ریاست آندھرا پردیش : کرنول اور محبوب نگر کا قیامت خیز سیلاب - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2009/10/28

ریاست آندھرا پردیش : کرنول اور محبوب نگر کا قیامت خیز سیلاب

پچھلے دنوں اپنی سالانہ چھٹی پر جب ہم اپنے وطن حیدرآباد میں تھے تو آفاتِ سماوی کا ایک سنگین سانحہ ہماری ریاست آندھرا پردیش کے کئی علاقوں کو تباہی و بربادی کا شکار بنا گیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔


2-اکٹوبر کو جو سیلاب آیا تو اس نے آدھے کرنول شہر کو پانی میں ڈبو دینے کے ساتھ ساتھ آس پاس کے تقریباً 100 گاؤں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا۔ کہا گیا ہے کہ گذشتہ 100 سو سالوں میں آنے والا اس قسم کا یہ پہلا سیلاب رہا۔ اس سانحے سے صرف ایک دن قبل ہم نے بعض دوست احباب سے ملاقات کی خاطر محبوب نگر اور کرنول کا براستہ قومی شاہراہ-7 ، چند گھنٹوں کے لئے دورہ کیا تھا۔ کسے معلوم تھا کہ صرف چند گھنٹوں بعد قومی شاہراہ نمبر-7 ٹوٹ کر پانی میں بہہ جائے گی۔
اس سیلاب کی تفصیلی خبر انگریزی اخبار دی-ہندو میں یہاں اور ٹائمز آف انڈیا کی خبر اور ویڈیو یہاں دیکھی جا سکتی ہیں۔
سیلاب کی کچھ تصاویر یہاں بھی۔

ریاست آندھرا پردیش میں حیدرآباد کے بعد دوسرا مسلم اکثریتی علاقہ کرنول ہی جانا جاتا ہے۔ اس شہر کو "باون (52) ولیوں کا گڑھ" کا خطاب بھی ملا ہوا ہے کہ یہاں بیشمار اولیائے اللہ کا قیام رہا تھا۔
دریائے کرشنا کی دو معاون ندیوں تنگابھدرا اور ہندری کے دو آبے پر واقع اس تاریخی شہر کرنول میں سیلاب نے جو تباہی مچائی اس کے سبب کرنول شہر تو 12 تا 15 فیٹ پانی میں ڈوبا مگر کرنول اور متصل ضلع محبوب نگر کے کئی علاقے اس سیلاب کی نذر ہو کر بہہ گئے۔ البتہ یہ قدرت کا کرشمہ رہا کہ انسانی جانوں کا بہت کم اتلاف ہوا۔ لیکن ہفتہ دس دن تک بھی کرنول اور محبوب نگر میں انسانی زندگی لڑکھڑاتی رہی۔
یکم اکتوبر کی شام کرنول کے نوجوان باشندے جب تنگابھدرا ندی کے تیز بہاؤ کو تفریح کی طرح دیکھ رہے تھے تب انہیں یقیناً اس بات کا علم نہیں تھا کہ یہ بہاؤ ان پر شب خون مارنے والا ہے۔ اور دوسرے ہی دن 2-اکتوبر کی صبح صبح تنگابھدرا اور ہندری ندی کے پانی نے شہریان کرنول کو بستر لپیٹنے کی مہلت بھی نہ دی اور مال و متاع کی فکر چھوڑ کر سب کو جان بچانے اونچی عمارتوں کی چھتوں پر بھاگنا پڑا۔ اور چار پانچ دن بعد جب پانی اترا تو کچرے اور کیچڑ کے ساتھ ساتھ مکانات و دکانات کا تلف شدہ ملبہ گویا وبائی امراض کو پھیلنے کا خطرہ بھی دے گیا ہے۔

چند گھنٹوں کی آفت نے وقت کے دھارے کو بدل ڈالا ہے۔ سینکڑوں بستیاں اجڑ گئیں ، لاکھوں افراد کی تقدیریں بدل گئیں ، دوسروں کو سہارا دینے والے بےسہارا ہو گئے۔ مگر کرنول اور محبوب نگر میں زندگی اس وقتی تنزل سے ختم نہیں ہوئی ، متاثرے علاقے زندگی کی نئی شروعات کر رہے ہیں۔ رضاکارانہ ادارے اور افراد ہر طرف پھیلے مدد کئے جا رہے ہیں۔ چمن سے صحرا بننے دیر نہیں لگتی لیکن صحرا سے دوبارہ چمن بنانے میں وقت ضرور لگتا ہے۔

4 تبصرے:

  1. السلام علیکم ۔ نقشہ دیکھ کر یاد آیا کہ میرے والدیں میری پیدائش سے قبل سکندر آباد میں رہتے تھے

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت افسوس ہوا پڑھ کر۔

    آصف

    جواب دیںحذف کریں
  3. اللہ تعالی معاملات میں آسانیاں پیدا فرمائیں جن کا نقصان ہوا ہے انہیں بہترین بدلہ عطا فرمائیں اور جاں بحق ہونے والوں کی بخشش فرمائیں آمین

    جواب دیںحذف کریں
  4. شمالی کرناٹک اور آندھرا پردیش میں حالیہ بارشوں سے بڑی تباہی مچی ـ مرکزی سرکار سے دونوں ریاستوں کو ایک ایک ہزار کروڑ کی امداد ملی اور ہندوستانی عوام نے بھی اپنے ہموطنوں کی مدد کیلئے کوئی کثر نہیں چھوڑی ـ ہم سبھی نے اپنا دیوالی تیوہار کا بونس بطور ریلیف فنڈ جمع کروایا ـ

    جواب دیںحذف کریں