شنشاہِ ظرافت : سلیمان خطیب - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2009/07/01

شنشاہِ ظرافت : سلیمان خطیب

شعر و ادب اور تہذیب و تمدن کے مرکز شہر گلبرگہ کو اس بات پر بہت ناز ہے کہ اس شہر نے نجانے کتنے سپوتوں کو جنم دیا ، جنہوں نے نہ صرف شعر و ادب کی محفلیں جمائیں بلکہ اپنی تخلیقات سے اپنی انفرادیت کا سکہ جما دیا ۔
ایسے ہی منفرد لب و لہجے کے دکنی شاعر جناب سلیمان خطیب ہیں جنہوں نے اپنی شاعرانہ صلاحیتوں نے ذریعے سارے دکن کے میدانِ مزاح نگاری میں اپنی ایک علحدہ شناخت بنائی ۔ زبان کی ندرت ، دل کو چھو لینے والا اندازِ بیاں اور نظموں کی ڈرامائیت کی وجہ سے انہوں نے ہندوستان گیر شہرت حاصل کی ۔

سلیمان خطیب 26۔ ڈسمبر 1922ء کو چٹگوپہ ، معین آباد ، کرناٹک کے ایک مہذب خطیب گھرانے میں پیدا ہوئے اور شہرِ گلبرگہ کو اپنا وطنِ ثانی بنایا ۔ 1941ء سے 1977ء تک آپ واٹر ورکس گلبرگہ میں سرکاری ملازمت پر کارگزار رہے ۔ آپ کی وفات اکتوبر 1978ء میں ہوئی ۔
‫1974ء میں حکومتِ کرناٹک نے انہیں اسٹیٹ ایوارڈ سے نوازا تھا ، اس کے علاوہ بھی بیشمار انعامات و اعزازات سلیمان خطیب کو عطا کئے گئے ۔

سلیمان خطیب نے متوسط طبقہ کے معاشرتی مسائل کو اپنا موضوع بنایا تھا ۔
پہلی تاریخ ، چھورا چھوری ، ساس بہو ، سانپ ، ہراج کا پلنگ ، اٹھائیس تاریخ ۔۔۔ جیسی خطیب کی لازوال نظمیں ، جو حقیقت پسندی اور طنز و مزاح سے لبریز تھیں ، کافی مقبول و معروف ہوئیں ۔

کیوڑے کا بن ، سلیمان خطیب کی مزاحیہ شاعری کا ایک شاہکار مجموعہ ہے ۔ دکنی شاعری کے لیے ایک تاریخی تحفۂ نایاب ہے ۔ ڈاکٹر شمیم ثریا صاحبہ نے ’کیوڑے کا بن‘ کے پیش لفظ میں بالکل صحیح لکھا ہے کہ ‫:
سلیمان خطیب کا دکنی اردو کو شاعری کے لئے اختیار کرنا بلاشبہ ایک جراءت مندانہ اقدام تھا ۔ اپنے اس عمل کے ذریعے انہوں نے یہ ظاہر کرنا چاہا کہ کوئی بھی زبان ادبی یا غیرادبی نہیں ہے بلکہ وہ زبان جو مقبولِ عام ہو وہی اپنے زمانے کی زبان ہوتی ہے ۔

نظم ’اٹھائیس تاریخ‘ میں خطیب نے ایک مفلوک الحال بیوہ کی درد بھری آہ کو اچھوتے انداز میں پیش کیا ہے جس میں مزاح کے ساتھ ساتھ طنز کا پہلو بھی مضمر ہے ۔

اٹھائیس تاریخ

روز لڑ لڑ کو جان کھا کھا کو
اچھا جنگل میں سو گئے آ کو
ایسا مرنا بھی کئیکا مرنا جی
گھر میں بیٹی جوان بیٹھی ہے
کِتیورا لوگاں کے پاواں پڑ پڑ کو
گھر سے میت کو میں اٹھائی ہوں
جینا مرنا تمہارا قرضے کا
آج پھولاں اُدھار لائی ہوں
یِتا احسان ہم پو کرنا تھا
تنخواہ لینے کے بعد مرنا تھا ‫!

---
مضمون : شنشاہِ ظرافت ، سلیمان خطیب
مضمون نگار = سید چندا حسینی اکبر
‫(‬ اقتباس بحوالہ : روزنامہ منصف ، حیدرآباد ‫)

3 تبصرے:

  1. آجکل اردو بولنے والے جو اپنے آپ کو اُردو اسپِیکِنگ کہتے ہیں ۔ ان کی اردو سنی جائے تو پریشانی ہونے لگتی ہے ۔ اور مزاح تو آج کل بھونڈا ہو کر رہ گیا ہے ۔

    ہاں ۔ یہ بتایئے کہ اسکندرآباد اور جبل پور آجکل کس ضلع اور کس صوبہ یا ریاست میں ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  2. @ دوست
    شکریہ دوست بھائی
    @ افتخار اجمل بھوپال
    اسکندرآباد نامی شہر کوئی نہیں ہے۔ ہاں "سکندرآباد" نامی شہر ہے جسے حیدرآباد (دکن) کا جڑواں شہر کہا جاتا ہے اور جو حیدرآباد ہی سے متصل ہے۔
    جبل پور ، مدھیہ پردیش کا مشہور شہر ہے جہاں سے دریا نرمدا گزرتا ہے۔ یہ ہند کا اولین شہر ہے جس نے 2007ء میں ISO-9001 سرٹیفیکٹ حاصل کیا تھا۔ کئی اہم قومی اور ریاستی دفاتر جبل پور میں قائم ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں