تلنگانہ - ہند کی ریاست آندھرا پردیش کے 2 ٹکڑے - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2009/12/12

تلنگانہ - ہند کی ریاست آندھرا پردیش کے 2 ٹکڑے

سن 2000ء سے پہلے تک ہندوستان کی جملہ 25 ریاستیں تھیں۔ 2000ء کے اواخر میں تین ریاستوں (مدھیہ پردیش ، اُترپردیش ، بہار) کے ٹکڑے ہوئے اور چھتیس گڑھ ، اُتر کھنڈ اور جھارکھنڈ نامی تین مزید ریاستوں کا ظہور ہوا۔ اس طرح ہندوستان جملہ 28 ریاستوں کی جمہوری مملکت قرار پایا۔

اب جنوبی ہند کی ریاست آندھرا پردیش ، جو رقبے میں ہندوستان کی چوتھی اور آبادی کے لحاظ سے پانچویں بڑی ریاست شمار ہوتی ہے ، تقسیم ہونے جا رہی ہے۔
مرکزی حکومت کی جانب سے وزیر داخلہ پی-چدمبرم نے 9-ڈسمبر-2009ء کو آندھرا پردیش کی تقسیم اور علیحدہ "تلنگانہ" ریاست کے قیام کا اشارہ دے دیا ہے۔

جنوبی ہند کی ریاست آندھرا پردیش درحقیقت تین منطقوں پر مشتمل ہے : آندھرا ، رائیلسیما اور تلنگانہ۔ (تفصیل کے لئے نقشہ ملاحظہ فرمائیں اور بڑے سائز میں دیکھنے کے لئے تصویر پر کلک کریں)۔


فی الحال ریاست آندھرا پردیش کو ریاست "آندھرا" اور ریاست "تلنگانہ" کے طور پر تقسیم کرنے کا اشارہ دیا گیا ہے۔ یعنی منطقہ "آندھرا" اور منطقہ "رائیلسیما" ایک ہی ریاست کے طور پر ضم ہوں گے۔ جبکہ منطقہ تلنگانہ ایک علیحدہ ریاست کے طور پر تشکیل پائے گا۔

سن 2001ء کی مردم شماری کے مطابق ریاست آندھرا پردیش میں مسلمانوں کی جملہ تعداد 9.2 فیصد بتائی گئی ہے۔ اگر منطقہ "تلنگانہ" علیحدہ ریاست قرار پا جائے تب تلنگانہ ریاست میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 25 فیصد ہو جائے گی۔

کیا علیحدہ ریاست کے قیام سے مسلمان فائدہ میں رہیں گے؟ اس موضوع پر مختلف مسلم طبقات میں مختلف اندیشے اور تفکرات پائے جاتے ہیں۔
مسلمانوں کی واحد سیاسی جماعت مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی نے ابھی تک اس موضوع پر جماعت کے نقطۂ نظر کو پیش کرنے سے احتراز کر رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ :
ہم مناسب موقع پر اپنا موقف بیان کریں گے۔ ہمارے لئے ریاست کی تقسیم اہم نہیں ہے بلکہ بدلتے تناظر میں ریاستی مسلمانوں کا مفاد ، ان کا تحفظ اور رفائے عامہ اصل اہمیت رکھتا ہے۔
جبکہ دوسری طرف جماعت اسلامی کی ریاستی شاخ نے علیحدہ "تلنگانہ" ریاست کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ صدر جماعت ملک معتصم خان نے کہا ہے کہ : اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تلنگانہ کے عوام پچھلے 53 سال سے شدید ناانصافی کا شکار رہے ہیں۔

پس تحریر :
ریاست آندھرا پردیش کے قیام کے بعد ہی سے تلنگانہ کی آزادی کے لئے کئی تحریکیں شروع کی گئیں۔ حالیہ دَور میں کے۔چندرشیکھر راؤ (عرفیت: KCR) کی "تلنگانہ راشٹریہ سمیتی" کو مقبولیت اور عروج حاصل ہوا۔ اور کہا جاتا ہے کہ راؤ ہی کے طویل "مرن برت" اور ان کی لحظہ بہ لحظہ بگڑتی صحت سے متاثر ہو کر مرکزی حکومت کو مجبوراً یہ فیصلہ کرنا پڑا۔

8 تبصرے:

  1. کاش ہمارے یہاں بھی انتظامی تقسیمیں ہوں اور علاقائیت اور عصبیت کے بت ٹوٹیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. حیدرآبادی،

    اس معلوماتی مضمون کا شکریہ!

