اور آہستہ آہستہ اس کے فروغ نے اپنی منفرد پہچان بنانی شروع کر دی ہے۔
پی۔ایچ۔پی۔بی۔بی ، وی۔بلیٹن یا سمپل فورمز کے آج کتنے ہی ڈسکشن بورڈز آپ کو جابجا اردو میں دکھائی دیں گے۔ ورڈ پریس اور بلاگ اسپاٹ کو بھی اردو میں مقمیا لیا گیا ہے اور ان دونوں سائیٹس پر ہمیں اردو کے سینکڑوں بلاگز دکھائی دینے لگ گئے ہیں۔
مگر ۔۔۔۔۔
سب سے زیادہ افسوس کی بات ہندوستان کے تعلق سے ہے۔
راقم کے علم کی حد تک سارے ہندوستان سے کوئی ایک بھی ایسا ڈسکشن فورم موجود نہیں ہے جو خالصتاً اردو یونیکوڈ رسم الخط میں موجود ہو۔ اسی طرح اردو یونیکوڈ میں بھی ہندوستانی اردو دانوں کے انفرادی بلاگز اکا دکا ہی نظر آئیں گے جن میں سے ایک بلاگ خود راقم الحروف کا ہے۔

یقین جانئے کہ ۔۔۔۔۔
اپنے کمپیوٹر کو اردو پڑھنے لکھنے کے قابل بنانا ، خود اردو یونیکوڈ میں لکھنا سیکھنا ، ٹائیپنگ / کمپوزنگ میں مہارت حاصل کرنا ، اردو یونیکوڈ بلاگز یا فورمز تخلیق کرنا ۔۔۔ کوئی زیادہ محنت طلب بات نہیں ہے۔ صرف چند دنوں کی سنجیدہ محنت سے ہم اس قابل ہو سکتے ہیں کہ خود کا اور اردو ادب کا قابل قدر سرمایا نیٹ پر اردو تحریر میں مہیا کر سکیں۔ یہ وہ صدقۂ جاریہ ہے جس کی قدر نئی نسل یقیناً کرے گی اور اپنے اسلاف کی احسان مند بھی ہوگی۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ۔۔۔
اردو زبان و ادب کی خدمت کے نام پر جو وقت ، محنت اور مالی وسائل روایتی تقریبات میں جھونکے جا رہے ہیں ان کے صحیح استعمال کی جانب توجہ کی جائے۔ ایسے اردوداں تکنیکی افراد کو ہائر کیا جائے جو اس میدان کے ماہر ہوں اور بلا کسی مالی منفعت کے اس مشن کی تکمیل کی خاطر اپنے ذاتی تجربہ کی بنیاد پر دلچسپی رکھنے والے دیگر ماہرین کو تیار کریں۔
ہندوستان کے حوالے سے اردو زبان و ادب کی انٹرنیٹ پر اشاعت سے متعلق ایک خاکہ کافی عرصہ سے ذہن میں ہے جس پر ان شاءاللہ پھر کبھی گفتگو ہوگی۔

3 تبصرے:

  1. یہ جو ان کانفرنسز میں آپ نے صرف عمر رسیدہ افراد کی شرکت کی بات کی ہے تو یہ چیز میں کراچی میں بھی دیکھتی ہوں۔ کبھی ادبی محافل یا اسی طرح کی سرگرمیون میں جائیں جہاں تبادلہ ء خیال کے بیشمار مواقع موجود ہوں تو وہاں کی اکثریت عمر رسیدہ افراد پہ مشتمل ہوتی ہے۔ شاذ ہی ایسے افراد نظر آئیں گے جو اپنی عمر کی دوسری دہائ میں ہوں یعنی بیس سال سے کم یا اسکے قریب۔ عام طور پہ یہ افراد ساٹھ سال سے زیادہ ہوتے ہیں یعنی ریٹائرڈ افراد کا مجموعہ جو ہر قسم کی تبدیلی کے خلاف ہوتا ہے۔۔
    اسکی بنیادی وجہ جو مجھے سمجھ آتی ہے اور جو میں اکثر نوجوانوں سے سنتی ہوں وہ بزرگوں کا انتہائ درشت اور نوجوانوں کے ساتھ تحقیر آمیز رویہ ہے۔ یہ ہمارا جنوبی ایشیائ رویہ ہے ۔ جہاں اولاد رعایا ہوتی ہے اور نوجوانوں کو پتہ ہی کیا ہے۔ کہہ کر دور کر دیا جاتا ہے۔
    حالانکہ ہونا تو یہ چاہئیے کہ ان کانفرنسز کو دو نسلوں کے درمیان جوڑنے والا پل بنا دیا جاتا مگر ایسا ہوتا نہیں ہے۔
    بالکل صحیح حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت اردو کی نیٹ پہ جو بھی پیشرفت ہے اسے نوجوانوں نے ہی قائم رکھا ہوا ہے۔ جو سینیئرز ہیں انہیں اپنے تجربے کو شیئر کرنا چاہئیے مگر اس کی زبردستی نہیں کرنی چاہہئیے اور نہ ہی اسے ہر وقت اپنی عزت و وقار کا مسئلہ بنانا چاہئیے۔ نئے لوگوں کی حوصلہ افزائ اور انکے لئے جگہ بنانا چاہئیے۔ ورنہ ہوگا یہ کہ نوجوان بھی جیسے تیسے اپنے علیحدہ فورمز بنا لیں گے اور پھر وہ اپنے حساب سے چیزیں کرتے رہیں گے۔ لیکن اس طرح بہت ساری اہم باتیں کھو جائیں گی۔ شاید ایک نئ اردو زبان نکل آئے گی جو اپنے ماضی سے اتنی مضبوطی سے نہ جڑی ہو۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. آپ کو اور آپکے اہل خانہ کو نيا سال مبارک

    جواب دیںحذف کریں
  3. عنیقہ ناز
    آپ نے بہت اچھا تجزیہ کیا ہے۔ آپ کا یہ مشورہ بھی وقتِ رواں کے لحاظ سے نہایت مناسب ہے کہ اس طرح کی کانفرنسز کو دو نسلوں کے درمیان جوڑنے والا پل بنانا چاہئے۔ اس کے لئے میں نے ذاتی طور پر کئی مرتبہ متعلقین کو توجہ دلائی مگر سنجیدہ قسم کے اساتذہ کے ذہنوں میں یہ تاثر عام ہے کہ نئی نسل بس عام فہم مشاعروں والی موقتی شاعری میں دلچسپی رکھتی ہے۔ سوال ان سے یہ ہے کہ اگر یہ سچ ہے بھی تو پھر آپ اس ٹرینڈ کو توڑنے آگے کیوں نہیں آتے؟

    asma paris
    شکریہ اور آپ کو بھی نئے سال کی خوشیاں مبارک ہوں۔

    جواب دیںحذف کریں