    _______________________________

    کاش ہمارے یہاں بھی انتظامی تقسیمیں ہوں اور علاقائیت اور عصبیت کے بت ٹوٹیں۔

    (آمین)
    ۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. @ عنیقہ ناز
    کیا ریاستوں / صوبوں کی تقسیم ہونے سے علاقائیت / عصبیت کے بت ٹوٹ سکتے ہیں یا مزید ان کا فروغ ممکن ہے؟ علاقائیت اور زبان کی بنیاد پر گذشتہ دس سال میں انڈیا میں 4 نئی ریاستیں بنی ہیں۔ اور یہ سلسلہ دراز ہوا تو ممکن ہے مزید 20 ریاستوں کا تقاضا شروع ہو جائے جیسا کہ وکی پیڈیا پر یہاں درج ہے۔

    خیر انڈیا کی بات چھوڑیں کہ یہاں مختلف قومیں قبائل زبانیں اور مذاہب ہیں۔ لیکن پاکستانی صوبوں کی مزید تقسیم کس لئے؟ ہھر وحدت امت کا تاثر کہاں جائے گا؟؟

    @ محمد احمد
    حوصلہ افزائی کا شکریہ جناب۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. خیر انڈیا کی بات چھوڑیں کہ یہاں مختلف قومیں قبائل زبانیں اور مذاہب ہیں۔ لیکن پاکستانی صوبوں کی مزید تقسیم کس لئے؟ ہھر وحدت امت کا تاثر کہاں جائے گا؟؟
    _________________________
    امت؟ کونسی؟
    وحدت؟ یہ کیا چیز ہوتی ہے؟

    جواب دیںحذف کریں
  5. ڈفر بھائی
    لگتا ہے آج کچھ تلخ ہو رہے ہیں آپ
    ;)

    جواب دیںحذف کریں
  6. صاحب خوش قسمت ہیں آپ کے آپ کے یہاں صوبے مقدس گائے نہیں ہیں اور انہیں توڑنا وطن سے غداری کے مترادف نہین سمجھا جاتا :sad:

    جواب دیںحذف کریں
  7. جناب انتظامی تقسیم تو ہر جگہ ہوا ہی کرتی ہے اس میں امت اور وحدت کہاں سے آگئی ؟
    ناانصافیاں ہر وحدت کو ختم کردیتی ہیں اصل مسئلہ ناانصافیوں کا ہے!

    جواب دیںحذف کریں
  8. انتظامی معاملات کا وحدت سے کیا تعلق۔ اس طرح تو کسی اسلامی ملک کے مزید صوبے نہیں ہونے چاہئیں۔ بلکہ تمام اسلامی ممالک کا ایک ہی بادشاہ یا حکمراں ہونا چاہئیے۔ ِہ تو خالفت سے متائثر ہونے والے کہہ سکتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تمام چیزوں کے بنیادی حقائق ہوتے ہیں جنہیں آجکل کچھ لوگ زمینی حقائق بھی کہتے ہیں۔ ان سے ہٹ کر اگر چیزوں کو دیکھتے رہیں گے تو اصل کی روح سے بھی جائیں گے۔
    صرف وہی نظام کامیاب رہتے ہیں جن میں اہمیت انسانوں کی ہو۔ خود ساختہ اصولوں اور ضوابط کی نہ ہو۔ اصول اورضوابط انسانوب کے لئیے ہی بنائے جاتے ہیں۔ اگر وہ ان سے خوش نہیں ہیں تو انہیں تبدیل کیا جانا چاہئیے۔

    جواب دیںحذف کریں